Baseerat Online News Portal

امریکہ ویورپ میں فرق

سمیع اللہ ملک
امریکہ اوریورپ میں زمین آسمان کافرق ہے۔امریکی سیاست آج بھی عدم اتحاداوربے عقلی پرمبنی رجحانات کامرقع ہے جبکہ یورپ کی سیاست میں دانش نمایاں ہے۔امریکی سیاسی قائدین بڑھک مارنے کی سطح سے بلندنہیں ہوپارہے جبکہ یورپ میں حقیقی دانش کا مظہرقرارپانیوالے اقدامات سب کے سامنے ہیں۔امریکااب تک حقیقی فلاحی ریاست بننے کی منزل سے بہت دورہے جبکہ یورپ کے متعددممالک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل ہوچکے ہیں۔امریکامیں آج بھی سیاست کے نام پرلوگوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ یورپ میں بنیادی حقوق کی پاس داری اب سیاستدانوں کیلئے اولین ترجیح کادرجہ رکھتی ہے۔
27/ارکان پرمشتمل یورپی یونین کیلئے فیصلہ سازی کامرحلہ اب تھوڑاساپیچیدہ ہوگیاہے۔بیشترریاستیں بنیادی معاملات میں سودے بازی کیلئے تیارنہیں ہوتیں،فیصلوں میں تاخیرہو جاتی ہے،کسی بھی اہم فیصلے کیلئے سب کی رضامندی لازم ہے اس لئے کبھی کبھی موقع ہاتھ سے جاتارہتاہے۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ معاملات آخرتک ہاتھ میں رہیں، مفادات داؤ پرنہ لگیں۔یہاں کوئی بھی فیصلہ عجلت میں نہیں کیاجاتااس لئے فیصلوں میں تاخیرضرورہوجاتی ہے مگران سے بے عقلی نہیں جھلکتی۔یورپ میں فیصلہ سازی سے جڑے ہوئے افراداکثر فیصلوں میں تاخیراورپیچیدگی کی شکایت کرتے ہیں اوروہ امریکاکی تیزی سے فیصلوں کی مثال دیکران سے بھی بھی یہی توقع کرتے ہیں۔
امریکامیں مضبوط وفاقی نظام کام کررہاہے۔امریکا50ریاستوں کے وفاق کانام ہے۔امریکامیں مالیاتی یونین بھی بہت مضبوط ہے۔ یورپین ترقی پسندچاہتے ہیں کہ امریکاجیسا مالیاتی نظام یورپی یونین میں بھی دکھائی دے لیکن یورپ کے قدامت پسندایسانہیں چاہتے۔ حال ہی میں ختم ہونے والی یورپی سربراہ کانفرنس میں بہت شورشرابہ ہوا۔فیصلہ سازی میں تاخیرکے معاملے کوبہت اچھالاگیا۔کوشش یہ کی گئی کہ تیزرفتاری سے فیصلے کرنے کاکوئی میکینزم لایاجائے مگراب بھی یہ نکتہ قابلِ غورہے کہ اتنابہت کچھ ہونے کے باوجود امریکاکا فیصلہ سازی کاعمل یورپ کیلئے کسی بھی اعتبارسے مثالی یاقابلِ ترجیح نہیں۔اس حقیقت کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکامیں فیصلے تیزی سے توکرلیے جاتے ہیں مگران میں معقولیت اوردانش کم ہی پائی جاتی ہے۔وفاقی سطح پرجوکچھ بھی سوچا جاتاہے وہ تمام ریاستوں کی خواہش،مرضی یارائے کاآئینہ دارنہیں ہوتا۔
امریکامیں آج بھی اندرونی سطح پرغیرمعمولی انتشارپایاجاتاہے۔دنیاکاطاقتورترین ملک ہونے کے ناطے امریکادنیابھرکے باصلاحیت افرادکیلئے مسکن کادرجہ رکھتاہے۔اقتصادی ومالیاتی معاملات پرمتصرف ہونے کی بدولت امریکانے اپنے باشندوں کیلئے عمومی سطح پرایک اچھامعیارِزندگی یقینی بنائے رکھنے میں بہت حدتک کامیابی حاصل کی ہے۔امریکی معاشرے میں قبائلی اورعلاقائی بنیادپر پنپنے والی عصبیت آج بھی پائی جاتی ہے۔یہ سب کچھ دباہواہے،جیسے ہی موقع ملے گا،دبی ہوئی ہرحقیقت سامنے آجائے گی۔انتہا پسندی امریکی معاشرے کاعمومی مزاج ہے۔فی الحال یہ انتہاپسندی سیاسی نوعیت کی ہے۔کل کویہی انتہاپسندی نسلی،علاقائی اور قبائلی عصبیت کے لبادے میں بھی کھل کرسامنے آجائے گی۔سوال صرف حالات یعنی مواقع کے پیداہونے کاہے۔
