Baseerat Online News Portal

ارطغرل ڈرامے کے پرجوش مداحوں سے التماس

مولانا محمود احمد خاں دریابادی

جنرل سیکرٹری آل انڈیا علماء کونسل ممبئی

پچھلے کچھ دنوں سے ایک ترکی ڈرامہ ارطغرل کا ذکر بہت ہورہا ہے، معلوم ہوا کہ کچھ لوگ پابندی سے اُسے دیکھ رہے ہیں، اس کے فضائل و مناقب بیان کرکے دوسروں کو دیکھنے کی ترغیب بھی دیرہے ہیں ـ اگر معاملہ صرف کچھ لوگوں کے دیکھنے دکھانے تک محدود رہتا تو ہمیں شاید اس پر عوامی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی، اس لئے کہ لوگ انفرادی طور پر ہمیشہ سے بہت کچھ ایسا دیکھتے آئے ہیں جو نہیں دیکھنا چاہیئے، پھر آج کل تو ساری دنیا مٹھی میں ہے، نیٹ پر نہ جانے کیسا کیسا مواد دستیاب ہے جس کو ایک بار دیکھنے کے بعد بار بار بلکہ ہر بار دیکھنے کی ہوس بیدار ہوتی رہتی ہے ـ اس لئے اگر کچھ لوگ کوئی نامناسب چیز دیکھ رہے ہیں اور اپنے ہم خیال اور ہمراز افراد کو بھی اپنے ساتھ دیکھنے میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہورہی ہے ـ

مگر اس بارایک نئی بات ہورہی ہے، اب تک یہ ہوتا تھا کہ عوام الناس غلط چیزیں دیکھتے تھے مگر اس کو گناہ بھی سمجھتے تھے، اگر علماء یا دیندار افراد منع کرتے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے تھے، ندامت کا اظہار بھی کرتے تھے، …………. اس مرتبہ عوام کے بجائے ” ادھ کچرے مولوی نما افراد ” سے واسطہ ہے، یہ ” نیم خواندہ قلم گھسیٹ ” افراد نہ صرف دھڑلے سے ڈرامہ دیکھ رہے ہیں، دوسروں کو دیکھنے کی تبلیغ کررہے ہیں، ساتھ ہی منع کرنے اور اس کو غلط کہنے والے افراد، علماء اور مفتیان کی تنقیص و تضحیک بھی کی جارہی ہے کہ تم لوگوں کو کچھ نہیں آتا، تم وہی ہو جنھوں نے ایک عرصے تک مائک کی مخالفت کی، اب مائک پر نمازیں پڑھتے پڑھاتے ہو، تم لوگ ہر نئی ترقی کی مخالفت کرتے ہو، ارطغرل ایک اسلامی ڈرامہ ہے، اس کو دیکھنے سے مسلمان کے اندر دینی حمیت اور غیرت پیدا ہوتی ہے، احساس کمتری دور ہوتا ہے، تم لوگ بسم اللہ کے گنبد میں بند رہنے والے یہ سب کیا سمجھو گے اس لئے اپنے کام سے کام رکھو، فتوے بازی بند کرو، وغیرہ وغیرہ ـ

حالانکہ علماء نے اُس ڈرامے کی مخالفت کی ہے اس کی مضبوط شرعی بنیادیں ہیں، سب پہلے تو تصویر کا مسئلہ ہے، مگر اس کو ہم اس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ فی زمانہ بہت سے علماء نے ڈیجیٹل تصاویر کو تصویروں کے زمرے میں شامل نہیں سمجھا، ……….. لیکن میوزک بدستور حرام ہے، ………. عورت کے چہرے کا پردہ ہونا چاپیئے یا نہیں اس میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر نامحرم سے بے محابا بے تکلفانہ گفتگو، کھلے عام ایک دوسرے کے لئے محبت اور عشق کا اظہار ، اس کی تو کوئی اجازت نہیں دیتا اور پھر اصل واقعئے سے ہٹ کر محض زیب داستان اور ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے جھوٹے واقعات کی شمولیت اس پر مستزاد ہے ـ

سوال یہ ہے کہ کیا کسی مفروضہ دینی حمیت، اسلامی غیرت اور احساس برتری پیدا کرنے کے لئے جھوٹ کے فروغ، نامحرموں سے میل ملاپ اور رقص و موسیقی کی عام اجازت دی جاسکتی ہے ؟

پھر معاملہ ارطغرل تک ہی کیوں محدود رہے، اس پہلے بھی درجنوں ایسی فلمیں آچکی ہیں جن کا ہیرو مسلمان تھا اور ان کی کہانی بھی اسلام اور مسلمانوں کے غلبے پر مشتمل رہی ہے، عمر مختار، فجرالاسلام اور ضحی الاسلام جیسی فلمیں اسی قبیل کی تھیں ـ ہندوستان میں بھی ایسی فلمیں بنتی رہی ہیں جن میں مسلم تمدن اور اسلامی تہذیب کو نمایاں رکھا گیا ہے ـ کہتے ہیں کہ پہلی بولتی فلم عالم آرا بھی ایک خالص مسلم فلم تھی، مغل بادشاہوں کے حالات اور واقعات پر مشتمل کئی مشہور فلمیں بنی ہیں ـ اِن تمام فلموں میں زیب داستان کے لئے تھوڑا سا جھوٹ، ناظرین کی.دلچسپی کے لئے کچھ گانا بجانا وغیرہ شامل کیا گیا ہے ـ کیا اِن سب کو بھی جائز ہونا چاہیئے تھا؟

ہمیں پتہ ہے کہ ارطغرل ڈرامے کے کچھ پُر جوش، نیم خواندہ مداح ہماری اس التماس کو بالکل قبول نہیں کریں گے ، پھر بھی اتمام حجت کے طور پر یہ عرض کرنے کا جی چاہتا ہے کہ

” عزیزو آپ کو جو کچھ بھی پسند ہے وہ بے شک دیکھئے، اپنے ہم خیال دوستوں کو بھی دکھائیے ………. مگر …….. خدا را اپنے کسی غلط عمل کو شرعی جواز عطا کرنے کی کوشش مت کیجئے، ………. آپ کو مفتیان اور علماء کی بات نہیں ماننی ہے تو مت مانئے، اُن کا مذاق بنانا چاہتے ہیں شوق سے بنائیے ……… مگر …….. غلط کو غلط کہنا ان کی شرعی ذمہ داری ہے ………..اللہ کےواسطے ان کو اپنی شرعی ذمہ داری ادا کرنے سے مت روکئے ـ

نوٹ: مداحین ارطغرل سیرئل کی طرف سے ہر طرح کی تنقید، تنقیص اور تضحیک کا خیر مقدم ہے ـ فقط

Comments are closed.