Baseerat Online News Portal

اترپردیش کے مسلمانوں اور مجلس اتحاد المسلمین کو دردمندانہ مشورے

مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی
اتر پردیش میں تین بڑی مشہور سیکولر پارٹیاں ہیں ، سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اورانڈین نیشنل کانگریس، اور ان ہی تینوں پارٹیوں کو ووٹ دینا مفید ہے ، بقیہ پارٹیوں کو ووٹ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، بلکہ میرے خیال سے بہوجن سماج پارٹی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہیے ، مسلمانوں کو صرف تین پارٹیوں یا تین اتحاد کے مناسب امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے ۔
1- مجلس اتحاد المسلمین ، پیس پارٹی اور راشٹریہ علماء کونسل کے امیدوار جہاں مضبوط ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں اور ان کو ووٹ دینے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے کامیاب ہونے کا خطرہ نہ ہو ، وہاں ان پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دیجیے ۔
2- سماج وادی پارٹی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دیا جائے ، خاص طور سے سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے مسلم امیدواروں کو متحد ہوکر ووٹ دیا جائے ، سماج وادی پارٹی کی اتحادی جماعتوں میں سے جو جماعتیں دو ہزار سترہ کے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ تھیں ، ان پر زیادہ بھروسہ نہ کیا جائے ۔
3- کانگریس نے ماضی میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں ، کانگریس سمیت ہندوستان کی ہر سیکولر پارٹی میں فرقہ پرست لیڈران ہیں ، اور وہ اپنی طاقت کے بقدر کچھ نہ کچھ غیر جمہوری کام کرتے رہے ہیں ، مگر مسلمانوں اور وطن عزیز ہندوستان کی بھلائی اسی میں ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس جیسی سیکولر پارٹیوں کو زندہ رکھا جائے ، اور اس میں اچھے لوگوں کو شامل کرکے اس کی تطہیر کی جاتی رہے ۔
انیس سو سڑسٹھ میں اندرا گاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے آج تک تمام مخالف جماعتوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے خلاف کام کیا ہے ،اور عوام کو بڑے سنہرے خواب دکھائے ہیں ، اور ہندوستانی عوام نے کانگریس کا نعم البدل تلاش کرنے کی کوشش کی ، مگر چون سالوں کی کوششوں کے بعد بھی کانگریس کا نعم البدل نہیں مل سکا ہے ، کئی صوبوں میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو کانگریس سے اچھی ہونے کا کچھ سالوں تک ناٹک کرتی ہیں ، مگر تجربات کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ کانگریس سے بھی بدتر ہیں ، اور اگر مان بھی لیں کہ بعض ریاستی سیکولر پارٹیاں کانگریس سے اچھی ہیں تو بھی ہمیں ایک ایسی قومی پارٹی کی ضرورت ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کر سکے ، اور کئی بار کے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ ملکی سطح پر صرف انڈین نیشنل کانگریس ہی کرسکتی ہے ، جو حضرات کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک ہی سمجھتے ہیں ، وہ بھیڑیے اور شریر مینڈھے کے درمیان فرق کرنا نہیں جانتے ۔
کانگریس کی حکومت میں دہشت گردی کے نام پر سینکڑوں نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ، اور بعض کا ان کاؤنٹر بھی کیا گیا ، مگر کانگریس کی حکومت میں طلاق بل کی مخالفت میں چار کروڑ مسلم خواتین کے دستخط کے باوجود طلاق بل پاس کر کے ہماری شریعت کا مذاق نہیں اڑایا گیا ،تین سو ستر کو ختم کرکے کشمیریوں کو برباد نہیں کیا گیا، کشمیر کے ٹکڑے نہیں کیے ، شہریت ترمیمی بل سی اے اے کانگریس کے زمانے میں پاس نہیں کیا گیا ۔
گذشتہ سات سالوں میں مسلمانوں ، دلتوں ، کسانوں اور عام ہندوستانیوں پر جو ظلم ہوا ہے اور جس طرح سے ہر سرکاری چیز کو بیچا جارہا ہے ، روز مرہ کی ضروریات اور اسباب سفر کو مہنگا کیا جارہا ہے ، ان سب کا تقاضا یہ ہے کہ قومی سطح پر دوبارہ کانگریس کو مضبوط کیا جائے ، اور کانگریس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی ، بہار کی راشٹریہ جنتا دل اور بنگال کی ترنمول کانگریس کو بھی ایک حد تک مضبوط رکھا جائے ، اور ہر صوبے کی مسلم اکثریتی نشستوں سے مسلم پارٹیوں کے امیدواروں کو بھی کامیاب بنایا جائے ۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ سیکولر پارٹیوں سے اپنا ناطہ بالکلیہ توڑ لیں اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ مسلم پارٹی اپنی طاقت سے زیادہ نشستوں پر امیدوار کھڑے کرے ۔
