Baseerat Online News Portal

امہات المئومنین کاتذکرہ عنبریں

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
حضورﷺ کی نسبت مبارکہ کی برکت سے ازواج مطہرات کا مقام و مرتبہ بہت ہی ارفع و اعلی اور بلند و بالا ہے، ان کی شان میں قرآن حکیم کی کئی آیات بینات نازل ہوئیں اور حضور پاکﷺکی احادیث شریفہ میں بھی ان کی عظمت و فضیلت اور خصائص و کمالات کا تذکرہ موجود ہے- چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے
ترجمہ: اے نبی (ﷺ)کی بیبیو!تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو(سورۃ الاحزاب 32)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606ھ نے لکھا ہے ترجمہ: یعنی ازواج مطہرات وہ خصوصی شان رکھتی ہیں جو دوسری خواتین نہیں رکھتیں، یہ برگزیدہ و عفت مآب خواتین تمام مومنین کی مائیں اور نبیوں کے سردار کی بیبیاں ہیں- (تفسیر الرازی، سورۃ الاحزاب 32)
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ازواج مطہرات حضور پاک ﷺ کے کاشان اقدس کی برکت سے دنیا کی تمام خواتین میں ایک منفرد و ممتاز مقام کی حامل بن گئیں جس میں کوئی ان کا شریک نہیں ہے۔
اللہ پاک کے پیارے رسول ﷺ امت کے ہرفرد کے لیے اس کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحیم وشفیق ہیں اسی طرح جن افضل ترین خواتین کواللہ پاک نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کاساتھی بنانے کے لیے منتخب کیاوہ بھی آپ کی امت کے لیے حددرجہ شفیق ومہربان تھیں بالکل اسی طرح جس طرح مائیں اپنی حقیقی اولادکے لیے ہوتی ہیں فرمان خداوندی ہے ۔’’نبی (ﷺ)مئومنین کے لیے خودان سے بھی بڑھ کر ہیں اور ان کی بیویاں مئومنوں کی مائیں ہیں(القرآن)حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔جن عورتوں سے آپﷺ نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو آپﷺ کی رحلت کے وقت حیات تھیں۔ اور دوعورتیں آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں۔(ام المئومنین حضرت خدیجہ اور ام المئومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما )
ان کے علاوہ مزید دوعورتیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپﷺ کا ان سے عقد ہوا تھا یا نہیں لیکن ا س پر اتفاق ہے کہ انہیں آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کیا گیا۔نبی کریم ﷺ کی ازواج میں زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
مئورخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المئومنین کہا جاتا ہے یعنی مئومنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔
(1)حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔ان کے جیتے جی آپﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔آپﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے تو کوئی زندہ نہ بچا۔ البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں : زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ – زینب کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی۔ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمان سے ہوئی۔ حضرت فاطمہ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالب ؓسے ہوئی۔ اور ان کے بطن سے حضرت حسن ،حضرت حسین رضی اللہ عنہما ، زینب اور ا م کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔
(2)حضرت سودہ بنت زمعہؓ :۔
ان سے رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہ کی وفات کے تقریباً ایک ماہ بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپﷺ سے پہلے حضر ت سودہ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔ حضرت سودہ کی وفات مدینہ کے اندر ہوئی۔
(3)حضرت زینب بنت خزیمہؓ :۔
یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صعصعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم ومروت اوررقت ورفت کے سبب ان کا لقب ام المساکین پڑ گیاتھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ وہ جنگ احد میں شہید ہوگئے تو رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ مگر صرف تین ماہ یا آٹھ ماہ رسول اللہﷺ کی زوجیت میں رہ کر ربیع الآخر یا ذی قعدہ میں وفات پاگئیں۔ نبیﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔
(4)حضرت ام سلمہ ہندؓ :۔
یہ ابو سلمہ کے عقد میں تھیں۔ حضرت ابو سلمہ کا انتقال ہو گیا توان کے بعد رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ فقیہ ترین اور نہایت عقلمند خاتون تھیں۔ 84 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔
(5)حضرت صفیہ بنت حی بن اخطبؓ :۔
یہ بنی اسرائیل سے تھیں۔ اور خیبر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور آزاد کرکے شادی کرلی۔ یہ فتح خیبرکے بعدکاواقعہ ہے۔ اس کے بعد خیبر سے بارہ میل کی دوری پر مدینہ کے راستہ میں سد صہبا کے پاس انہیں رخصت کرایا۔وفات پانے کے بعد بقیع میں مدفون ہوئیں۔
(6)حضرت جویریہ بنت الحارثؓ:۔
