Baseerat Online News Portal

اسلام اور مسلمانوں پر شدت پسندی کا الزام

قسط(اول)

شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ترجمان و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

اسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایک شدت پسند مذہب ہے اور دوسرے مذاہب کو برداشت نہیں کرتا ، پھر اسی نسبت سے مسلمانوں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا رویہ دوسری قوموں کے ساتھ نارواداری اور شدت پسندی کا ہوتا ہے ، اس سلسلہ میں ہمیں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینا چاہئے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے ؟

اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق پوری انسانیت کا آغاز ایک ہی ہستی کے وجود سے ہوا ہے ، خدا نے اسی ہستی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور اس جوڑے سے پوری انسانیت وجودپذیر ہوئی :

اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ، اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا ، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پھیلا دئیے ۔(النساء: ۱)

اس طرح اسلام کی نظر میں پوری انسانیت ایک ہی کنبہ اور خاندان ہے ، یہ ایک ہی درخت کی شاخیں اور ایک ہی گلدستہ کے پھول ہیں ، اس سے ہمیں انسانی اُخوت کا سبق ملتا ہے ، جیسے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اسی طرح ہر انسان ، انسانی رشتہ سے ہمارا بھائی اور ہمارے وسیع تر خاندان اور کنبہ کا ایک حصہ ہے ، یہ اُخوت و بھائی چارگی ہمیں محبت و پیار کا پیغام دیتی ہے اور اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ ہمیں ہر فرد بشر سے محبت ہونی چاہئے ۔

باہمی انسانی روابط کی دوسری بنیاد انسانی شرافت و کرامت اور احترامِ آدمیت ہے ، انسان کو بحیثیت ِ انسان اللہ تعالیٰ نے قابل احترام قرار دیا ہے : وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ ۔ (بنی اسرائیل : ۷۰) ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے ۔

اس کے جسمانی سانچہ کو بہترین سانچہ قرار دیا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ (التین : ۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے ۔

یہ تکریم و احترام تمام بنی نوعِ انسانی سے متعلق ہے ، پیغمبر اسلام ﷺ نے عملی طورپر اس حقیقت کو واضح فرمایا ، ایک بار ایک یہودی کا جنازہ جا رہا تھا ، آپ ﷺ کھڑے ہوگئے ، لوگوں نے عرض کیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے ، آپ ﷺنے فرمایا کہ جان تو اس میں بھی ہے ، (بخاری، حدیث نمبر : ۱۳۱۲ ، باب من قام بجنازۃ یہودی) غزوۂ احزاب کے موقع سے ایک مشرک مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ، اہل مکہ نے خواہش کی کہ اس کی قیمت لے کر نعش ان کے حوالہ کردیں ، تو آپ ﷺ نے کوئی قیمت لئے بغیر نعش واپس کردی ؛ (سیرت حلبیہ:۲؍۴۲۳) کیوں کہ انسانی نعش کی قیمت وصول کرنا انسانی احترام کے مغائر ہے ، اسلام سے پہلے جنگ کا کوئی قانون نہیں تھا اور لوگ مقتول کے اعضاء تراش کر ہار پہنتے اور اپنی آتش انتقام بجھاتے تھے ، اسلام نے ایک تو حتی المقدور جنگ سے بچنے کا حکم دیا ؛ لیکن اگر اس کی نوبت آہی جائے تو جنگ کے مہذب قوانین مقرر کئے، جن میںیہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص پکڑ میں آجائے تو ایذاء پہنچا پہنچا کر قتل نہ کیا جائے، اور جو مارے جائیں ، ان کے اعضاء کاٹے نہ جائیں کہ یہ احترامِ انسانیت کے خلاف ہے ۔

جہاں تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے باہمی روابط کی بات ہے تو اس موضوع کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : سماجی تعلقات ، معاشی تعلقات ، سیاسی تعلقات اور مذہبی تعلقات ، تعلقات کے ان تمام دائروں کے سلسلے میں قرآن و حدیث سے ہمیں تفصیلی رہنمائی ملتی ہے ۔

سماجی تعلقات کے سلسلہ میں بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :

اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حُسن سُلوک اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتے ، جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔ (الممتحنۃ: ۸)

یہ آیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے یہ بات واضح ہے کہ جو غیرمسلم مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں ، مسلمانوں پر ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا ضروری ہے ، قرآن نے صاف کہا ہے کہ کسی قوم کا ہدایت کے راستہ پر آنا اور دین حق کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے ؛ لیکن اس کی وجہ سے کسی گروہ کے ساتھ بے تعلقی کا معاملہ کرنا اور حسن سلوک سے رُک جانا درست نہیں ہے، مسلمان ان کے ساتھ جو بہتر سلوک کریں گے ، انھیں بہرحال اس کا اجر مل کر رہے گا :

