Baseerat Online News Portal

اسلام احترام آدمیت کا علمبردار

مکرمی!
اسلام کی امتیازات و خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی قبیلہ برادری اور خطے کا مذہب نہیں ہے بلکہ وہ ساری انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا آخری پیغام ہے اور پوری دنیا کے انسان اس کے مخاطب ہیں۔ اس نے انسانیت کا بہت وسیع اور عالمگیر تصور پیش کیا، انسانی اقدار کا پاس و لحاظ کرنے کی پر زور تاکید کی ہے۔ قرآن کریم نے صاف الفاظ میں حکم دیا ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرو خواہ اس کی تکمیل میں اعزہ و اقارب ہی کیوں نہ سد راہ ہوں یا اس کی زد اپنی ذات یا متعلقین پر ہی کیوں نہ پڑ رہی ہو "اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو،اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو،فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے”۔ (النساء:135)
صحابہ کرام جب مذہبی اختلاف کی بنا پر اپنے ان غریب رشتہ داروں کی مدد سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے جو ایمان نہیں لائے تھے تو یہ آیت اتری "اے نبی! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور راہ خیر میں جو مال تم لوگ خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لئے بھلا ہے، آخر تم اسی لئے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم اس کی راہ خیر میں خرچ کروگے اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائےگا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی”۔ (البقرہ: 272)
مشرکین اور عیسائیوں وغیرہ نے اللہ کے علاوہ بہت سے معبود بنالئے ہیں جب کہ اہل ایمان صرف اللہ واحد کی عبادت کرتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عقائد کے اختلاف کو نظر انداز کر کے تمام انسانوں کواللہ کا کنبہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اس میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے”۔ (مشکوة)
ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام انسانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے بہ حیثیت انسان کے وہ اخوت و بھائی چارگی کا استحقاق رکھتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بندے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(مسند احمد جلد: 4، ص:369، حدیث نمبر: 19508،ابوداود،حدیث نمبر:1508)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو جس وقت یمن کا گورنر مقرر کیا تو درج ذیل نصیحت فرمائی:”مظلوم کی بد دعا سے بچو، اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے۔”(بخاری، کتاب المظالم، باب الاتقاء و الحذر) اس مفہوم کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ "مظلوم کی دعا سنی جاتی ہے چاہے وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو اس کے فجور کا تعلق اس کی ذات سے ہے وہ اس کی سزا پائے گا۔”(الترغیب و الترھیب ، جلد:3، ص:187)
انسانوں کی فلاح و بہبود اور ان کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے جو بھی خدمت انجام دی جائے وہ اللہ تعالی کی نظر میں محبوب اور باوزن ہے چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی طور پر، معاشرے میں جس نوعیت کے کار خیر کو انجام دینے پر قدرت ہو اس کو کر گزرنا چاہئے۔ بہ ظاہر کوئی عمل معمولی اور غیر اہم ہونے کی بنا پر اس سے گریز کی راہ اختیار کی جاتی ہے اگر اس کا اجر پیش نظر رہے تو انسان اس سے پہلوتہی نہیں کر سکتا۔ حدیث قدسی سے اس پر مزید روشنی پڑتی ہے کہ کھانا کھلانا، دعوت کرنا، اور پانی پلانا کوئی زیادہ گرانی اور جفاکشی کے طالب اعمال نہیں ہیں مگر بے پایاں اجر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتیں قرار دے کر ان کی تکمیل پر دوسرے انسانوں کو نہایت انوکھے اور نرالے انداز میں ابھارا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "اللہ تعالی قیامت کے دن بندے سے مخاطب ہو کر کہے گا اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو تم نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا اے میرے رب ! میں آپ کی کیسے عیادت کر سکتا ہوں جب کہ آپ تمام عالم کے پروردگار ہیں اللہ تعالی فرمائے گا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تم نے اس کی عیادت نہیں کی کیا تمہیں معلوم نہیں اگر تم نے اس کی عیادت کی ہوتی تو تم مجھے اس کے پاس پاتے، پھر اللہ تعالی فرمائے گا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا وہ کہے گا :اے میرے رب! میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا حالانکہ آپ سارے جہاں کے رب ہیں اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو تونے اس کو کھانا نہیں کھلایا اگر تم اس کو کھانا کھلاتے تو اس کو میری پاس پاتے پھر اللہ تعالی فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تم سے پانی مانگا تو تم نے مجھے پانی نہیں پلایا بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں کیسے آپ کو پانی پلا سکتا ہوں جب کہ آپ ساری کائنات کے رب ہیں اللہ تعالی کہے گا:تم سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا تم نے اسے پانی نہیں پلایااگر تم نے اسے پانی پلایا ہوتا تو تم اسے میرے پاس پاتے۔”(صحیح مسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و انفاق تلقین ہی نہیں کی بلکہ اس کو نافذ کرکے دکھایا ایسا بے مثال انقلاب برپا کیا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر شخص یہ سمجھنے لگا کہ اگر اس نے اپنی آمدنی اور کمائی سے ضرورت مندوں کو محروم رکھا اور ان پر خرچ نہیں کیا تو خود اس کا اپنا خسارہ ہے اس لئے کہ اس کے پاس جو کچھ مال ہے وہ اللہ تعالی کا دیا ہوا ہے۔ اور اس کی امانت ہے اس لئے اس کی رضا کےکاموں میں خرچ کرنا ضروری ہے۔
شوکت شیخ، اورنگ آباد

Comments are closed.