Baseerat Online News Portal

”اقبال اور عورت“

 

سعدیہ مسکان(فیصل آباد)

عورت ماں،بہن،بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہےجس کے بغیر کاٸنات کی ہر شے پھیکی اور بے رنگ ہے۔اللّہ تعالی نے مرد کو اس کا محافظ بنایا ہے۔عورت اپنی ذات میں ایک تناور درخت کی مانند ہےجو ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتی ہے۔اسی عزم و ہمت،حوصلہ اور استقامت کی بنیاد پر اللّہ تعالی نے جنت کو اس کے قدموں میں بچھادیا۔اس کے وجود سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوۓ اور انسانیت کے لیے رشدو ہدایت کا پیغام لے کر آۓ۔

اقبال کا شمار اردو کے اہم ترین شعراء میں ہوتا ہے۔موضوع کے اعتبار سے وہ اردو کے ذیادہ تر شعراء سے مختلف ہیں۔خاص طور پر خواتین کے حوالے سے ان کے جو تصورات ہیں وہ اردو شاعری میں ان کے علاوہ چند ایک شعراء کے کلام میں پاۓ جاتے ہیں۔اپنے اردو شعری کلام میں اقبال نے بہت سی جگہوں پرعورت کے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے۔”بانگِ درا“میں اقبال نے فاطمہ بنت عبداللّہ اور والدہ مرحومہ کی یاد میں دو نظمیں لکھیں۔اس کے علاوہ ظریفانہ میں عورت کے موضوع کے متعلق تین رباعیاں بھی موجود ہیں۔”ضربِ کلیم“میں عورت کے عنوان سے ایک پورا باب ملتا ہے جو نو نظموں پر مشتمل ہے۔

اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق اس وقت دیےجب عورت کے حقوق کا تصور کسی بھی معاشرے میں دور دور تک بھی موجود نہ تھا۔عورت اور مرد کی برابری کا نظریہ سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا۔اقبال عورت کے لیے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ پردہ عورت کی کسی بھی سرگرمی میں حاٸل نہیں ہوتا بلکہ پردہ میں رہ کر عورت شعبہ ہاۓ زندگی کے ہر میدان میں اپنے جوہر دکھا سکتی ہے اور دکھاتی آٸی ہے۔اسلام میں پردہ کا معیار برقعہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اصل پردہ بے حجابی اور نمودونماٸش سے پرہیز اور شرم و حیاء کے مکمل احساس کا نام ہےیہ پردہ عورت کے لیے کسی سرگرمی میں رکاوٹ کا باعث نہیں بنتا۔اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اور ذات کی حقیقت پر پردہ نہ پڑا ہو وہ اپنی خودی سے آشنا ہو

”ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم

کسی کی خودی آشکار نہیں ہے“

اقبال عورت کی بے پردگی کے خلاف نہیں اُن کا ماننا ہے کہ پردے میں رہ کر عورت کو اپنی ذات کی گہراٸیوں کوسمجھنے کا موقع ملتا ہےگھر میں رہ کر وہ معاشرے کی خرابیوں سے دور رہتی ہے اور اپنے خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے۔وہ اپنے گھر میں یکسوٸی کے ساتھ اپنی آنے والی نسل کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔لیکن دوسری طرف جب وہ پردے سے باہر آجاتی ہے تو نماٸش،بے باکی و بے پردگی کا شکار ہوجاتی ہے۔چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔اقبال عورت کی تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اُن کے خیال میں اُس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو عورت کو اُس کے فراٸض اور صلاحیتوں سے آگاہ کرےاور اس کی بنیاد اسلام کے عالمگیر اصولوں پر ہونی چاہیے جس پر چل کر عورت اپنی آنے والی نسل کی بہتر پرورش کر سکے۔ایسی تعلیم جو عورت کو براۓ نام آذادی کی طرف راغب کرتی ہو،بھیانک نتاٸج کی حامل ہو سکتی ہے۔

اقبال کے خیال میں اگر عورت علم و ہنر کے میدان میں کوٸی بڑا کارنامہ نہ بھی سر انجام دے سکے تو اُس کا مرتبہ کم نہیں ہوتا۔اُس کے لیے یہ شرف ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں نمایاں کارنامے سر انجام دینے والے بزرگ اور نامور لوگ اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔دنیا کا کوٸی انسان ایسا نہیں جو اس کا شکر گُزار نہ ہو۔

”وجودِ زن سے ہے تصویر کاٸنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ شرف ہے اسی دراج کا درمکنون“

عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہےوہ عورت کے لیے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتداٸی دور میں تھا جب وہ شرعی پردے شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی تھی۔

Comments are closed.