Baseerat Online News Portal

ارنب گوسوامی چیٹ معاملہ: ننگے مزیدننگے ہوگئے!

ملک سے کھلواڑکے’ تانڈو‘پر’دیش بھکت‘ خاموش کیوں؟
سنڈے اسٹوری:شکیل رشید
ریپبلک ٹی وی کے مالک و مدیر ارنب گوسوامی کے واٹس ایپ چیٹ اور چیٹ کے حوالے سے ان پر ہونے والی نکتہ چینیاں اور ان کی گرفتاری کے مطالبے پر ایک کہاوت یاد آ گئی ہے ، جیسا بوؤ گے ویسا بھرو گے ۔ ماضی لوٹ کر ارنب کے سامنے آ رہا ہے ، انہوں نے دوسروں کے ساتھ جو کیا ہے ویسا ہی ان کے ساتھ ہونے کا پورا پورا امکان ہے ، اور ارنب کو خود اس کا اندازہ اور احساس ہے ، اسی لیے وہ منظر سے غائب ہیں ، مگر ممبئی کی پولیس ان کی تلاش میں ہے ۔ کانگریس نے ارنب اور ان کے ٹی وی چینل کے خلاف زوردار مہم شروع کر دی ہے ۔ مرکز کی مودی سرکار سے اس نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ارنب اور بارک کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے درمیان جو بات چیت ہوئی ہے اس کی جانچ پارلیمانی کمیٹی سے کروائی جاے کیونکہ چیٹ کے جو حصے سامنے آے ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملک کے دفاع سے متعلق خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات عام ہوئی ہیں ۔ ادھر شیوسینا نے بھی اس حوالے سے ارنب اور ریپبلک ٹی وی اور پرانی حلیف بی جے پی پر حملے تیز کر دیے ہیں ۔ گویا یہ کہ ارنب گوسوامی کے لیے ، پارتھو داس گپتا سے کی گئی چیٹ نے ، ایک ایسے ‘ تانڈو’ کی شکل لے لی ہے جو انہیں پھر سے سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتی ہے ۔ اردو میں اسے مکافات عمل کہا گیا ہے ۔
اگر ذرا سا مڑ کر ماضی قریب میں جھانکا جاے تو ارنب کے وہ ‘ کارنامے’ آنکھوں کے سامنے گھوم جائیں گے جو آج خود ان کے سامنے آ کھڑے ہوے ہیں ۔ ریا چکرورتی کا قصور کیا تھا سواے اس کے کہ وہ ایک ایسے اداکار کی محبوبہ تھی جس نے زندگی کی جنگ لڑنے کی بجائے خودکشی کو گلے لگا لیا ۔ سشانت سنگھ راجپوت کی موت پر ارنب اور ریپبلک ٹی وی نے تقریباً ساڑھے تین مہینے تک جو ہنگامہ کیا وہ سب کے سامنے ہے ، خودکشی کے معاملہ کو قتل کا معاملہ قرار دیا ، سشانت کی منیجر دشا سالیان کی خودکشی یا حادثاتی موت کو اس طرح سے پیش کیا کہ مرنے والی کا کردار مسخ ہوگیا ، ایک لاش کی بھی اپنی عزت ہوتی ہے لیکن ارنب لاش تک بے عزت کرنے سے نہیں جھجھکے ۔ لوگوں کو یہ بھی خوب یاد ہوگا کہ ایک چیٹ کی بنیاد پر ریا چکرورتی پر ارنب کے حملے تیز ہوے تھے اور ریا نہ صرف ٹی وی پر قتل کی مجرم قرار دے دی گئی تھی بلکہ اسے منشیات سنڈیکیٹ سے بھی جوڑ دیا گیا تھا اور اس کے بھائی شووک کی پہلے اور بعد میں خود ریا کی گرفتاری عمل میں آئی تھی ۔ ارنب نے ممبئی پولیس پر انتہائی بھدے الزامات عائد کیے تھے مثلاً یہ کہ پولیس دانستہ سشانت کے ‘ قتل’ معاملہ کو دبا رہی ہے ۔ سارا منظر لوگوں کی نظروں کے سامنے ہے ۔ اب یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ ریا چکرورتی کے خلاف مہم کا مقصد سشانت سنگھ راجپوت کو انصاف دلانا ، جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا تھا ، نہیں تھا بلکہ مقصد ٹی آر پی بڑھانا اور ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی مرکزی و ریاستی سرکاروں کے حق میں عوامی ذہن سازی تھا ۔ اور مہاراشٹر کی ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا ، کانگریس اور این سی پی کی ملی جلی سرکار کو کمزور کر کے بی جے پی حکومت میں وزیراعلیٰ رہے دیویندر فڈنویس کے لیے دوبارہ گدی پر متمکن ہونے کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ دشا سالیان کی موت کو جس گھناؤنے انداز میں ، بلکہ بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ ، ریاستی وزیر ، ادھو کے صاحبزادے آدتیہ ٹھاکرے پر ریپ کا الزام عائد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ معاملہ دوطرفہ تھا، ہمیں ٹی آر پی بڑھانے کے لیے ہر ممکن چھوٹ دی جاے ، ہم مودی اور بی جے پی کے لیے لوگوں کا ذہن بنائیں گے ۔ اس پر مزید بات کرنے سے پہلے ارنب اور ریپبلک ٹی وی کے کچھ اور ‘ کارناموں’ پر نظر ڈال لیتے ہیں ۔