اترپردیش کے مسلمانوں اور مسلم پارٹیوں کو کیرل کے مسلمانوں اور کیرل کی مسلم لیگ سے سبق لینا چاہیے ، کیرلا کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کو اپنے بچوں اور بزرگوں کی طرح بڑے ہی پیار سے سنبھال کر رکھا ہے ، اور مسلم لیگ صرف ان ہی نشستوں پر اپنے امیدوار اتارتی ہے جہاں وہ بہت مضبوط ہو اور کامیاب ہونے کی پوزیشن میں ہو ۔
کیرل میں ستائیس فیصد مسلم آبادی کے باوجود مسلم لیگ نے انیس سو سنتاون سے دو ہزار اکیس تک کبھی بھی اسمبلی کی پچیس نشستوں سے زیادہ ہر امیدوار نہیں اتارے ، اور بیس پارلیمانی حلقوں میں سے دو نشستوں سے زیادہ پر امیدوار نہیں اتارے ، اور اسے کیرالا کی ایک سو چالیس رکنی اسمبلی میں سے آٹھ تا بیس سیٹیں ملتی رہی ہیں اور ایک دو بار کو چھوڑ کر ہمیشہ لوک سبھا کی دو سیٹیں ملتی رہی ہیں ، انیس سو ستہتر تک مسلم لیگ کو بھی کانگریس ٹرخاتی رہی ، مگر جب تین چار الیکشن کے بعد کانگریس کو محسوس ہوگیا کہ مسلم لیگ کے بغیر حکومت کرنا مشکل ہے ، تب کانگریس نے مسلم لیگ کو اپنے اتحاد میں شامل کرلیا اور اس اتحاد سے دونوں کو فائدہ ہے ، اور یہ اتحاد پنچایت الیکشن میں بھی ہوتا ہے ۔
جنوبی اضلاع کولم اور تریوندرم جہاں سے مسلم لیگ اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑتی ایسے اضلاع میں بھی مسلم اکثریتی حلقوں سے مسلم لیگ کے ضلع پنچایت ، بلاک پنچایت کے ممبران اور پنچایت کے پرسیڈینٹ ( مکھیا ، پردھان، ) ہوتے ہیں ۔
میں آخر میں پھر مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈران سے گزارش کروں گا کہ آپ حیدرآباد والی دانشمندانہ سیاست ہی اتر پردیش میں کیجیے ، آپ حیدرآباد میں سات ممبران اسمبلی اور ایک ممبر لوک سبھا ہونے کے باوجود حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی ڈیڑھ سو نشستوں میں سے صرف ایک تہائی نشستوں تقریبا پچاس نشستوں پر امیدوار اتارتے ہیں اور تقریبا پینتالیس پر کامیاب ہوتے ہیں ،ایسے ہی اتر پردیش میں بھی کیجیے ، اتر پردیش کے پنچایت انتخابات اور دو ہزار سترہ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیجیے ، اپنی ریلیوں اور جلسوں میں امنڈتی ہوئی بھیڑ کو نہ دیکھیں ، بہار اور جھارکھنڈ میں بھی آپ کی ریلیوں میں بہت بھیڑ تھی ، مگر خاطر خواہ ووٹ صرف اڑسٹھ فیصد مسلم آبادی والے کشن گنج کی چار سیٹوں میں سے دو سیٹوں پر ، چالیس فیصد مسلم آبادی والے پورنیہ ضلع کی دو سیٹوں پر ، اور بیالیس فیصد مسلم آبادی والے ارریہ ضلع کی ایک سیٹ پر ملا، اور ان ہی پانچ نشستوں سے مجلس کے امیدوار کامیاب ہوئے، اور یہ پانچوں نشستیں اگرچہ تین اضلاع میں ہیں ، مگر یہ پانچوں نشستیں ایک علاقے میں ہیں اور ایک دوسرے سے متصل ہیں ، چار نشستیں تو کشن گنج لوک سبھا کے تحت ہی ہیں ۔
بہار میں مجلس اتحاد المسلمین کے پانچ کامیاب امیدواروں میں سے ایک شہنواز سیٹینگ ممبر اسمبلی تھے ، اور اپنے بڑے بھائی کے خلاف لڑ رہے تھے ، راشٹریہ جنتا دل نے شہنواز کو ٹکٹ نہ دے کر ان کے بڑے بھائی کو ٹکٹ دیا تھا جو کئی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوچکے تھے اور ان کے والد کی کامیاب سیاست کا سلسلہ انیس سو سڑسٹھ سےان کی وفات دو ہزار اٹھارہ تک چل رہا تھا ، اختر الایمان صاحب راشٹریہ جنتا دل کے ٹکٹ پر تین بار منتخب ہوچکے تھے ، بقیہ دو امیدوار بھی پہلے ممبر اسمبلی رہ چکے ہیں ، صرف ایک صاحب پہلی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں مگر وہ بھی جمعیت علماء ہند کے ضلعی ذمے دار رہ چکے ہیں ۔
اتر پردیش میں کوئی ضلع بھی اڑسٹھ فیصد مسلم آبادی والا نہیں ہے ، صرف رامپور ضلع ہی اتر پردیش کا مسلم اکثریتی ضلع ہے اور وہاں صرف پونے اکیاون فیصد مسلمان ہیں ، اگر مجلس کے امیدوار رامپور میں اعظم خاں یا ان کی فیملی کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو یہ قوم کے بہت بڑے محسن کے ساتھ بہت بڑی غداری ہوگی ، اعظم خاں اور ان کی فیملی کے ممبران کو کامیاب کرانا بہت ضروری ہے ، اس سے محمد علی جوہر یونیورسٹی کا مستقبل وابستہ ہے ، اتر پردیش کی سیاست آسان نہیں ہے ، اس لیے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیجیے اور وہی کام کیجیے جو اتر پردیش کے حالات کے مناسب ہو۔

Comments are closed.