یورپی ریاستیں بھی ایک طویل مدت تک جنگ وجدل سے دوچاررہی ہیں۔جنگ کیاہوتی ہے اورکیسے ستم ڈھاتی ہے،یہ دوعظیم جنگوں کانشانہ بننے والے یورپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے جنگ وجدل کی تاریخ سے بہت کچھ سیکھاہے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعدبھی یورپ کے مسائل کم نہیں ہوئے۔اس نے سردجنگ کاعذاب بھی جھیلااورامریکاجیسی سپر پاورکاساتھ دینے کی پاداش میں بھی بہت کچھ گنوایاہے۔یہ کیفیت کسی حدتک اب بھی ہے۔یورپی یونین نے اپناراستہ الگ کرلیاہے۔امریکاچاہتاہے کہ یورپ ہرمعاملے میں اس کاساتھ دے اوردنیاکوچلانے کے حوالے سے اس کے غلط اقدامات کی بھی بھرپورحمایت کرے۔یورپ سمجھ چکاہے کہ اب ایساکرناخودکشی کے مترادف ہو گا۔باقی دنیاجاگ اٹھی ہے اورتیزی سے طاقت بھی حاصل کرتی جارہی ہے۔ایسے میں اگرامریکا کاساتھ دینے کاعمل جاری رہاتوباقی دنیامل کرامریکاکے ساتھ یورپ کوبھی نشانے پررکھے گی۔یورپی یونین اب سب سے زیادہ ترجیح مالیاتی استحکام کودیتاہے۔کوروناوائرس کی وباکے ہاتھوں پوری دنیاکوشدیدنقصان سے دوچارہوناپڑاہے۔یورپی یونین کوبھی استثنا حاصل نہیں رہا۔یورپی قائدین نے معاشی بحالی کاعمل تیزکرنے پرتوجہ دی ہے۔حالیہ یورپی سربراہ کانفرنس میں مالیاتی استحکام کو اولین ترجیح کادرجہ حاصل رہا۔ طے کیا گیاہے کہ سات سال تک سب سے زیادہ اہمیت مالیاتی بحالی کودی جائے گی۔ یورپی یونین کے تمام ممالک اس نکتے پرمتفق ہیں کہ معاشی اورمالیاتی استحکام ہی کواولین ترجیح کادرجہ حاصل رہے گا۔
یورپ نے معاملات کودرست کرنے کاہنرسیکھ لیاہے۔جوکچھ دوسرے بہت سے معاشروں میں ہوتاہے وہی کچھ یورپی معاشروں میں بھی ہوتاہے۔ہارس ٹریڈنگ بھی ہوتی ہے، مفادات کیلئے حلیف بدلنے کاعمل بھی جاری رہتاہے اوربھی بہت کچھ ہوتاہے مگرآخرمیں سب کچھ درست ہوجاتاہے۔اس لیے کہ سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کودی جاتی ہے کہ یورپ کامجموعی مفادہرحال میں اولیت کاحامل رہناچاہیے۔یورپ کے عوام بھی اس بات کواچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قومی مفادات کے نگراں سمجھے جانیوالے فیصلے آسانی سے نہیں ہو پاتے۔اس حوالے سے پالیسی سازوں پردباؤکم سے کم ہوناچاہیے۔یہی سبب ہے کہ یورپی پارلیمنٹ پورے براعظم کے مفادسے تعلق رکھنے والے ہرفیصلے کومطلوب اہمیت دیتی ہے۔بحث وتمحیص پراچھاخاصاوقت صرف کیاجاتاہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ معاملات آخرتک ہاتھ میں رہیں اورکوئی بھی ایسافیصلہ نہ کیاجائے جس پربعدمیں زیادہ پچھتاناپڑے ۔ پالیسی کے معاملے میں بھی یہی ہوتاہے۔کوئی بھی پالیسی عجلت میں تیار نہیں کی جاتی۔اس نکتے پرخوب غورکیاجاتاہے کہ کسی بھی پالیسی کامستقبل بعیدکے معاملات پرکیااثرمرتب ہو سکتاہے۔
