Baseerat Online News Portal

احتجاج کو کب کامیاب مانا جاتا ہے؟

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

 

پردرشن، ورودھ، احتجاج، بند اپنی بات حکومت تک پہنچانے اور ان کے سامنے اپنی مانگیں رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، دنیا بھر میں احتجاج ہوتے ہیں، مگر ہر ایک کامیاب بھی ہو یہ ضروری نہیں ہے، کبھی ایک وہ پردرشن جو کم تعداد والا ہے مگر کامیاب ہوجاتا ہے، اور کبھی طویل ترین اور بڑی تعداد میں جاری احتجاج بھی ناکام ہوجاتا ہے، اس وقت ملک میں کسانی آندولن کی ہوا ہے، جس نے حکومت کی ناک میں دم کردیا ہے؛ جبکہ گزشتہ سال شاہین باغ کی تحریک ہر کسی کے سامنے تھی، اس کا جوش و جذبہ اور لوگوں کے درمیان اس کی قبولیت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں اس کے چرچے تھے، اسی طرح امریکہ میں جارج فلائڈ ایک سیاہ فام شخص کا امریکی پولس کے ہاتھوں مرجانے کے بعد احتجاج اور ہانک کانگ کا احتجاج جو انہوں نے نیشنل سکیورٹی لا کے خلاف کیا تھا وہ بھی قابل شمار ہیں، مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کوئی احتجاج کب کامیاب مانا جاتا ہے؟ اس کیلئے محققین نے کچھ پیمانے مقرر کئے ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
١- بیداری پیدا کی یا نہیں. ایک سب سے پہلا مقصود اور پیمانہ یہ ہے کہ اس احتجاج نے لوگوں کے اندر بیداری، ہوش اور مسئلہ کی سنگینی کے تئیں بیدار کیا یا نہیں، اسے کئی طرح سے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے؛ جیسے امریکہ میں بیلک لائیو موومنٹ کے بعد پایا گیا تھا کہ لوگوں کے اندر سیاہ فام امریکیوں کیلئے نرم گوشہ اور اچھی فکر نے ارتقاء پائی، کئی جماعتوں اور مختلف فکر کے لوگوں نے بھی انہیں تعاون فراہم کیا، بہرحال اس اصول کو برتنے کے بھی کچھ ضابطے اور علامات ہیں:
الف:ایک اس کی علامت ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوجائیں، مگر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، اب تو لوگ یونہی بات بات پر جمع ہوجاتے ہیں یا اسے ایک ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہیں.
ب:جس میں دھمکی دینا بھی شامل ہے، تاکہ لوگ اس کی طرف اکٹھا ہوجائیں، مثال کے طور پر ٢٠٠٤ میں ششما سوراج نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر سونیا گاندھی وزیراعظم بنیں تو وہ سر منڈوالیں گی.
ج: اسی طرح لوگ علامات بھی استعمال کرتے ہیں، جیسے تصاویر، پینٹنگ وغیرہ، ١٩٧٣ میں چیکو موومنٹ میں اس کا سہارا لیا گیا تھا، گجرات میں شودر پر تشدد کے خلاف ایک نے مری ہوئی گائیں ضلع کلکٹر آفیسر کی آفس کے سامنے ڈال دی تھیں، ٢٠١٧ میں کسان ہڈیوں کے ساتھ احتجاج کر رہے تھے.
٢- ان معیارات دوسرا یہ ہے کہ کیا احتجاج کی وجہ سے اس مدعا کے بارے میں لوگوں کے خیالات بدلے ہیں. عموماً کسی آندولن سے لوگوں کی سوچ بدلنا بھی مقصود ہوتا ہے، چنانچہ کسی پروٹسٹ کی کامیابی کیلئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کیا اس سے لوگوں کی سوچ بدلی ہے، جیسے امریکہ میں بلیک لائیو میٹر موومنٹ کے بعد یہ پایا گیا تھا کہ لوگوں میں ایک مثبت سوچ کی تبدیلی پائی گئی ہے.
٣- قانون کی تبدیلی. احتجاج کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے قانون بدل دیا جائے، تو کیا اس کے ذریعے وہ قانون بدل دیا گیا. مثلاً ارجنٹائن کے اندر عرصے سے کیتھولک چرچ کی حکمرانی رہی ہے، جس نے وضع حمل کو ناجائز کر رکھا تھا، مگر وہاں کی نوجوان آبادی اسے منظور نہیں کرتی تھی، ان کی اخلاقی تبدیلی اور انحطاط کی وجہ سے انہوں نے احتجاج کیا اور وضع حمل کیلئے قانونی حیثیت حاصل کرلی.