ان کے والدقبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں۔ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہ سے مکاتبت کرلی۔ یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اوران سے شادی کرلی۔ اس شادی کے نتیجے میں مسلمانوں نے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد کر دیے اورکہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ چنانچہ یہ اپنی قو م کے لیے ساری عورتوں سے بڑھ کربابرکت ثابت ہوئیں۔ انہوں نے ماہ ربیع الاول میں وفات پائی۔
(7)حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیؓ:۔
یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ قضا سے فارغ ہونے اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے کے بعد شادی کی۔
(8)حضرت ام حبیبہ رملہؓ:۔
یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئیں تھیں۔ لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہوکرعیسائی مذہب قبول کرلیا۔ اور پھر وہیںانتقال کرگیا۔ مگر ام حبیبہ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہﷺ نے محرم میں عمرو بن امیہ ضمری کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ ام حبیبہ سے آپﷺ کا نکاح کردے۔ اس نے امِ حبیبہ کی منظوری کے بعدان سے آپﷺ کا نکاح کردیا۔ اور شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبیﷺ نے خیبر سے واپسی کے بعد ان کی رخصتی کرائی۔
(9)حضرت حفصہ بنت عمرؓ :۔
آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کرگئے اور وہ بیوہ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺنے ان سے شادی کرلی۔ ماہِ شعبان میں ساٹھ سال کی عمر میں مدینہ کے اندر وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن ہوئیں۔
(10)حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ:۔
آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے نبوت کے گیارھوں برس ماہ شوال میں شادی کی، یعنی حضرت سودہ سے شادی کے ایک سال بعد۔ اور ہجرت سے دوبرس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال کے ماہ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ اور وہ باکرہ تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپﷺ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہ آپﷺ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور امت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔ عورتوں پر ان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانو ں پر ثرید کی فضیلت۔وفات کے بعدحضرت عائشہ ؓ بھی بقیع میں دفن کی گئیں۔
(11)حضرت زینب بنت جحشؓ:۔
یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہؓ سے ہوئی تھی۔ جنہیں رسول اللہﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت زید سے نباہ نہ ہوسکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمہ عدت کے بعد اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی
ترجمہ:۔جب زید نے ان سے اپنی ضرورت ختم کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔(سورۃ الاحزاب)
انہیں کے تعلق سے سورۃ احزاب کی مزید کئی آیا ت نازل ہوئیں جن میں متبنی (لے پالک)کے قضیے کا دوٹوک فیصلہ کردیا گیا۔
۔ یہ سب عورتوں سے بڑھ کر عبادت گزار اورصدقہ کرنے والی خاتون تھیں۔اور یہ رسول اللہﷺ کے بعد امہات المئومنین میں پہلی بیوی ہیں جن کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓنے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں ،یعنی حضرت خدیجہؓ اور حضرت زینبؓ ام المساکین کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِندہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں ، اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان بڑے اختلافات ہیں۔
جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک ماریہ قبطیہ کو جنہیںفرمانروا مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں مدینہ کے اندر وصال فرما گئے۔دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا، اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبیدہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے ، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔یہ تھاامہات المئومنین کامختصرتذکرہ جوقارئین کے سامنے رکھاگیاامید ہے کہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔
عامل شرع متیں ہیں امہات المومنین
دین کا حصن حصیں ہیں امہات المومنین
میرے آقا کے قریں ہیں امہات المومنین
محسن دنیا و دیں ہیں امہات المومنین
عائشہ ہوں یا خدیجہ، کہ ہوں بنت جحش
خاتم احمد اور نگیں ہیں، امہات المومنین
صفیہ ہوں، ام حبیبہ ہوں کہ زینب، جویریہ
ایک صادق کی امیں ہیں، امہات المومنین
ام سلمہ اور میمونہ ہوں، سودہ، ماریہ
سب کی سب جنت مکیں ہیں، امہات المومنین
بنت حارث ہوں کہ حفصہ، محترم اپنے لیے
سارے عالم سے حسیں ہیں، امہات المومنین
(رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین)
اللہ پاک ہمیں ان عظیم مائوں کی محبت کے ساتھ دنیا میں رکھے اور اسی محبت کے ساتھ دنیا سے اٹھائے۔ (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

Comments are closed.