Baseerat Online News Portal

اصلاح نصاب کے سفر میں ایک نیا سنگ میل!

 

ڈاکٹر حفظ الرحمٰن کی کتاب ’’مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے‘‘ پر ایک نظر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام کی اصلاح کا مسئلہ بطور خاص گذشتہ سو سالوں سے ایک ایسی ٹیڑھی کھیر بنی ہوئی ہے، جو درستگی کی مسلسل اور متواترکوشش کے باوجود بھی گلے سے اترتی معلوم نہیں ہوتی۔ پیش نظر کتاب’’مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک توانا کڑی ہے، لیکن اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ صرف مسائل کا نوحہ نہیں، نظری سطح پر ہی سہی، حل کا شادیانہ بھی ہے۔ پھر اس کی خوبی یہ ہے کہ تحلیل وتجزیہ کا یہ پورا عمل مدارس کے بنیادی مقصد وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ یا تبلیغ دین کے عصری چیلنجز کے پس منظر میں مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل ’علماے زمانہ‘ یا’ مبلغین اسلام‘ کی کھیپ کی تیاری کے تناظر میں انجام دیا گیا ہے۔

 

عام طور پر لوگ چیلنجز اور مسائل کی بات کرتے ہیں، اس سے آگے بڑھے تومدارس کے مختصر گراؤنڈ پر آکسفورڈ کے قیام کی تجویز لکھ مارتے ہیں، جن کی حیثیت نظری سے زیادہ تخییلی ہوتی ہے۔ مصنف کتاب کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف نظری جہت سے متعلقہ سوال کا تجزیہ ہی نہیں کرتے ، بلکہ ان کے حل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور حل کے لیے عملی و تطبیقی تجاویز کیا ہوں گی ، ان کا بھی منطقی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ کتاب کا اسلوب علمی ہے۔ معقولیت اور منطقیت سے بھرپور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بارہا یہ محسوس ہوا جیسے میں خود اپنا ہی لکھا پڑھ رہا ہوں۔

 

کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ نصاب تعلیم سے متعلق ہے۔ اس میں سب سے پہلے علماے مدارس کے سامنے جدید علمی اور دعوتی چیلنجز کیا ہیں ، اس حوالے سے بصیرت افروز بحث کی گئی ہے۔ اسے پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوالات اگر درست انداز سے اٹھائے جائیں تو جواب کی دریافت آسان ہو جاتی ہے۔ مصنف نے اس ضمن میں نظریۂ ارتقا ، حکومت الٰہیہ کے تصور کے خلاف جدید سیاسی تنفر ، نسائیت ، لامحدود تصور آزادی اور جدید سودی نظام کو جدید عہد کے بنیادی سوالات بتائے ہیں، جن کی جواب دہی علماے عصر کی ذمہ داری ہے اور بالعموم فارغین مدارس جن سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔ مصنف کے مطابق ان سوالات کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاصر عالم دین، علم فطرت ( natural science) اور سماجیات(social science) کی مبادیات سے واقف ہو، خصوصاً سماجیات کی تینوں شاخوں سیاسیات، اقتصادیات اور عمرانیات پر اس کی اچھی نظر ہو۔ تبصرہ نگار یہاں مصنف سے صد فی صد اتفاق کرتا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ ان مضامین سے واقفیت کے بغیر عالم زمانہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

 

میں عرض کروں کہ اسی مطلوبہ ضرورت کے پیش نظر جامعہ عارفیہ – جس میں راقم گذشتہ دس سالوں سے تدریسی خدمت انجام دے رہا ہے – نے اپنے نصاب تعلیم میں انگریزی کے ساتھ سائنسی اور سماجی مضامین کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ مولانا ثاقب علیمی ( فاضل ، ایم ایڈ) کی تجویز پراس سال اس نصاب میں جزوی تبدیلی کی گئی ہے۔ اس سے قبل درجہ اعدادیہ تا سادسہ سائنس پڑھائی جاتی تھی ، لیکن اس سال سے سائنس کی جگہ سماجی علوم اور ماحولیاتی تعلیم شامل نصاب کی گئی ہے۔ ماحولیاتی تعلیم کے ضمن میں اعدادیہ میں دوسری کلاس کی کتاب، اولیٰ میں تیسری کلاس کی، ثانیہ میں چوتھی کلاس کی اور ثالثہ میں پانچویں کلاس کی کتاب پڑھائی جا رہی ہے۔ یہ کتابیں مختلف یونٹس پر مشتمل ہیں ، جن میں خاندان، معاشرہ ، مختلف اقسام کے افراد ، پانی ، اس کے اقسام اور ذرائع ، کھانا اور اس کے ذرائع ، جانور اور اس کے اقسام، گھروں کے اقسام ، مختلف اقسام کے کھیل، مزدور اور اس کی عزت ، جنگل اور اس کے خزانے، معدنیات، قدرتی آفات، تیل کا استعمال ، نظام ہاضمہ اور نظام تنفس ، نظام شمسی ، سمت اور جہت، وقت، نقل و حمل، زمین، مختلف موسم، نظام صحت اوریادگاریں (monuments) جیسے مضامین شامل ہیں۔

