Baseerat Online News Portal

اخلاقِ نبویﷺ کی چند جھلکیاں(۳)

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

انسانی برابری اور مساوات کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ، آپ ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں صاف فرما دیا کہ کالے اور گورے یا عربی و عجمی ہونے کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ؛ اسی لئے جب بھی کوئی کام ہو تا، آپ ﷺاپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اس کام میں شریک رہتے ، حج میں قریش حدودِ حرم سے باہر نکلنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ؛ اس لئے عرفات نہیں جاتے تھے ، آپ ﷺنے اس امتیاز کو ختم کیا اورعرفہ کے وقوف کو حج کے لئے لازم قرار دیا ۔
عربوں میں خاندان اور ذات پات کی بنیادیں بہت گہری تھیں ، ہر چیز میں اس کا لحاظ رکھا جاتا تھا اور شادی میں تو سب سے بڑھ کر ، مجال نہ تھی کہ ایک اونچے قبیلہ کے فرد کی لڑکی نیچے قبیلہ کے مرد سے بیاہی جاتی اور سب سے کمتر درجہ غلاموں کا تھا ، یہاں تک کہ اگر غلام آزاد کردیا جاتا تب بھی وہ اس لائق نہیں سمجھا جاتا تھا کہ کسی معزز قبیلہ کی لڑکی اس کے نکاح میں دی جائے ، رسول اللہ ﷺنے اس تصور کو توڑا ، اولاً تو آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص رنگ و نسل کی وجہ سے معزز نہیں ہوتا ؛ بلکہ معزز ہوتا ہے اپنے عمل اور تقویٰ کی وجہ سے : إن أ کرمکم عند اللّٰه اتقاکم (معجم الکبیر للطبرانی : ۱۸؍۱۲ ، حدیث نمبر : ۱۶ ، باب العین ) پھر خاص طورپر نکاح کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص دین کے اعتبار سے پسند آئے ، اسے منتخب کریں : من ترضون دینہ (سنن ترمذی ، ابواب النکاح ، باب ماجاء إذا جاءکم من ترضون دینہ ، حدیث نمبر : ۱۰۸۵) آپ ﷺنے تلقین فرمائی کہ لوگ حسب و نسب اور دولت کی وجہ سے رشتہ طے کرتے ہیں ، مگر ہونا یہ چاہئے کہ دین داری اور اخلاق کی بنیاد پر رشتے طے کئے جائیں ، دین داری کی بنیاد پر طے کئے جانے والے رشتہ میں کامیابی مضمر ہے : فاظفر بذات الدین۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح ، باب الأکفاء فی الدین ، حدیث نمبر : ۵۰۹۰)
پھر آپ ﷺنے صرف نصیحت پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا، اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحشؓ کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ سے کیا ، (مصنف عبد الرزاق ، کتاب النکاح ، باب الأکفاء ، حدیث نمبر : ۱۰۳۲۶)اور اپنے متعدد صحابہ کے رشتے عرب کے معزز قبائل میں طے کئے ۔
مساوات و برابری کا آپ کو اس قدر پاس و لحاظ تھا کہ آپ اپنے آپ کو بھی اپنے رفقاء کے برابر رکھنے کی کوشش کرتے ، مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع سے صحابہ اینٹیں اُٹھااُٹھاکر لاتے تھے اور دیوار چنی جاتی تھی ، آپ ﷺبھی اینٹیں اُٹھاکر لائے ، صحابہ نے درخواست کی : ہم خدام حاضر ہیں ، آپ زحمت نہ فرمائیں ؛ لیکن آپ باصرار اس کام میں شریک ہوئے اور فرمایا : میرے اندر اتنی طاقت بھی ہے کہ میں اس کام کو کرسکوں ، اور اجر و ثواب کی ضرورت جیسے تم کو ہے ، ویسے ہی مجھے بھی ہے ۔ (صحیح ابن حبان ، کتاب اخبارہ ﷺ حدیث نمبر : ۷۰۷۹)
۵؍ ہجری میں غزوۂ خندق کا واقعہ درپیش تھا ، صحابہ خندقیں کھودنے میں مشغول تھے اوراس کے اندر چٹانیں بھی تھیں ، آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس مشکل کام میں شریک ہوئے ؛ بلکہ ایک ایسی چٹان جو کسی سے نہ ٹوٹتی تھی ، آپ ﷺکے ذریعہ اس کا مسئلہ حل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب المغازی ، غزوۃ الخندق ، حدیث نمبر : ۳۶۸۲۰)

