Baseerat Online News Portal

انجم بارہ بنکوی کے نام ایک شام 

مبصر : منصور قاسمی ، ریاض سعودی عرب

شاعری کا جوہر لکھنے والے کا تخیل ہوتا ہے اور تخیل میں سب سے اہم مطالعہء کائنات ہے، یعنی ارد گرد میں وقوع پذیر حالات کو باریکی سے معائنہ کرنا پھر شعری قالب میں ڈھالنا ،ادبی کتابوں سے محبت اور اہل ادب کی صحبت بھی ایک شاعر کو پکا سچا شاعر بنانے میں مددکرتی ہے ،یہ بھی ضروری ہے کہ شاعر اپنے مشاہدات و تخیلات کو جامہ پہناتے ہوئے درست الفاظ کا انتخاب کرے ، خوبصورت طریقہء اظہار اپنائے ، نزاکت کا خیال رکھے، فن کومجروح نہ ہونے دے ،اور یہ ساری خوبیاں ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی کی شاعری میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ شاعری کیا ہے ؟ انجم بارہ بنکوی خودکہتے ہیں ”شاعری میرے لئے عبادت کی طرح ہے ، میرے لئے زندگی ہے ،صرف عبادت اور پوجا ہی ایسی چیزیں ہیں جن میںدل کو سکون ملتا ہے ؛کیونکہ اس کے لئے آپ کو مکمل دھیان لگانا پڑتا ہے ،،انجم بارہ بنکوی کی اسی عبادت کی طرح شاعری کو سمجھنے کے لئے گزشتہ ٣ جنوری کو پندرہ روزہ ڈیجیٹل اردو اخبار” اردو سفر ،،نے انجم بارہ بنکوی کے اعزاز میں”ایک شام انجم بارہ بنکوی کے نام،،ایک خوبصورت آن لائن محفل سجائی جس کی صدارت پاکستان سے شعبہء اردوپنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے پروفیسر اور ادارہ تالیف و ترجمہ کے صدر ڈاکٹر محمد کامران نے کی ، مسند اعزاز پر جرمنی سے عارف نقوی صدر اردو انجمن برلن، جرمنی رونق افروز تھے ، جبکہ نظامت کے فرائض معروف شاعر اور کئی کتابوں کے خالق افروز عالم ( جدہ) نے انجام دیئے ۔ تقریب میں جرمنی ،برطانیہ ، سعودی عرب ، عمان ، بھارت اور پاکستان سے متعدد ادیبوں اور نقادوں نے شرکت کی ۔

سب سے پہلے ناظم محفل نے اردو دنیا کی معروف شخصیت پروفیسر شافع قدوائی ہیڈ ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونیشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو انجم بارہ بنکوی کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی دعوت دی ،انہوں نے زمانہء طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہا : انجم جب لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اسی وقت سے انہوں نے شاعری شروع کر دی تھی ، ان کے کلام میں جدید و قدیم کا امتزاج ہے ، یہ سچی غزل کے پکے شاعر ہیں ، جب بھی الفاظ استعمال کرتے ہیں ، بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں، یہ شعر دیکھیں !

یہ سوچ کے تیرے قدموں کی کچھ خاک اڑا دی گلشن میں ہر پھول میں تیرے چہرے کی تھوڑی سی چمک آ جائے گی

خواب کے بوجھ سے گر گر کے سنبھلنے والے اچھے لگتے ہیں مجھے نیند میں چلنے والے

انجم اچھا شعر کہتے ہیں اور اچھے کی تشریح پیاز کے چھلکے کی طرح ہے ، اتارتے چلے جائیں معنی نکلتے چلے جائیں گے انجم ہمارے عہد کے حساس اور خوبصورت شاعر ہیں ، میں مبارکباد پیش کرتا ہوں،،بلا شبہ شافع قدوائی نے مائک سنبھالتے ہی پروگرام کو بلندی تک پہنچادیا۔

پروفیسر شافع قدوائی کے بعد تشریف لائیں کلکتہ کی معروف شاعرہ اور ڈی ڈی نیوز کی براڈ کاسٹر شگفتہ یاسمین غزل ، انہوں نے اپنا وقیع مقالہ ”انجم کی خاموشیوں کے نغمات،،پیش کرتے ہوئے کہا : انجم خود دار اور خود شناس شاعر ہیں ،لفظوں سے کھیلتے ہیں ، کئی بار اشاروں کنایوں میں بڑی سے بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں ، ان کے اشعار سے عصری آ گہی ، آگہی سے ذہنی اضطراب ، اضطراب سے روح کی تڑپ اور تڑپ سے نتیجہء افکار کا پتہ چلتا ہے ۔۔ میری گزارش کیا سنتے اونچے قد کے چھوٹے لوگ

