Baseerat Online News Portal

اسد الدین اویسی: مخلص رہنما، بے باک لیڈر! لقمان عثمانی @luqman_usmani @asadowaisi

اسد الدین اویسی: مخلص رہنما، بے باک لیڈر!

 

لقمان عثمانی

 

اسد الدین اویسی اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے مخلص رہنما اور ایک عظیم سیاسی قائد ہیں، وہ ہمیشہ مسلمانوں کے مسائل پر سینہ سپر رہتے ہیں؛ لیکن چوں کہ وہ ہندوستان جیسے ڈیموکریٹک اور سیکولر ملک کے سیاسی لڈر ہیں اور انکی شناخت ایک مسلم رہنما کے طور پر ہے، تو ظاہر ہے کہ دوسرے طبقات کا خیال رکھے بغیر نہ انکی سیاست کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے اور نا ہی ان کی آواز کو مضبوطی حاصل ہوسکتی ہے؛ چناں چہ انکے اپنے سیاسی نظریات ہیں، وہ مسلمانوں اور دلتوں کو ساتھ ملا کر اپنے بال و پر پھیلا رہے ہیں اور اپنے بازوؤں کو مضبوط کرنے کی سعیِ پیہم میں مصروفِ عمل ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ غیروں نے تو اویسی کو مسلمانوں کا لیڈر اور انکی پارٹی کو مسلمانوں کی پارٹی تصور کرلیا ہے لیکن خود مسلمان انکو بی جے پی کا ایجینٹ کہنے سے باز نہیں آتے نیز اویسی کو بی جے پی کا ایجنٹ باور کرانے اور انکی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم بتانے میں کانگریس سرِ فہرست ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ اگر مسلمان اویسی سے متنفر نہ ہوئے تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے اور وہ اپنے اسی خوف کو ہمدردی کے قالب میں ڈھال کر مسلمانوں کو مورکھ بنانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ـ

در اصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی غلامی کی اس قدر لت لگ چکی ہے کہ خود اپنی قیادت کو پروان چڑھتے نہیں دیکھ پاتے جبکہ ان پارٹیوں کے منافقانہ رویے سے بھی ہم خوب واقف ہوتے ہیں ـ

اس حقیقت سے منہ موڑ لینا سراسر حماقت ہے کہ کوئی بھی پارٹی خود کو کتنا بھی جمہوریت پسند بتاتی اور مسلمانوں کے تئیں اپنی ہمدردی جتاتی ہو لیکن ہندوؤں کی بالادستی چاہنے اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنے کے سلسلے میں سب کا منشا تقریبا ایک ہے؛ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی بدولت ہی سرکار بنا پانے والی نام نہاد سیکولر پارٹیاں کبھی کسی مسلم کو اعلی عہدوں کیلیے منتخب کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں؟ اعلی عہدوں کیلیے منتخب کرنا تو در کنار بہار کے حالیہ اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم نے عظیم اتحاد کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا چاہا تو اسے اچھوت بنا دیا گیا جبکہ اگر ساتھ ملا لیا جاتا تو اس سے کہیں زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکتے تھے؛ لیکن انہیں ایم آئی ایم کے بہار میں مضبوط ہوجانے کا اندیشہ تھا جو وہ کسی صورت میں گوارہ نہیں کر سکتے ـ

اس بات سے قطعا انکار نہیں کہ ہندوستان میں صرف مسلمانوں کے ووٹ سے اکثریت حاصل نہیں کی جا سکتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ دلت کو بھی ساتھ ملا کر کافی سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں جیسا کہ بہار اسمبلی الیکشن میں ہم نے دیکھ بھی لیا کہ مجلس کو پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی جس میں مسلمانوں کے علاوہ دلت کے ووٹ بھی شامل تھے؛ لیکن ایم آئی ایم کی یہ کامیابی بھی بہت سوں کو ہضم نہیں ہو پا رہی ہے؛ انکا خیال ہے کہ اویسی کے میدان میں آنے سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے بلکہ ہندو متحد ہوکر بی جے پی کو ووٹ کرتے ہیں جس سے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں؛ گویا کہ وہ لوگ بی جے پی کیلیے متحد ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری غیرت نہیں جاگتی کہ ہم بھی متحد ہوجائیں اور اپنی قیادت کھڑی کرنے کی فکر کریں؛ جبکہ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو دوسری پارٹیاں خود ہم سے ملنے پر مجبور ہوجائینگی کیوں کہ ان کی جیت کا سارا مدار ہی مسلمانوں پر ہے؛ چناں چہ اگر کسی پارٹی کی زمام اپنے ہاتھوں میں ہو اور اس پارٹی کے سپورٹ سے سرکار بنتی ہے تو اس میں ہماری حصہ داری ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا استحصال بھی نہیں کیا جا سکے گا؛ کیوں کہ پارٹی کی زمام اپنے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے ہمارے کنڈیڈیٹس کسی بھی مسئلے پر بے باکی سے اپنی بات رکھنے کیلیے آزاد ہونگے ورنہ دوسری پارٹیوں کے ایم پی، ایم ایل اے کی حیثیت مہروں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ورنہ طلاق بل کے مسئلے پر نہ مولانا اسرارالحق قاسمی رح جیسے صاحبِ زبان کی زبان پر تالے لگا دہے جاتے کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہ بول پائیں اور نا ہی اویسی پارلیمینٹ میں پورا زور لگا کر بھی شکست خوردہ لوٹتے اور وہاں خود کو تنہا محسوس کرتے؛ چناں چہ اِس وقت ہندوستانی مسلمانوں کو جس طرح کی نمائندگی چاہیے اور جس طرح کی پارٹی کی ضرورت ہے وہ تمام خوبیاں اویسی اور انکی پارٹی میں بدرجۂ اتم موجود ہیں؛ لیکن افسوس کہ ہم اویسی کے ہی کارناموں پر تالیاں تو پیٹ لیتے ہیں لیکن انہیں پر الزامات و اتہامات کی بوچھاڑ کرتے بھی نہیں تھکتے ـ

Comments are closed.