Baseerat Online News Portal

اعظم خان کی بے بسی ،اکھلیش کی بےحسی ، اور آمدِ اویسی

 

 

 

?️ از: محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند

9358163428

 

ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ

ہندوستان کے سیاسی حالات اور اسکے نشیب وفراز پر نظر رکھنے والا ہرشخص اعظم خان اور ان کی سیاست سے ، ان کے سیکولر مزاج ، فرقہ واریت سے ان کی نفرت کو خوب اچھی طرح جانتا ہوگا خاص کر اترپردیش میں سیاست پران کی چھاپ ان کے بیانات کی گھن گرج ، حکومت پر ان کی مضبوط گرفت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں خصوصا 1990 کے بعد وہ ہمیشہ سیاست میں چھائے رہے چاہے وہ حکومت میں ہوں یا وہ حزب اختلاف کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں وہ ہمیشہ سیاست کے افق پر چمکتےہی رہے ہر ایک کے ساتھ انصاف ان کی سیاست کا خاص وصف رہا وہ کسی کو مذہب ، ذات پات کے آئینے سے نہیں بلکہ ایک شہری کے عینک سے دیکھتے تھے

رام پور کے ایک انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں کہا کہ *رام پور کے ہندو مسلمانوں سکھ عیسائیوں میں نے اعلانیہ کہا ہے کہ کوئی ایک شخص بھی یہ الزام لگا دے کہ دھرم وذات کہ بنیاد پر میرےقلم سے یا میری زبان سے کسی کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے ، میں رام پور والو! کبھی تمھیں اپنی شکل نہیں دیکھاؤ گا ، انصاف کے ترازو میں دھرم، ذات پات، کالا گورا، عورت مرد ، چھوٹا بڑا سب برابر ہیں اور جو یہ انصاف نہیں دیتے انھیں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی اختیار نہیں ہے*

یہ بات ضمنا اس لئے آگئی تاکہ قارئین کو ان کی سوچ فکر اور ان کی سیکولر شبیہ سامنے آجائے اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی جاننے والے ویسے بھی جانتے ہیں کیوں قارئین تو سنگھ کے آگ اگلتے بیان بارہاں سنے ہی ہوں گے

اب ان کا تذکرہ آہی گیا تو ان کا سیاسی تعارف بھی سنتے چلیں

وہ سماج وادی پارٹی کے بانی ممبروں میں سے ایک ہیں اور اترپردیش کی سترہویں قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے وہ اتر پردیش حکومت میں سب سے سینئر ترین کابینہ کے وزیر بھی تھے اور اس کے ممبر بھی تھے رام پور اسمبلی حلقہ سے نو بار قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے

وہ 9 بار رام پور اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے رہنے کے علاوہ وہ اتر پردیش حکومت میں کابینہ کے وزیر بھی تھے۔ اعظم خان اس وقت سماج وادی پارٹی کے رکن ہیں ، لیکن 1980 اور 1992 کے درمیان چار دیگر سیاسی جماعتوں کے رکن رہ چکے ہیں۔ اپنی پہلی میعاد (اترپردیش کی آٹھویں قانون ساز اسمبلی) کے دوران ، وہ جنتا پارٹی (سیکولر) کے رکن تھے۔ اپنی دوسری میعاد (اترپردیش کی نویں قانون ساز اسمبلی) کے دوران ، وہ لوک دل کے ممبر رہے۔ اعظم خان اپنی تیسری مدت (اترپردیش کی 10 ویں قانون ساز اسمبلی) کے دوران جنتا دل کے ممبر تھے۔ اپنی چوتھی میعاد (اترپردیش کی 11 ویں قانون ساز اسمبلی) میں ، اعظم خان جنتا پارٹی کے ممبر تھے۔ 1993 سے (ان کی پانچویں میعاد اور اترپردیش کی 12 ویں قانون ساز اسمبلی) ، وہ سماج وادی پارٹی کے رکن رہے ہیں۔

اعظم خان سماج وادی پارٹی میں پوسٹ ہولڈر بھی تھے لیکن انہوں نے 17 مئی 2009 کو پارٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، تاہم ، 15 ویں لوک سبھا انتخابات کے دوران ، سماج وادی پارٹی کی امیدوار جیا پردا ، اور امرسنگھ کو لے کر کچھ تنازعات کے نتیجے میں پارٹی میں بحران پیدا ہوا اور 24/ مئی 2009 کو انھیں پارٹی سے بےدخل کردیا گیا تھا