٤- انتخابی نتائج کو بدل دینا. کبھی کبھی ایک احتجاج اس لئے کیا جاتا ہے کہ سرکار ہی بدل دی جائے جیسے ٢٠١٩ میں سوڈان اور الجیریا کے وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا، ایک رپورٹ کے مطابق ٢٠١٧ سے اب تک احتجاج کی بنا پر ٣٠/ سرکاریں بدلی جاچکی ہیں.
اب یہ جاننا چاہئے کہ کوئی احتجاج کیسے کامیاب ہوتا ہے، ریسرچر نے اس کیلئے کچھ اہم. باتیں نقل کی ہیں:
١- لوگوں کا خوب جمع ہوں. ایک تحقیق کے مطابق ایک تہائی آبادی ہو تو کامیابی کی ضمانت ہے، مگر یہ ضروری بھی نہیں کیونکہ سرکاریں بہت طاقتور ہوتی ہیں ان کے پاس اتنا پاور ہوتا ہے کہ ایک عظیم بھیڑ کو بھی قابو کرلے.
٢- غیر تشدد احتجاج. ہمارا ملک غیر تشدد تحریک کیلئے جانا جاتا ہے، گاندھی جی کی زندگی اس پر دلیل ہے، ایک سروے میں پایا گیا ہے کہ اگر احتجاج میں تشدد ہو تو لوگ اس سے نہیں جڑتے؛ بلکہ اس کا غلط اثر پڑتا ہے، یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اس کا برعکس تاثر جاتا ہے، یہ مشکل بھی ہوتا ہے کیونکہ تشدد کیلئے جوان لوگوں کی ضرورت ہوتی؛ جبکہ غیر تشدد کیلئے ہر طبقہ تیار ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر اسے مناسب ڈھنگ سے برتا جائے تو جو مخالف ہوتے ہیں وہ بھی ساتھ دیتے ہیں.
٣- مدعا کیا ہے؟ یہ بہت اہم ہے کہ مدعا کیا ہے، مدعا بہت تنگ اور معمولی نہیں ہونا چاہیے؛ جیسے گھر کے سامنے نالا کیلئے دھرنا دینا شروع کردیا جائے تو اس میں صرف آس پاس کے لوگ ہی ساتھ دے سکتے ہیں، اور یہ بھی نہ ہو کہ مدعا بہت ہی بڑا ہو جس سے لوگ جڑ نہ پاتے ہوں؛ مثلاً ملک کی معیشت پر احتجاج شروع کردیا جائے، اس سے بھی لوگ گھبرا جاتے ہیں، چنانچہ اس کے کسی خاص شعبہ جات جیسے بیروزگاری، نوکری وغیرہ کو لیکر احتجاج کیا جاسکتا ہے.
٤- سیاست کا دخل. ابھی کسان اور شاہین باغ کا احتجاج دیکھا گیا کہ ان میں سیاست اور سیاست دانوں کو دور رکھا گیا ہے شاید اس لئے کہ ٢٠١٨ کے ایک سروے کے مطابق یہاں لوگوں کو سب سے زیادہ بھروسہ آرمی میں ہے اور سب سے کم سیاست دان اور سیاسی جماعت پر ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ اگر سیاست دخیل ہو تو احتجاج زیادہ کامیاب ہوتا ہے، گزشتہ تحریکوں میں یہی ہوتا آیا ہے، چنانچہ جےپی آندولن میں باقاعدہ طلبہ نے جے پی سے مدد مانگی تھی اور سیاست دانوں کا سہار لیا تھا، جو ایک کامیاب تحریک تھی.
٥- کسی کو ذاتی طور پر نشانہ نہ بنایا جائے – یہ بہت ضروری ہے کہ سب کا ساتھ حاصل کرنے کیلئے کسی ایک کو نشانہ نہ بنایا جائے اور ناہی اس کی ہتک ریزی کی جائے، جیسے صرف مودی کو ہر چیز کا ذمہ دار کہتے ہوئے احتجاج کیا جائے تو لوگوں کا جڑنا مشکل؛ لیکن پالیسی کو نشانہ بنا کر بات رکھی گئی تو ممکن ہے کہ مخالفت کرنے والے بھی شامل ہوجائیں.
٦- ایکشن تبدیل کرنا ضروری ہے. تحریک میں تجدید لاتے رہنا چاہیے، اگر ایک ہی ڈھنگ پر کوئی احتجاج جاری رہے تو لوگ اکتاہٹ محسوس کریں گے اور چلے جائیں گے، گاندھی جی جلیان والا باغ کے بعد نان کوآپریشن تحریک شروع کی تھی تو یہی انداز اختیار کیا تھا، بیرونی سامان کا بائیکاٹ، لوگوں کا مارچ، کبھی عہدے داروں کا عہدہ چھوڑ دینا وغیرہ سب کچھ شامل کیا گیا تھا.
ان پیمانوں اور معیارات پر دیکھا جائے تو کسان آندولن کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے، وہیں شاہین باغ کا احتجاج بھی ستر فیصد کامیاب ہی ہے، بلکہ اس کی شرح مزید بڑھ سکتی ہے. (تحقیق ماخوذ از- Sooch Utube)

 

Comments are closed.