Baseerat Online News Portal

” انسان بطورِ انسان”

 

آمنہ جبیں ( بہاولنگر)

کبھی کبھار کچھ لوگ اتنی اپنایت سے ہمارے قریب آتے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے۔ کہ ان سے بڑھ کر ہمارا خیر خواہ ہمیں چاہنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس عزت مقام پہ حیران ہو جاتے ہیں جو وہ لوگ ہمیں ان چند دنوں اور لمحوں میں دے دیتے ہیں۔ مگر یہ وقت یہ عزت یہ محبت کی بوندیں کچھ عرصہ کی ہوتی ہیں۔ جب ہماری ذات کی پرتیں کھلتی ہیں تو لوگ ہمیں برداشت نہیں کر پاتے۔ ہمارے ساتھ چل نہیں پاتے۔ میری زندگی میں بھی ایسے بہت سے لوگ آئے۔انہیں دیکھ کر میں یہ نتیجہ اخذ کر پائی۔ کہ دنیا میں اربوں کھربوں قسم کے لوگ ہے۔ کسی کا دل کیسا ہے کسی کے دماغ میں کیا فتور جنم دے رہا ہے۔ ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کوئی ہمارے ساتھ کیوں ہے کیوں ہمیں قریب سے ڈسنے کی کوشش کر رہا ہے یہ سب ہمیں چوٹ کھاکر اور جال میں پھنس کر سمجھ آتی ہے۔ دنیا میں ہر روپ کا انسان ہے۔ جس میں بہت سے لوگ ہم جیسے ہمارے مطابق نہیں ہوتے۔ ہر انسان کی اپنی خصلت اپنی پہچان اپنا ظاہر باطن ہے۔ اور پھر ہم انسانوں کا ایک ہی روپ تصور کیوں کر بیٹھتے ہیں۔ جب اچھا سمجھتے ہیں تو مکمل اچھا جب کوئی برائی دیکھ لیں تو مکمل برا قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ہمیں ایک انسان کو ایک ہی وقت پر برائی اور اچھائی سمیت قبول کرنا چاہیئے۔ ہم سب انسان ہیں یہاں کس کی ذات ہے۔ جو گناہوں میں جکڑی نہیں ہے۔ وہ کون سا انسان ہے جس کے اندر برائی کا یا اچھائی کا مادہ نہیں ہے۔ ہر انسان کی سرشت میں گِرنا اور سنبھلنا شامل ہے۔ اور دنیا میں انواع و اقسام کے انسان ہیں۔ جس طرح شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس طرح کردار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا کردار بہت شعل اور گناہوں سے چور اور بدکار ہوتا ہے۔ لیکن صرف دنیا کی نظر میں، مگر کیا پتہ وہ رب کی نظر میں معتبر ہو۔ اور کہیں پارسا، تسبیح اور جائے نماز پہ بیٹھنے والا منافقت سے بھرپور ہوتا ہے۔ کہیں خون چوسنے سے لوگ تسکین محسوس کرتے ہیں۔ تو کہیں خون کسی کی خاطر عطیہ کر کے سکون کی کیفیات لوٹی جاتیں ہیں۔ میڑک کی بات ہے جب میں نے بہت سی لڑکیاں دیکھیں ان پہ غور وفکر کیا۔ کچھ اپنی ذات میں گم بس کھانا پینا عیش و عشرت میں ڈوبی ہوئیں تھیں۔ جن کے لیے کسی کو ایذا پہچانا کسی کی حق تلفی کرنا کسی پہ الزام لگانا اور کسی کو کوسنا عام سی بات تھی۔ ایک طرف یہ تو دوسری طرف ایسی لڑکیاں تھیں۔ جو ذرا سی آہٹ پہ چونک جاتی تھیں۔ کسی نے کچھ کہ دیا فورا رونا دھونا شروع کر دینا۔ اپنی غربت اور کم عقلی پہ دبے رہنا اور خود اعتمادی کا فقدان ان کے اندر دور سے جھلکتا تھا۔ پھر میں نے مرد دیکھے جھوٹ بولتے، گالی گلوچ کرتےہوئے ہوس کے مارے ،داڑھی رکھ کر منافقت کرتے غریب کو دھکے دیتے بہت سے امراء دیکھے۔ لوگ اپنی عیش و عشرت میں اپنے سے چھوٹے کو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں دیتے ہیں۔ غریب امیر کے قریب سے بچ کر گزرتا ہے۔ عاجز ہو کر نظریں نیچی کر کے چلتا ہے۔ سہم سہم کے قدم رکھتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ ان امراء کا پابند ہے۔ یا غربت اس کا قصور ہے۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے کہ آج کے امراء غریبوں پہ اپنی دولت شہرت کا رعب جھاڑتے ہیں۔ ایک دفعہ سڑک پہ ایک آدمی بڑی لمبی سی کار سے نکلا اس نے صاف ستھرے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے کلف لگے ہوئے، اور عینک بھی لگا رکھی تھی۔ جیسے ہی وہ کار سے اتر کر دو قدم چلا تو اس کے جوتوں پہ مٹی پڑ گئی۔ اس نے قریب ہی ایک آٹو موبائل کی دوکان کے سامنے ایک بچے کو دیکھا اور اسے بلا کر کہا کہ ایک کپڑا لاؤ اور میرے جوتے صاف کر دو۔ وہ بچہ اس مرد کی ظاہری صورت سے گھبرا کر گرمی میں اپنے سر پہ باندھنے والے مفرل سے اس آدمی کے جوتے صاف کر دیتا ہے۔ اور وہ آدمی تو مزے سےچل دیا مگر وہ لڑکا حیرت میں ڈوبا اسے تکتا ہی رہا۔ دیکھیے یہ بھی قسم ہے ایک انسان کی،ایک بچہ بھی انسان کا ایک روپ ہے وہ امیر مرد بھی انسان کا ایک روپ ہے۔ لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ یہ فرق ازل سے موجود ہے۔ کہ بڑے چھوٹوں کو دباتے ہیں۔ اعلیٰ درجوں پہ فائز غریبوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اندر سے اچھائی برائی اور امیری، غریبی پہ جانچ کا مادہ نکال کر باہر پھینکنا ہو گا۔ ہمیں انسانیت کو پروان چڑھانا ہو گا۔ کیونکہ مذاہب کی گرداب میں پھنسے سے پہلے ہم انسان ہیں۔ اور ہمارے لیے انسانیت کے تقاضے مختص ہیں۔ انسان سے بطورِ انسان پیش آنا انسانیت کی جیت ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم انسانوں سے مذاہب اور اپنے سٹیٹس کے پیش نظر رویہ رکھیں۔ اور میرے خیال میں کوئی بھی مذہب ہو وہ برے رویے یا خود پرستی کی تلقین نہیں کرتا۔ اگر کہیں کمی ہے تو ہماری سوچ میں کہ ہم اپنے اندر سے اور دوسروں کے اندر سے انسانیت کو نکال کر پھینک چکے ہیں۔ باقی ہے تو صرف دولت کا غرور، عیش و عشرت کی چاہ، اور مادیت پرستی کی دھن، اسی دھن میں چلتے ہوئے ہم دوسروں کو کچل رہے ہیں۔ احساسات و جذبات کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ آج معاشرہ اس دوراہے پہ کھڑا ہے کہ انسان آج بھیڑیوں سے نہیں بلکہ انسان سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ انسان نے خود کو بہت بھیانک کر لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ دور میں لوگ مر بھی جائیں گے تو کبھی آنکھ اشکبار نہ ہو گی۔ یوں احساس دل سے اٹھے گا کہ باقی مخلوقات انسانیت پہ ماتم کریں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ دن آئے اور ہم خود کے آگے شرمندہ ہو جائیں۔ ہم سب کو انسان سے بطورِ انسان رویے کا رودار ہونا چاہیے اور محبت، احساس، فکر اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دیتے ہوئے انسانیت کے اعلیٰ معیار کو پہچاننا چاہیے۔ اللّٰہ ہم سب کی ٹیڑھی صفوں کو سیدھا فرمائے۔( آمین)

Comments are closed.