حالانکہ پارٹی کے سربراہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے خود استعفی دے دیا تھا۔ پھرسماج وادی پارٹی سیاسی بحران کا شکار ہونے لگی کیونکہ پارٹی میں کارکنان پر ان کی پکڑ بہت مضبوط تھی ، سماجوادی پارٹی میں اعظم خان سے زیادہ سیاسی دوراندیشی کسی کو نہیں تھی ، نہ ہی زبان وبیان کی قوت ہی پوری پارٹی میں کسی کے پاس ایسی تھی کہ راتوں رات سیاسی بساط الٹ دے ، اور پھر مسلم طبقہ کی ایک طرح سے وہ نمائندگی کرتے تھے ان کی ناراضگی اورکارکنان کی ایک بڑی تعداد پارٹی کے رویے سے خفا ہوگئی ، جو سماجوادی پارٹی کے لئے سیاسی موت کا سبب بن سکتی تھی اس لئے پارٹی کی ہائی کمان نے یہ سب خطرات مول لینا مناسب نہ سمجھ کر پارٹی نے بعد میں ان کی بے دخلی کو منسوخ کردیا تھا اور 4 دسمبر 2010 کو دوبارہ شامل ہوگئے تھے۔ سن 2014 میں ان کی کامیابی کے بعد ، خان کو سماج وادی پارٹی نے رام پور حلقہ سے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے ٹکٹ دیا تھا ، جہاں انھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدوار جیا پردا کو شکست دیاباوجودِ کہ بی جے پی نے وہاں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی ـ

رام پور جو کبھی نوابوں کے نام سے جانا جاتا تھا وہی رام پور آج اعظم خان کے نام سے جانا جاتا ہے گویا کہ رام پور اور اعظم خان لازم ملزوم ہیں اہلیان رام پور نے اعظم خان کے علاوہ کبھی کسی کو اپنا سکہ جمانے نہیں دیا اعظم خان رام پورکے سکہء رائج الوقت ہی

رام میں جوکچھ بھی ترقیاتی کام ہیں وہ اعظم خان کی دین ہے پوری مسلم قوم کے لئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر رام پور کو اعظم خان نے ایک ایسی یونیورستی دے دی ہے جو ان کی کئی نسلوں تک کے مستقبل کو تابناک بنائے گی اور رام پور کے ساتھ ساتھ پورے صوبے بلکہ آئندہ چل کر علی گڈھ کی طرح پورے ملک کےلئے روشن مستقبل کی ضامن ہوگی اور انگریزوں کو ناکو چنے چبوانے والے مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی خدمات ملک کی آزادی میں ان کے کردار وملی ورثے کی حفاظت کا ذریعہ ہو نے کے ساتھ ساتھ آزادی کی تاریخ کے حوالے سے سنگھ کی پالیسی ، مسلم مجاہدین آزادی کی کردارشی کی ان کی سازش ہمیشہ ناکام ہوتی رہے گی آج جب اعظم خان کے ساتھ عظیم مجاہد آزادی کے نام سے منسوب یہ عظیم یونیورسٹی ویرانی کی دہلیز پر ہے اور سنگھی دشمنوں کی سازشیں اگرکامیاب ہوگئی یہ ملی ورثہ ویران ہوا تو یاد رکھیں کہ اعظم خان کا کوئی

بھی نقصان نہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی تقریبا جی چکے ہیں اب جو کچھ بھی نقصان ہوگا وہ اہلیان رام پور اور اس بے یار مددگار قوم وملت کا ہوگا

اعظم خان کا اس ادارے کو بنانے سنوارنے ، چمکانے اس کو ترقی دینے اس کے نظم ونسق کو بہتر بنانے اس کی حفاظت ، سنگھ کی نظربد سے محفوط رکھنے کی فکر ، اس کے تعلق سے ایک جنونی جزبہ ، ہمت وحوصلہ سب آئندہ نسلوں کے لئے تھا کہ میری قوم کے ہاتھ میں قلم آئے قلم کی طاقت آئے اور قوم ذہنی غلامی کی جکڑبندیوں سے نجات حاصل کر اپنا حق جانے اور حاصل کرنے کے قابل بنے اور اسکے مقابل طاقتیں آپ کے ہاتھ سے قلم چھینے اور آپ کو کاسئہ گدائی دے کر آپ کو عاجز ودرماندہ رکھنے