ان کو راہِ ہدایت پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں ؛ لیکن اللہ ہی جسے چاہتے ہیں ، ہدایت دیتے ہیں اور جو مال تم خرچ کروگے ، وہ اپنے ہی لئے خرچ کروگے ، نیز اللہ کی خوشنودی ہی کے لئے خرچ کیا کرو ، تم جو بھی خرچ کرتے ہو تم کو پورا پورا مل جائے گا اور تمہارے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ (البقرہ: ۲۷۲)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ بعض انصار کی بنو قریظہ اور بنونضیر کے یہودیوں سے رشتہ داری تھی ، انصار اُن پر اس لئے صدقہ نہیں کیا کرتے تھے کہ جب ضرورت مند ہوں گے تو اسلام قبول کریں گے ، (تفسیر قرطبی : ۳؍۳۳۷) اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویہ کو پسند نہیں کیا اور فرمایا : ان کی ہدایت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے ؛ لیکن تم کو اس کی وجہ سے اپنا دست ِ تعاون نہ کھینچنا چاہئے ؛ کیوںکہ تم کو تمہارے انفاق کا اجر مل کر رہے گا ۔

رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفقاء نے عملی طور پر اس کو برت کر دکھایا ، مکہ میں شدید قحط پڑا ، لوگ مردار وغیرہ کھانے پر مجبور ہوگئے ، مشرکین مکہ کا فتح مکہ تک مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ تھا ، وہ ظاہر ہے ، اس کے باوجود آپ ﷺنے مکہ کے قحط زدہ مشرکین کے لئے پانچ سو دینار بھیجے ؛ حالاںکہ اس وقت خود مدینہ کے مسلمان مالی مشکلات اور فاقہ مستیوں سے دوچار تھے ، نیز آپ ﷺنے یہ رقم سردارانِ قریش ابوسفیان اور صفوان بن اُمیہ کو بھیجی ، جو مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور مشرکین مکہ کی قیادت کر رہے تھے ۔ (ردالمحتار : ۳؍۳۰۲ ، باب المصرف)

حضرت عمر ؓ نے ایک بوڑھے غیرمسلم کو دیکھا کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے ، جب حضرت عمرؓ نے وجہ پوچھی تو کہا :ہمیں جزیہ ادا کرنا ہے ، حضرت عمر ؓ نے بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر فرمایا اور کہا: ہم نے تمہاری جوانی کو کھایا اور اب پھر تم سے جزیہ وصول کریں ، یہ انصاف کی بات نہیں ہے : ’’ما أنصفناک أکلنا شیبتک ، ثم نأخذ منک الجزیۃ ‘‘ (نصب الرایۃ : ۳؍۴۵۴) چنانچہ فقہاء کے یہاں اس پر تو قریب قریب اتفاق ہے کہ صدقاتِ نافلہ غیرمسلموں کو دیا جاسکتا ہے ، حنفیہ کے نزدیک راجح یہ ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے صدقاتِ واجبہ غیرمسلموں کو دیئے جاسکتے ہیں۔ (دیکھئے الدر المختار علی ہامش ردالمحتار : ۳؍۳۰۱)

سماجی زندگی میں سب سے اہم مسئلہ امن و امان کا ہے اور امن و امان کا تعلق جان و مال اور عزت و آبرو سے ہے ؛ چنانچہ شریعت ِ اسلامی میں غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو وہی اہمیت دی گئی ہے ، جو مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کودی گئی ہے ، اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے اُصولی بات ارشاد فرمائی ہے کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اوران کے مال ہمارے مال کی طرح ہیں: (نصب الرایۃ : ۴؍۳۶۹)

چنانچہ قرآن مجید نے مطلق نفس انسانی کے قتل سے منع کیا ہے ، ارشاد ہے : ولَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۔ (بنی اسرائیل : ۳۳) اور جس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، اس کو ناحق قتل نہ کرو ۔

ایک اور موقع پر کسی معقول سبب کے بغیر ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا : مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادِ فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعـًا ۔ (المائدۃ : ۳۲) جس نے کسی کو — کسی شخص کے قتل یا زمین میں فساد مچانے کے جرم کے بغیر — قتل کر دیا ، گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ۔

کیوں کہ اگر کوئی شخص ایک بے قصور شخص کو قتل کرسکتا ہے تو وہ انسانیت کے کسی بھی فرد کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنا سکتا ہے ؛ اس لئے گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے ، اِن آیات میں مسلمان اور غیرمسلم کی کوئی قید نہیں ہے ؛ بلکہ مطلقاً کسی بھی انسان کے قتل کو منع فرمایا گیا ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے غیرمسلم — جس سے امن اور بقاء ِباہم کا معاہدہ ہو —کے قاتل کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت کی بو سے بھی محروم رہے گا :

جس نے کسی معاہد (وہ غیرمسلم جس سے پرُامن زندگی گزارنے کا معاہدہ ہو ) کو قتل کیا ، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ؛ حالاںکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جاسکتی ہے ۔(بخاری عن عبداللہ بن عمروؓ ، حدیث نمبر : ۳۱۶۶)