ایسانہیں کہ امریکامیں سبھی کچھ بہت آسانی سے منظورکرلیاجاتاہے۔وفاقی بجٹ کی منظوری میں وقت لگتاہے اورخاصی دقت بھی پیش آتی ہے۔امریکامیں بھی سخت ترفیصلے کرناآسان نہیں کیونکہ ریاستیں مزاحمت کرتی ہیں۔جب ان کے مفادات متاثرہورہے ہوتے ہیں تب ان کی طرف سے مزاحمت کاگراف بلندہوجاتاہے۔یہ کیفیت ہردورمیں رہی ہے۔ کوروناوائرس کی وباکے دنوں میں لاک ڈاؤن کافیصلہ تیزی سے کرلیاگیا۔وفاقی سطح پراِسی نوعیت کے فیصلے تیزی سے کیے جاسکتے ہیں۔
09۔2008کے مالیاتی بحران کے دوران اس وقت کے امریکی صدربراک اوبامانے ملک کومعاشی بحران کی زدسے نکالنے پرتوجہ دی اوربنیادی ڈھانچے پرغیرمعمولی فنڈخرچ کرنے کی تیاری کی۔ماہرین کواندازہ تھاکہ امریکامیں بنیادی ڈھانچاکمزورہوچکاہے۔ معاشی استحکام یقینی بنانے کیلئے بنیادی ڈھانچے کواپ گریڈکرنالازم تھا۔اس کیلئے ہزاروں ارب ڈالردرکارتھے۔وفاقی سطح پریہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ریاستیں ہرمعاملے میں وفاق کے ساتھ چلنے کیلئے تیارنہ تھیں۔سوال ریاستی مفادات کے داؤپرلگنے کاتھا۔کسی بھی ملک میں اس نوعیت کی سرمایہ کاری ناگزیرسمجھی جاتی ہے۔اگرکوئی اورملک ہوتاتوبنیادی ڈھانچے کومستحکم ترکرنے کیلئے مطلوب فنڈکااہتمام کرنازیادہ دشوارنہ ہوتامگرامریکا میں ایساکرنا آسان نہ تھا۔تب ڈیموکریٹس کی حکومت تھی۔ری پبلکنزنے یہ اعتراض کیاکہ بنیادی ڈھانچے پرغیرمعمولی فنڈنگ سے اسٹیٹ سوشل ازم کوفروغ ملے گا!
امریکا میں ری پبلکنزنے خودکوزیادہ سے زیادہ وفادارثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگرناکام رہے ہیں۔ری پبلکنزنے مذہب کابھی سہارالیاہے۔ری پبلکنزوطن پرست ہونے کے دعوے کرتے ہیں اوراس سلسلے میں بڑھکیں بھی بہت مارتے ہیں مگرجب حقیقی بہبودِ عامہ کی بات ہوتی ہے تب وہ فنڈنگ کے معاملے میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔09۔2008
کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں براک اوبامانے جواقدامات کیے ان کی راہ روکنے سے متعلق ری پبلکنزکی کوششیں اب رنگ لارہی ہیں۔امریکاکوشدید معاشی بحران کا سامناہے۔مالیاتی پیچیدگیاں ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں۔تب ری پبلکنزنے اہم فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی تھی۔اس کا نتیجہ اب مالیاتی پیچیدگیوں کی صورت میں برآمد ہورہاہے۔
ایک زمانے سے دنیایہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ری پبلکنزنہیں چاہتے کہ امریکامیں حکومتی نظام ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہوسکے۔وہ قومی مفادکے ہرمعاملے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ان کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ فیصلے تاخیرسے ہوں،بہبودِ عامہ کے منصوبے زیادہ سے زیادہ کمزوررہیں،مطلوب نتائج کاحصول ممکن نہ ہوسکے۔ری پبلکنزکی کوشش ہوتی ہے کہ عوام پر زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کابوجھ لاداجائے اوربہبودِعامہ کے منصوبوں پرکم سے کم خرچ کرناپڑے۔ڈیموکریٹس جمہوریت پسندی کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ عوام کوزیادہ سے زیادہ سہولتیں میسرہوں۔