آزادی کی پر بہار فضا سے محروم رکھنے کی تگ ودو میں ہیں

ان کے جانے بعد اہلیان رام پور کو احساس ہوگا کہ کہ ہم نے ایک ایسا لال کھو دیا جو برسوں کی محنتوں کے بعد رام پور کو ترقیات کی شاہراہ دکھائی اور ایک ایسی دانشگاہ دے دی جو خود ان کی آئندہ نسلوں کےلئے بھی ایک نایاب تحفہ ہوگی

اور پھر رام پور کو ایسا ہمدرد وخیر خواہ اور اترپردیش کوایسا سیاسی مدبر شاید نہ ملے

اس لئے اس قومی ورثہ اور ملی امانت کی حفاظت کی فکر کرنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے ان کی رہائی کی تدابیر کرنا سب کا ملی فریضہ ہے ان کے لئے آواز بلند کرنا سب کا حق ہےاس وقت کم از کم ان کی ضمانت اور ان کے بہتر علاج کے لئے دہلی منتقل کرنے کے لئے کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے

ان کے تعارف میں یہ تفصیلات اس لئے لکھنا ضروری تھی تاکہ

اہلیان رام پور ( جنھوں نے چند کوڑیوں کی لالچ میں اپنی زمینوں کے ہڑپنے کی جھوٹی گواہیاں دے کر یونیورسٹی کے وجود پر پٹہ لگایا اور اپنے محسن کی حمایت کے بجائے مخالفت کرکے اس کی زندگی کو داؤ پر لگادیا ) کواحسان ہوکہ انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ غداری کرکے اپنے ایمانی دشمنون کے ساتھ یاری کی

اور یہ اندازہ ہو سکے کہ اعظم خان نے سماج وادی پارٹی کے لئےکتنی قربانیاں دی ہیں اور کن کن مصائب و مشکلات کا سامنا کرکے پارٹی کے تانے بانے کو منتشر ہونے سے بچایا ، ہمیشہ اس کے اقبال کو بلند کیا

لیکن آج جب خود چند سالوں سے مصائب ومشکلات کی چکیوں میں پس رہے ہیں سیکڑوں فرضی اور جھوٹے مقدمات کے ذریعہ سنھگی دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ انتقامی جزبے سےلبریز ان کی زندگی ہی کے تانے بانے کو سیکوڑ دینے کےلئے چند سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے مزید ان کی بیماری اور دن بدن مرض کی شدت کی وجہ سےان کی بے بسی پر حیرت ہوتی ہے اور تعجب نہیں کہ سنگھی سیاسی انتقام میں ان کے ساتھ کوئی کھیل نہ کھیلیں ، حیرت ہے کہ اتنے بڑا سیاسی طاقتور رہنما آج بیماری اور سیاسی انتقام دونوں جہتوں سے کتنا بس اور کتنا مجبور ہے لیکن اس سے زیادہ حیرت سماج وادی پارٹی کی بے غیرتی وبےحسی اور یادوخاندان بے وفائی پر ہے کہ جو شخص ان کے لئے زندگی بھر مرکّبات کوٹ کر حلوہ بنا کر ان کے سامنے پیش کرتا رہا آج وہ اس کے سامنے پانی بھی پیس کرنے سے کتراتے ہیں اگر اکھلیش یادو اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ان کے لئے کوشش کرتے ان کا دفاع کرتے، احتجاج و دھرنا دیتے اپنے کارکنان وحمایتیوں کے ساتھ ان حالات میں ان کی رہائی اور ان کے بہتر سے بہتر علاج معالجہ کے لئے لکھنؤ میں رام پور میں ڈیرا ڈال دیتے اور اترپردیش میں علاج کے بجائے دہلی میں علاج کے لئے منتقل کراتے تو شاید آج ان کا یہ حشر نہ ہوتا لیکن پارلیمنٹ میں ان کے ایک خاتون کے منہ توڑ جواب پر سنگھ کے چوطرفہ حملے سے لے کر آج اسپتال کے بستر پر بےبسی ایام تک پارٹی نےکوئی قابل قدر کوشش نہیں کی، رسمی بیان بازی کو چھوڑ کرکوئی عملی اقدام ان کے لئے نہیں کیا گیا اعظم خان کے تعلق سے تمام سیکولر پارٹیوں کی خاموشی وبےتوجہی بھی ان کے سیکولر شبیہ کو داغدار کرتی ہے،