 

جماعت رابعہ تا سادسہ سماجی علوم پڑھائے جا رہے ہیں۔ سماجی علوم میں تین چیزیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ تاریخ ، سیاست اور جغرافیہ۔ تاریخ میں جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں وہ اس طرح ہیں: عہد قدیم، تاریخ اور اس کے ذرائع ، مختلف تہذیبوں اور مختلف مذاہب وغیرہ کا تعارف، عہد وسطیٰ کا حکومتی نظام، دہلی سلطنت ، مغلیہ سلطنت ، قلعے اور مقدس مقامات ، شہر ، تاجر اور بنکر ، سماج کے اندر تبدیلی ، موبائل فون اور دیگر ایجادات کا تعارف وغیرہ ۔ اٹھارویں صدی میں ہندوستان میں اہم ترقیات، انگریزی حکومت کا قیام اور اس کی توسیع، اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہندوستانی صنعت کا زوال اور انگریزی صنعت کا عروج، اٹھارہ سو ستاون کا غدر اور قومی تحریک کا آغاز، آزادی کے لیے جد وجہد اور آزادی کے بعد کا ہندوستان۔

 

جغرافیہ میں جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں: زمین اور نظام شمسی، طول البلد اور عرض البلد، محوری گردش اور گردش زمانہ ( دن رات کا بدلنا اور موسم کا تبدیل ہونا)، نقشہ اور اس کے اقسام، زمین کی ساخت اور بناوٹ، ہندوستانی موسم، عالم نباتات و حیوانات، زمین کی سطحیں، انسانی ماحول، وسائل، زمین، مٹی اور پانی کے وسائل، معدنیات اور طاقت کے وسائل، قدرتی آفات، زلزلے ، سیلاب اور طوفان وغیرہ۔

 

سیاست میں جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں: حکومت اور حکومت کی ساخت، ہندوستانی جمہوریت اور اس کی خصوصیات، مقامی حکومت اور انتظامیہ، پنچایتی راج، شہری اور دیہاتی زندگی، ہندوستانی جمہوریت میں مساوات، صوبائی حکومت ، جنس اور صنف، میڈیا کا رول، بازاراور کاروبار، ہندوستان کا آئین، سیکولر ازم کی تفہیم، پارلیمنٹ کی ضرورت، قوانین کی تفہیم، فوجداری اورعدلیہ کی تفہیم، قانون اور سماجی انصاف وغیرہ۔

 

ان شاء اللہ العزیز!امید کی جاتی ہے کہ جامعہ عارفیہ میں شامل یہ سماجی مضامین طلبہ کی فکروثقافت کی توسیع میں سنگ میل ثابت ہوں گے اور اہل نظر اس کی تحسین فرمائیں گے۔ لیکن مصنف کتاب نے جدید مضامین کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ ہنوز تشنۂ تکمیل ہیں۔ ان کے مطابق نصاب مدارس میں ان مضامین کو پڑھانے کے لیے جو کتاب شامل ہوں ، ان کی تصنیف میں اسلامی نقطۂ نظر کی بھی وضاحت ہو۔ یہ ایک مستقل علمی وعملی پروجیکٹ ہے ، جسے ملک کے بڑے دینی ادارے ماہرین تعلیم اور علماے اسلام کے ایک بورڈ کے تحت مکمل کرسکتے ہیں۔

 

مصنف کے تصور نصاب کے مطابق مدارس کا موجودہ درس نطامی – بعض ضروری ترمیمات کے ساتھ – مشترکہ تعلیمی نصاب کی ضرورت کے لیے کفایت کرتا ہے اور پھر جس طرح دسویں کے بعد اسکولی مضامین میں تخصصات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں، مدارس میں بھی تخصص کے موجودہ شعبوں کے ساتھ کچھ نئے شعبوں کا اضافہ کیا جانا ضروری ہے۔

 

مصنف سے اپنا اختلاف درج کراتے ہوئے میں عرض کروں کہ مدارس کا موجودہ درس نظامی ، مشترکہ تعلیمی نصاب کی ضرورت کی عارضی تکمیل تو کرتا ہے ، لیکن یہ مستقل یا پائیدار حل نہیں ہے۔ پائیدار حل کے لیے ہمیں بھی جزوی ترمیم کے ساتھ اسکول کے ابتدائی درجات کے مروج نصاب کو ہی اپنانا ہوگا ۔ اس کے بعد ہی کلیۃ الشریعۃ (sharia collage) یا کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ (collage of Islamic studies) کا مخصوص پروگرام شروع کیا جاسکتا ہے۔

 