ری پبلکنزاس معاملے میں ان کی نہ صرف یہ کہ مددنہیں کرتے بلکہ راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ری پبلکنزدفاع پرزیادہ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی جنگ چھڑی رہے اورجنگی مشین بندنہ ہو۔دوسری طرف وہ انتہائی مالدارطبقے کوٹیکسوں کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ایک طرف تومنتخب ایوانوں میں کیے جانے والے فیصلے ہیں اوردوسری طرف امریکی سپریم کورٹ بھی اکثرری پبلکن پارٹی کے بازوکی حیثیت سے کام کرتی ہے۔اس کے نتیجے میں عوام کے حق میں کیے جانے والے فیصلے گھٹتے جاتے ہیں۔
سابق امریکی نائب صدرجوبائیڈن صدارتی امیدوارکی حیثیت سے دوہزارارب ڈالرسے زائدمالیت کاایساپیکیج پیش کرچکے ہیں،جس کابنیادی مقصد ملک کوماحول کے شدیدمنفی اثرات سے محفوظ رکھناہے۔ری پبلکنزان کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔جو بائیڈن کیلئے بھی کام کرنااتناہی دشوارہوگاجتنابراک اوباما کیلئے تھا۔اوباماکوملک کابنیادی ڈھانچامضبوط بنانے میں دشواریوں کاسامنا کرنا پڑاتھااورجوبائیڈن کوماحول کے منفی اثرات کاسامناکرنے میں بھی مشکلات کاسامناکرناپڑے گا۔ری پبلکنزسے جس نوعیت کی مدددرکارہے وہ انہیں حاصل نہ ہوسکے گی۔جوبائیڈن نے جوپیکیج پیش کیاہے اس کے نتیجے میں ملازمت کے لاکھوں مواقع بھی پیداہوں گے۔ری پبلکنزمزاحم ہوں گے اوریوں خرابیاں برقراررہیں گی۔المیہ یہ ہے کہ ری پبلکنزنے ہردورمیں معیشت کاپہیہ جام کرنے کی کوشش کی ہے اورہردورمیں انہیں متوسط طبقے کی حمایت حاصل رہی ہے۔جوری پبلکنز کے پیدا کردہ معاشی بحران سے سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں۔ری پبلکن صدورہمیشہ انتہائی مالدارامریکیوں کے مفادات کاتحفظ یقینی بنانے کیلئے لڑتے آئے ہیں مگر عوام پھربھی ان کے طرف داررہے ہیں۔
یورپی یونین آج بھی بہت سی الجھنوں سے دوچارہے۔فیصلوں میں تاخیرہوتی ہے اورمسائل بڑھتے ہیں مگراس کے باوجودایک حقیقت بالکل عیاں ہے کہ عوام کے مفادکوکسی بھی حال میں داؤپرلگنے نہیں دیاجاتا۔یورپی قائدین اول آخراس نکتے کواہم قراردیتے ہیں کہ عوام کی مشکلات کم ہونی چاہئیں،اوریہی یورپی یونین کاسب سے بڑاپلس پوائنٹ ہے۔
اس میں کوئی رازنہیں ہے کہ عام امریکیوں کوزیادہ کام کرناپڑتاہے جبکہ یورپی یونین میں ہفتہ میں 40 گھنٹے اوربعض ممالک میں اس سے کم کام کرناپڑتاہے۔یقینی طورپرکچھ امریکی یورپی افرادکوسست اورکم محنتی کہتے ہیں جبکہ یہ درست نہیں۔بیشتر یورپی ممالک میں امریکاسے زیادہ مزدوردوست لیبرقوانین موجودہیں۔اگرچہ امریکی اب پہلے سے کہیں زیادہ فوائداورحقوق کے ساتھ معاشی خوشحالی کی طرف گامزن ہیں لیکن تاحال یورپی یونین اب بھی امریکاسے کہیں زیادہ فلاحی ریاستیں ہیں جہاں کے عمررسیدہ شہری بہترریٹائرڈزندگی کے مفادات سے مستفیذ ہورہے ہیں اوریقینا یورپی ریاستوں کایہ بھی ایک اہم پلس پوائنٹ ہے جو فی الحال امریکی شہریوں کومیسرنہیں۔
بروزمنگل۱۲صفر الحرام۱۴۴۲ھ۲۹/ستمبر ۲۰۲۰ء
لندن

 

Comments are closed.