بلا شبہ اعظم خان سے بہتوں کو سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے کیوں کہ وہ اپنے اتنے طویل سیاسی سفر میں اپنی قوم کے لئے اتنا نہیں کر سکے جو انھیں کرنا چاہئے تھا قوم کے سیاسی رہبر ہونے کے ناتے جو ان کی ذمی داری تھی وہ اپنی حکومت کے زمانے میں اپنی قوم کی بلندی وترقی اور ان کے مستقبل کے لئے بہت کچھ کر سکتے تھے،

(یہ اس وقت کا موضوع بحث نہیں ـ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ سنگھ کو ایک بہت بڑی پریشانی ان کی جوہر یونیورسٹی بھی ہے جو کم از کم آئندہ چل کر قوم کی نوجوان نسلوں کے لئے ہائی ایجوکیشن کا ایک عظیم مرکز بنتا جو اترپردیش میں اس قوم کے لئےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد دوسرا بڑا مرکز ہونے کا اعزاز رکھے گااور قوم کے مستقبل سنوارنے میں علی گڈھ کی طرح اہم کردار ادا کرےگا یہ یونیورسٹی بھی

سنگھ کے آنکھ کا شہتیر ہے غالبا اسی وجہ سے اعظم خان کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی بھی خاص طور پر ان کے نشانے پر ہے

آخر میں پھر یہ دہراتا چلوں کہ

آج جولوگ اویسی پر تنقید کرتے ہیں بات بات پر بلا کسی دلیل طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں ، 75سالوں سےصرف مسلمانوں کو ووٹ بینک کو طور پر استعمال کرکے انھیں ٹوپی پہنانے والوں کے سانھسے میں آکرطعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں وہ کہاں ہیں غائب ہیں …؟

جو لوگ سیکولر سیکولر کی تسبیح پڑھتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں وہ ذرا بتائیں کی اعظم خان کی اس بے بسی پر سب کس غار میں چھپ گئے ہیں ….؟ ان کی رہائی کے لئے آج کوئی آواز کیوں بلند نہیں ہو رہی ہے …؟

پورے ملک کی سیکولر پارٹیاں اور خود اترپردیش میں درجنوں پارٹیاں سیکڑوں رہنما وسیاست داں سیکولر کاچولا پہنے گلی کوچوں میں مسلمانوں کی ہمدردی کا گن گاتی ، ان کے ساتھ غم خواری کا قصیدہ پڑھتی ، اور ان کے حقوق کا دم بھرتی ہیں وہ سب کہاں گم ہوگئی ہیں ….؟

پھر اس کے علاوہ پورے ملک میں سیکولر پاٹیوں کےممبران پارلیمنٹ اور مختلف پارٹیوں کے ممبران اسمبلی کی کوئی مضبوط آواز کہیں کیوں سنائی دیتی …؟ ان پر متعصبانہ اور انتقامی جزبات کے پیش نظر درج کئے گئے مقدمات اور اہل خانہ کے ساتھ جیل کی سلاخوں سے لےکر آج اسپتال کے بیڈ تک بے بسی کی تصویر بنے اعظم خان کی رہائی کے لئے کوئی سڑکوں پر کیوں نہیں اترا…؟

یہ کوئی ایک اعظم خان کی بات نہیں اس طرح سیکڑوں لوگ سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور چھڑتے رہیں گےحال کے دریچوں سے ماضی کی طرف ایک بارجھانک کر دیکھئے آپ کو اندازہ ہوجائے گا

یاد رکھیں آپ کے سیاسی سماجی ومعاشی تعلیمی مسائل کا حل اویسی پر تنقید ان کی مخالفت کرنے یا اویسی کے الیکشن نہ لڑنےیا اویسی کو ہرا دینے سے نہیں ہوگا بلکہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے میں مضمر ہے

سیاسی شعور بیدار کرنے ، سیاست میں حصےداری سے ہوگا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ ہار جیت کو درکنار کر ایک پلیٹ فارم پر نہیں آتے ، اویسی کے آنے سے انتشار کا خوف پھیلانے والے بتائیں ان کی آمد سے پہلے آپ متحد کب تھے…؟ جو اب خطرات کا خوف دلایا جارہا ہے منتشر تو آپ پہلے سے ہیں اویسی اسی انتشار کے نقصانات سے آگاہ اور اتحاد کا سبق پڑھانے آئے ہیں خدا کرے یہ سبق ہمیں سمجھ میں آئے

Comments are closed.