شرم و حیاء
اسلام سے پہلے عربوں میں شرم و حیاء کی بڑی کمی تھی ، لوگ کھلے عام برہنہ حالت میں غسل کرتے تھے ، قضاء حاجت کے وقت بھی پردہ کا اہتمام نہیں تھا ، یہاں تک کہ کعبۃ اﷲ کا طواف بھی بے لباس کیا جاتا تھا ، آپ ﷺنے بے حیائی کی ان تمام باتوں کو منع فرمایا، صحابہؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺدوشیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ، اور ہر موقع پر حیاء کا لحاظ کرتے تھے ۔ (بخاری ، عن ابی سعید خدریؓ ، حدیث نمبر : ۶۱۱۹)
آپ ﷺنے قدم قدم پر حیا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ، کنواری لڑکی کے لئے شادی پر رضامندی کا اظہار حیا کے خلاف سمجھا جاتا ہے تو آپ ﷺنے ان کے لئے خصوصی رعایت فرمائی کہ اگر ان سے نکاح کی اجازت لی جائے ،وہ انکار نہ کریں اور خاموشی اختیار کرلیں تو یہی کافی ہوگا اور اسی کو اس کی اجازت سمجھا جائے گا : رضاھا صمت (بخاری ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۵۱۳۷) اگر خواتین کوئی ایسا شرعی مسئلہ دریافت کرتیں ، جس کا تعلق صنفی عوارض سے ہو تو آپﷺ اشارۃً جواب دیتے اوراپنا چہرہ پھیر لیتے ۔ (بخاری ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۳۱۵)
آپ ﷺایک بار لیٹے ہوئے تھے، چادر مبارک پنڈلیوں سے ہٹی ہوئی تھی ، حضرت عثمان غنیؓ — جو خود بھی بہت شرمیلے واقع ہوئے تھے — خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور اپنا جسم چھپالیا ، (مسلم ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۲۴۰۱) آپ ﷺنے حیا کی اس قدر تاکید فرمائی کہ اس کو ایمان کا حصہ قرار دیا : الحیاء شعبۃ من الایمان (بخاری ، عن ابی ہریرہؓ ، حدیث نمبر : ۹) حضرت اشج ابو القیسؓ سے آپ ﷺنے فرمایا : تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں ، ایک : حلم وبرباری ، دوسری : شرم و حیاء ۔ (ابن ماجہ ، عن اشبحؓ ، حدیث نمبر : ۴۱۸۸)

راست گوئی اور دیانتداری
آپ ﷺکی راست گوئی اور دیانت مکہ میں ضرب المثل تھی ، لوگ آپ ﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے ، خود ابوجہل بھی اعتراف کرتا تھا کہ آپ ﷺ جھوٹے نہیں ہیں ؛ لیکن کہتا تھا کہ جو باتیں آپ پیش کررہے ہیں ، وہ صحیح نہیں ہے ، آپ نے جب باشاہ روم کو دعوت اسلام کا مکتوب لکھا ، اس وقت ابوسفیان روم میں ہی تھے ، جو اس وقت آپ کے سخت مخالف تھے ؛ چنانچہ شاہ روم نے ابوسفیان سے آپ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا وہ دعویٔ نبوت سے پہلے جھوٹ بھی بولتے تھے ؟ ابوسفیان نے کہا : نہیں ، (صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر ، باب دعاء النبی ﷺ الناس إلی الاسلام ، حدیث نمبر : ۲۹۴۱ ) غرض کہ دشمنوں کو بھی آپ کی راست گوئی کا اعتراف تھا ، دیانت داری کا حال یہ تھا کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے ؛ چنانچہ جب آپ ﷺنے ہجرت فرمائی تو اہل مکہ کی بہت سی امانتیں آپﷺ کے پاس تھیں ، جنھیں آپ ﷺحضرت علی ؓ کے حوالہ کرکے گئے ۔ (فقہ السیرۃ للغزالی : ۴۱۷)
آپ ﷺلوگوں کو سچ بولنے اور دیانت داری کو قائم رکھنے کی خاص طورپر تاکید کرتے تھے ، ایک موقع پر ارشاد فرمایا : تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں : بات کرو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو پورا کرو ، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو دیانت کے ساتھ واپس کرو ، اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کرو ، نگاہوں کو پست رکھو ، یعنی غیرمحرم عورتوں پر نظر نہ جماؤ اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ، یعنی ظلم نہ کرو ۔ (مستدرک حاکم ، عن عبادہ بن صامتؓ : ۴؍۳۵۹)
ایفاء عہد کا آپ ﷺکو بڑا لحاظ تھا ، صلح حدیبیہ میں جو شرطیں طئے پائیں ، آپ ان پر سختی سے قائم رہے ، بعض مظلوم مسلمانوں کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر بھی وعدہ خلافی کرنا گوارہ نہ کیا ، غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ ایک تہائی سے بھی کم تھی ؛ اس لئے ایک ایک آدمی کی اہمیت تھی ؛ چنانچہ عین جنگ کے وقت حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد یمان (جن کا اصل نام حسیل بن جابر تھا ) کہیں سے آرہے تھے کہ ان دونوں کو اہل مکہ نے پکڑ لیا ، اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے ، یہ حضرات مسلمانوں کے ساتھ غزوہ میں شریک ہونا چاہتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺنے انھیں واپس کردیا اور فرمایا : ہم ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کے قائل ہیں ، (اسد الغابۃ : ۱؍۷۰۶ ، حدیث نمبر : ۱۱۱۳) نبوت سے پہلے ایک صاحب سے معاملہ ہوا، وہ آپ ﷺ کو بیٹھاکر چلے گئے کہ آکر حساب کر دیتا ہوں ، مگر ان کو خیال نہیں رہا ، تین دنوں بعد آئے تو آپ ﷺ اسی جگہ تشریف رکھتے تھے ، آپ نے فرمایا : تین دنوں سے یہیں تمہارا انتظار کررہا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب الأدب ، باب فی العدۃ ، حدیث نمبر : ۴۹۹۶)
غرض کہ آپ ﷺ کی ذات گرامی فضائل اخلاق کا نمونہ اور رزائل اخلاق سے مبرا تھی، آپ ﷺنے نہ صرف اخلاق کی تعلیم دی ؛ بلکہ عملاً انھیں برت کر دکھایا۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.