کورونا وباء کا جب زور تھا اور لاک ڈاؤن لوگوں کے لیے عذاب بنا ہوا تھا تب ارنب نے جو حرکتیں کیں وہ کسی سے ڈھکی اور چھپی ہوئی نہیں ہیں ، لیکن اس سے کچھ پہلے جب لاک ڈاؤن کا مکمل اعلان نہیں ہوا تھا دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی مرکز میں ایک اجتماع کی خبر کو انہوں نے جہاد سے لے کر بھارت میں کورونا پھیلانے کی سازش تک سے جوڑ دیا تھا ۔ لوگوں کوپتہ ہی ہوگا کہ کیسے ارنب نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا اور کورونا کے پھیلنے کا سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ دیا تھا ، بلکہ کورونا کی وباء کا سبب ہی مسلمانوں کو بتلا دیا تھا ۔ کوئی نہیں بھول سکتا جس طرح سارے ملک میں مسلمانوں کی ناکہ بندی کی گئی ، انہیں مارا پیٹا گیا اور ان کی لنچنگ کی گئی ، سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا گیا ۔ یہ سب ارنب ہی کا کیا دھرا تھا اور اس موقع پر سارے نیوز چینل ، چند ایک کو چھوڑ کر ، ریپبلک چینل ہی بن گیے تھے ، ریا چکرورتی کے معاملہ میں میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ لوگوں کو یاد ہے کہ تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کا ندھلوی کو اس چینل نے مفرور بتایا اور گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس وقت بھی مقصد ٹی آر پی بڑھانا اور ساتھ ہی ساتھ مودی سرکار کے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرنا تھا ۔ ارنب نے یہ سب کیا ، اور اس طرح کیا کہ 2019ء میں جب بی جے پی اور نریندر مودی کی ساکھ متاثر ہو گئی تھی اور عام انتخابات میں ان کی قسمت داؤ پر لگی ہوئی تھی ، ارنب اور ریپبلک ٹی وی نے فایدہ پہنچایا ۔ قوم پرستی کا ڈھول زور و شور سے بجایا گیا، پلوامہ سانحہ اور بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کا پھونپو بجا کر اس کا الیکشن مہم میں استعمال کیا گیا اور ارنب نے اسے خوب عام کیا ۔ اور اب پارتھو داس گپتا سے ارنب کے مبینہ چیٹ نے ایک بار پھر پلوامہ حملے اور اس کے جواب میں بالا کوٹ سرجیکل اسٹرائیک کو سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔ چیٹ سے جہاں بہت ساری باتیں ، مثلاً ارنب اور پی ایم او کے قریبی تعلق اور بی جے پی کے وزراء سے انتہائی نزدیکی تعلقات کا ، اس قدر نزدیکی تعلقات کہ چیٹ میں ارنب مبینہ طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب ہی وزراء ہمارے ہیں ، پتہ چلتا ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ارنب کو مبینہ پہلے سے بالا کوٹ حملے کا بھی پتہ تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹایا جا رہا ہے ۔ چیٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پلوامہ حملے کی خبر سن کر جس میں 42 جوان مارے گیے تھے ارنب خوشی سے کھل اٹھے اور یہ کہہ اٹھے تھے کہ اب بڑے آدمی کی جیت یقینی ہے ۔ اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ اشارہ نریندر مودی کی طرف تھا ۔ اگر واقعی ارنب کو بالا کوٹ حملے کی خبر تھی تو یہ انتہائی تشویشناک معاملہ ہے ، اسے قومی سیکریٹ سے کھلواڑ کہا جا رہا اور ارنب پر غداری کا مقدمہ چلانے کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ راہل گاندھی نے تو جس ذریعے سے اطلاع ارنب تک پہنچی اس کو گرفتار کرنے کی بات کی ہے ۔ ان کا اشارہ فوج اور فضائیہ کے سربراہان ، وزیراعظم مودی اور وزیردفاع و قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی طرف ہو سکتا ہے ۔ کانگریس کے لیڈر پون کھیڑا کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف ارنب کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ کئی اداروں میں گھس پیٹھ کا اور مودی میتھالوجی کو بنانے کا ہے ۔ لیکن چیٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ارنب کا قوم پرستی کا غبارہ پھوٹ گیا ہے ۔ یہ چیٹ بتاتے ہیں کہ کیسے بی جے پی اور مودی نے ارنب اور ریپبلک ٹی وی کو اپنے لیے عوام کے اذہان کو تبدیل کرنے کے واسطے استعمال کیا اور کیسے ارنب نے اعلیٰ اداروں کا استعمال ٹی آر پی بڑھانے اور اپنی جیب بھرنے کے لیے کیا ، تالی دونوں جانب سے بج رہی تھی ۔ میڈیا ارنب کے رنگ میں رنگ رہا تھا ۔ کورونا اور تبلیغی جماعت سے لے کر سشانت سنگھ راجپوت اور ادھو ٹھاکرے سے لے کر پالگھر مآب لنچنگ اور سونیا گاندھی پر گھٹیا الزامات تک اور اس سے بھی قبل پلوامہ اور بالا کوٹ تک سب معاملات میں دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے کو فایدہ پہنچانے کی کوشش تھی ۔ ملکی مفادات کو ، ملک کی سلامتی اور جمہوریت کو داؤ پر لگا دیا گیا تھا ۔ سونیا گاندھی نے سچ ہی کہا ہے کہ جو سب سے بڑے دیش بھکت بنتے تھے اور دیش بھکتی کے سرٹی فیکٹ بانٹتے تھے وہ بے نقاب ہو گیے ہیں ۔ میرا تو یہ کہنا ہے کہ جو ننگے تھے وہ مزید ننگے ہو گیے ہیں ۔

Comments are closed.