تخصصات کے ضمن میں مصنف نے جن تین مضامین کا تعارف کرایا ہے، میری نظر میں یہ کلیۃ الشریعۃ کے ضمنی مباحث کے طور پر تو شامل کیے جاسکتے ہیں ، لیکن متعینہ ہدف کے تناظر میں مدارس کے اندران کو باضابطہ کورس کے طور پر شامل کیا جانا محل نظر ہے، اِلا یہ کہ کوئی مدرسہ یونی ورسٹی کی شکل اختیار کر لے اور اس میں دیگر شعبہ جات کے ساتھ ان شعبہ جات کا بھی اضافہ کرلیا جائے ، جیسا کہ عام طور پر یونی ورسٹیز میں یہ شعبے موجود ہوتے ہیں۔ مصنف کے پیش کردہ وہ تین تخصصات یہ ہیں:

۱۔ تخصص فی السیاسۃ (political science)

۲۔ تخصص فی الاقتصادیات (economics)

۳۔ تخصص فی علم الاجتماع (sociology)

 

ان نئے تخصصات کے تعارف میں مصنف نے سو صفحات سیاہ کیے ہیں، جو بہر کیف معلومات کے لحاظ سے اہم ہیں۔ ان صفحات سے اسلام کے ساتھ ان مضامین کے تعلق کے کئی ضروری گوشے سامنے آتے ہیں، جن سے علماے عصر کو ضرور واقف ہونا چاہیے۔

 

مصنف نے چند سطروں میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ تبصرہ نگار یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہے کہ جامعہ عارفیہ میں اسی ضرورت کے پیش نظر ۲۰۱۲ سے الدبلوم العالی فی الدعوۃ و العلوم الاسلامیۃ (advanced diploma in dawa and Islamic studies)کے نام سےایک خصوصی کورس جاری ہے، جس نے بڑی حد تک مردان کار کی تیاری کا کام کیا ہے، گو کہ ابھی یہ کام خاطر خواہ نہیں ہے اور اس میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جامعہ عارفیہ نے اس کورس کو اس انداز سے ڈیزائن کیا ہے کہ تکمیل فضیلت کے بعد فارغین مدارس عربی اور انگریزی زبان سے کسی قدر اچھی واقفیت کے ساتھ حدیث ، فقہ، تفسیر اور کلام کے جدید علمی و تنقیدی مباحث اور تحقیق و تنقید اور تخلیق کے آداب سے واقف ہو سکیں۔

 

مصنف نے اس سیاق میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ الگ الگ مدارس کو دعوہ کورس کے ساتھ سنسکرت ، فرنچ اور چینی زبانوں کی تدریس کا خصوصی انتظام بھی کرنا چاہیے۔ یہ تجویز بھی راقم کے نزدیک غیر ضروری ہے۔ عربی اور انگریزی تو لازمی ضرورت ہیں، دیگر زبانوں کا تخصص مستقل کام ہے جس کے لیے ملک میں مختلف انسٹی ٹیوٹ اور کلیات کام کر رہے ہیں۔ ان کا بوجھ مدارس پر ڈالنا تکلیف مالا یطاق یا الزام بما لیس بلازم ہے۔

 

مشترکہ تعلیمی لائحہ کے ضمن میں مصنف نے دینی مدارس کے لیے سہ لسانی فارمولہ پیش کیا ہے جس کے مطابق عربی، انگریزی اور کسی مقامی زبان کی تدریس کو لازمی بتایا ہے، یہ تجویز بہت اہم ہے ، دینی مصادر ، عصری مآخذ اور مقامی مزاج سے واقفیت کے لیے واقعی ان تینوں زبانوں کی تدریس ضروری ہے۔ اس فارمولے میں غریب فارسی چھوٹ گئی ہے، اگرچہ مصنف نے اس کے لیے اپنے طور پر اعذار پیش کر دیے ہیں، تاہم راقم السطور کی نظر میں اس فارمولے کے اندر تھوڑی سی جگہ اس غریب کو بھی ضرور ملنی چاہیے تھی۔

 

مشترکہ تعلیمی لائحہ کے ہی ضمن میں مدارس کے اندر انگریزی زبان کی تدریس کے حوالے سے مصنف نے بہت قیمتی مشورے دیے ہیں، جن کو مزید غور و خوض کے بعد اپنایا جاسکتا ہے۔ نصاب کی نئی درجہ بندی کے حوالے سے بھی مصنف کی تجاویز قابل تحسین و تعمیل ہیں۔

 

کتاب کا دوسرا حصہ مدارس سے متعلق مختلف- غیرنصابی -پہلوؤں پرمشوروں اور گزارشات پر مشتمل ہے۔ اس میں انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ ، فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات، انگریزی داں علما اور مدارس و مساجد ، نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات ، اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ ، ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری، مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم ، اسلامی اقامت خانہ کا قیام ، دینی و اخلاقی تربیت اور مدرسہ اور مسجد کی نام گزاری کی سرخیوں کے ساتھ مفید تجاویز اور خیالات شامل کیے گئے ہیں۔

 

مصنف جواں سال، وسیع فکر اور ژرف نگاہ فاضل ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ کتاب اصلاح نصاب کی بحث کو آگے بڑھانے میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ مولیٰ کریم کتاب کو مفید و مقبول بنائے اور مصنف کو دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب کے حصول کے لئے مصنف سے 9990457104 پر رابطہ کریں۔

Comments are closed.