اگر کوئی مسلمان غیرمسلم کو قتل کردے تو مسلمانوں کو بھی اس کے قصاص میں قتل کردیا جائے گا ؛ کیوں کہ قرآن مجید نے علی الاطلاق قصاص کا یہی اُصول بتلایا ہے ، جو شخص دوسرے شخص کا قاتل ہو ، وہ اس کے بدلے قتل کیا جائے گا :(المائدہ : ۴۵) اس میں مسلمان اور غیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک غیرمسلم (ذمی) کے قصاص میں ایک مسلمان کو قتل کیا گیا ، (مصنف عبد الرزاق : ۱۰؍۱۰۱) حضرت عمر ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے ’’ذمی‘‘ کے بدلے مسلمان کے قتل کا حکم دیا ، (مصنف عبد الرزاق : ۱۰ ؍ ۱۰۱) امام شافعیؒ نے حضرت علی ؓ سے بھی نقل کیا ہے کہ انھوں نے بعض اہل ذمہ کو قتل کرنے والے مسلمانوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند ِ امام شافعی ، السنن البیہقی : ۱۲؍۴۳ )

اگر مقتول کے ورثاء سزاء ِقید کو معاف کردیں ، یا قتل کے واقعہ میں قصد و ارادہ کو دخل نہ ہو ؛ بلکہ غلطی سے قتل کا ارتکاب ہوا ہو تو ان صورتوں میں قصاص کے بدلہ خون بہا (دیت) واجب ہوتا ہے ؛ چنانچہ خون بہا بھی مسلمان اور غیرمسلم کا یکساں ہے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے غیرمسلم کی دیت مسلمان ہی کی طرح ادا کی، (سنن دارقطنی ، کتاب الحدود) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابوہریرہؓ ، حضرت اسامہ بن زیدؓ اور مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم کی دیت برابر ہوگی،(دیکھئے : نصب الرایہ : ۴؍۶۸ – ۳۶۹)

رسول اللہ ﷺ نے جو اُصول مقرر فرمایا کہ غیرمسلموں کی جانیں مسلمانوں کے جانوں کی طرح ہیں اور ان کے مال مسلمانوں کے مالوں کی طرح ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کی اَملاک بھی اسی طرح قابل احترام ہیں جیسا کہ مسلمانوں کی ، بغیر رضامندی کے نہ کسی مسلمان کا مال لیا جاسکتا ہے نہ کسی غیرمسلم کا : اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تَجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔ (النساء : ۲۹)

فتح خیبر کے موقع سے بعض مسلمان فوجیوں نے یہودیوں کے جانور ذبح کردیئے اورکچھ پھل کھالئے، رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺنے اس موقع پر خطاب کیا ، اس عمل پر ناگواری ظاہر کی اور فرمایا :یہ تمہارے لئے حلال نہیںہے ۔ (ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۳۰۵۰)

متعدد صحابہ ؓ سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے :

آگاہ ہوجاؤ ! جس نے کسی معاہد پر ظلم کیا ، اس کی حق تلفی کی ، یا اسے اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف کیا ، یا اس سے کوئی چیز اس کی رضامندی کے بغیر لے لی ، تو میں قیامت کے دن اس کا فریق ہوں گا ۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۳۰۵۳)

اسلامی قانون کی رو سے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ، جیسے مسلمان کا مال چوری کرنے میں ہاتھ کاٹا جائے گا ، اسی طرح اگر کوئی مسلمان چور غیرمسلم کا مال چوری کرلے تو اس صورت میں بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، علامہ ابن قدامہ مقدسیؒ نے یہ لکھتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ یہ مسئلہ فقہاء کے یہاں متفق علیہ ہے ، (المغنی لابن قدامہ : ۱۲ ؍ ۴۵۱ ، مع تحقیق : عبداللہ بن عبد المحسن وغیرہ) اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں مسلمان اور غیرمسلم کی ملکیت یکساں قابل احترام ہے ۔

یہی معاملہ عزت و آبرو اور عفت و عصمت کی حفاظت کا ہے، رسول اللہ ﷺنے بلاتفریقِ مذہب ہر بڑے کی توقیر کا حکم دیا ہے اور ہر چھوٹے کے ساتھ شفقت اور محبت کی تلقین کی ہے ، مؤمنوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اے مسلمانو ! (مردوں کا) ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اُڑائے ، ممکن ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اُڑایا کریں ، ہو سکتا ہے کہ وہ دوسری عورتیں ان سے بہتر ہوں ، نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ۔ (الحجرات: ۱۱)

اسی طرح مردوں سے فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور یہی حکم مسلمان عورتوں کو بھی دیا گیا، (النور : ۳۱) یہ حکم مطلق ہے اور اس میں مسلمان اورغیر مسلم کی تفریق نہیں ، معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کی عزت و آبرو کی بھی وہی اہمیت ہے ، جو مسلمانوں کی ہے ، عفت و عصمت کو مجروح کرنے والی چیزیں حرام ہیں ، خواہ مسلمانوں کے ساتھ کی جائیں یاغیرمسلموں کے ساتھ ، مطلقاً حرام ہیں ، جو سزا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کی ہے ، وہی سزا غیرمسلم عورت کی آبروریزی کی بھی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ عزت و آبرو کے اعتبار سے غیرمسلم بھائیوں کو وہی درجہ حاصل ہے ، جو مسلمانوں کو حاصل ہے ۔ (جاری)

بصیرت فیچرس

Comments are closed.