حقیقت یہ ہے کہ شگفتہ یاسمین غزل نے بھی الفاظ سے خوب کھیلا اور انجم بارہ بنکوی کے نغمے خوب سنائیں۔

اس کے بعد ا فروز عالم نے ڈاکٹر مشتاق صدف اسٹینٹ پروفیسر اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دعوت سخن دی، ڈاکٹر مشتاق صدف نے کہا : انجم نے سچ کو سچ ہی کہا ہے ، جھوٹ کا سہارا لے کر جھوٹ کا دفاع نہیں کیا ، ان کی شاعری سہل ممتنع ضرور ہوتی ہے تاہم غور طلب ہوتی ہے ، ان کے شعری تلازمات اور استعارات خوب تر ہوتے ہیں ۔

شاید نئے سفر کی کہانی لکھیں گے لوگ پانی کو خون ، خون کو پانی لکھیں گے لوگ

انہوں نے کہا : وقت آ گیا ہے کہ انجم کی فکر رومی کے اعتبار سے قدر و تعین ہو ، ان کی شاعری زندگی ہے ، انجم ہمارے عہد کے بہت اہم شاعر ہیں ،،۔اب باری تھی ڈاکٹر زرینہ زرین ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ اردو کلکتہ یونیورسٹی کی ، انہوں نے اپنے پر مغز مقالے میں انجم بارہ بنکوی کی شاعرانہ عظمت کو سراہتے ہوئے کہا : انجم کے اشعار دل کو چھو جاتے ہیں ، ذہن و دل میں تاثر پیدا کرتے ہیں ، کاری ضرب نہیں لگاتے بلکہ مدھم انداز میں طنز کرتے ہیں، بطور نمونہ یہ اشعار سنیں!

دل کا گلاب میں نے جسے چوم کر دیا ا س نے مجھے بہار سے محروم کردیا

کچھ دن سے مصلحت کے جنازے اٹھائے ہیں جائیں گے کس طرف یہ دوانے پتہ کرو

ڈاکٹر زرینہ زرین کے بعد پروفیسر سلیم محی الدین مہاراشٹر کو اپنا مقالہ پیش کرنے کے لئے مدعو کیا گیا، انہوں نے ”غم حیات اور انجم کی شعری کائنات ،،کے نام سے شاندار مقالہ پیش کیا ،جس میں انہو ں نے کہا :انجم کی شاعری غم حیات اور غم کائنات کا امتزاج ہے ۔ کسی نے غزل کو نیم وحشی کہا ، کسی نے شاعری کی آبرو کہا ؛تاہم غزل کی محبوبیت میں کوئی کمی نہیں آئی اورغزل کے ایسے ہی عاشق کا نام انجم بارہ بنکوی ہے ، روایت ا ن کے پاؤں کی زنجیر نہیں بلکہ ایک متحرک قوت ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:

خوشبوئیں ہاتھ اٹھا کر یہ دعائیں مانگیں ختم ہو جائیں گے سب زہر اگلنے والے،،

میںوثوق کے ساتھ کہتا ہوں”غم حیات اور انجم کی شعری کائنات ،،صرف ایک مقالہ نہیں بلکہ انجم بارہ بنکوی کے فن پر ایک دستاویز ہے ۔

اب وقت آ چکا تھا انجم بارہ بنکوی کے رفیق خاص شعیب نظام کانپوری کو آواز دی جائے سو ناظم بزم نے انہیں آواز دی ۔شعیب نظامی نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا : انجم سے چھوٹے بھائی کا رشتہ ہے ، میں، ساغر اعظمی ، شافع قدوائی ، ،عرفان صدیقی، انجم ،ہم سب بارہ بنکی اور لکھنؤ کی نشستوں میں ساتھ ساتھ شریک رہتے ، انجم کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کے شعراء کو خوب پڑھا اور جذب کیا ، تخلیقی سطح پر انجم کا ہر شعر اپیل کرتا ہے اسی لئے انجم کے اشعار نے میرے دل میں جگہ بنائے ہیں ، میںانجم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،، ۔ شعیب نظام کا بار بار نیٹ پروبلم ہونے کی وجہ سے خود ان کو اور سامعین و ناظرین کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔

شعیب نظام کے بعد اس شخصیت کو دعوت کلام دی گئی جو ایشیا سے بہت دور جرمنی میں بیٹھے تھے اور وہ تھے مہمان اعزازی عارف نقوی ، انہوں نے سب سے پہلے اپنی اور جرمنی کی اردو برادری کی طرف سے انجم بارہ بنکوی کو مبارکباد پیش کی، پھر گویا ہوئے : لکھنؤ یونیورسٹی نے بڑے بڑے ہنر مند اور شاعر پیدا کئے، اس میں سے ایک نام انجم بارہ بنکوی ہے ، انہوں نے شاعری میں جو بھی لکھا ہے، ڈوب کر لکھا ہے ، انسانیت کی بھلائی کے لئے لکھا ہے ، وہ کہتے ہیں : مجبوریوں نے گھر سے نکلنے نہیں دیا مجھ کو مری زمین نے چلنے نہیںدیا

یہ شعر اگر آج کہتے تو سبھی کہتے یہ کورونا وبا کے پس منظر میں کہا گیا شعر ہے؛ حالانکہ یہ سماجی پس منظر میں کہا گیا شعر ہے ، ان کا ترنم بھی لاجواب ہے ،،۔

محفل اختتام کے جانب گامزن تھی اور اب صدر محفل ڈاکٹر کامران کو صدارتی خطبہ اور اظہار خیالات پیش کرنا تھا چنانچہ ناظم محفل نے بلاتاخیر آواز دی ، ڈاکٹر کامران نے سب سے پہلے ناظم محفل افروز عالم کی بھرپور تعریف کرتے ہوئے کہا : افروز عالم افروز حیات بھی ہیں اور افروز محبت بھی ،،اس کے بعد پیش کئے گئے مقالات پر گفتگو کی ، انجم بارہ بنکوی کی شعری تخلیق پرکہا: ان کے اشعار میں خوشبو اور رنگت و نکہت کی حکمرانی ہے ، ان کے کلام کو کلاسیکی اور جدید شعری روایت کا امتزاج قراردیتے ہوئے ان کے سماجی شعور کو خراج تحسین پیش کیا مزید کہا : انجم جدید طرز احساس کا دل بھی رکھتے ہیں ، ایک ایک شعر دل کو چھوتا ہے ۔

مہک رہی ہے کئی آسمان مٹی میں قدم زمین محبت میں دیکھ بھال کے رکھ

انہوں نے نشست کے متعلق کہا: آج کی نشست خوبصورت اور بامعنی تھی ۔،، صدر محفل کے بعد اس پروگرام کے مبصر منصور قاسمی (ریاض سعودی عرب) نے اردو سفر کی طرف سے جبکہ انجم بارہ بنکوی نے اپنی طرف سے تمام سامعین ، ناظرین، قارئین اور منتظمین کا شکریہ کیا ، اور اس طرح ایک خوبصورت شام اختتام پذیر ہوئی ۔۔

واضح رہے کہ کلام شاعر بزبان شاعر کے تحت انجم بارہ بنکوی گاہے گاہے اپنی غزلوں سے محفل کو رونق بخش رہے تھے اس لئے آیئے چلتے چلتے ہم بھی ان کے کچھ اشعار سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

اب تو انصاف کرو اب تو بتاؤ کھل کر ہاتھ کس کس کے مرے خوں سے سنے لگتے ہیں

آپ کو چاند ستارو ںکے سلام آئیں گے آپ سمجھیں تو کسی رو ز اشارہ میرا

یہ آسمان تو خاموشیوں کا نغمہ ہے زمیں سے ڈرتے رہو بھائی بول بھی سکتی ہے

سورج کی روشنی سے عداوت ضرور ہے اس نے کسی چراغ کو بجھنے نہیں دیا

جاگیر عظمتوں کی اگر چھن گئی تو کیا قبضے میں آج بھی مرے قصر انا تو ہے

نا قدریوں کی دھول کو چہرے پہ مل کے آج انجم اسی طرف سے کئی اہل دل گئے

وہ اگر چاہیں تو پیپل میں کھجوریں آئیں رونہ یہ بانجھ شجر اب نہیں پھلنے والے

 

Comments are closed.