Baseerat Online News Portal

انشاء اللہ ،ماشاء اللہ،اناللہ۔۔۔

مدثراحمد

ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
مسلمان معصوم ہیںیا لالچی ہیں اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے،جہاں عبادتوں کویہ قوم صرف نفع ونقصان کے تحت انجام دیتی ہے،اُس قو م کو صرف نفع کمانے کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ہم جب نمازیںادا کرتے ہیںتو ہماری سوچ ہوتی ہے کہ ہمارا یہ عمل اللہ کو راضی کرنے سے زیادہ اللہ سے اتنے گنا ثواب ملے۔یہ تسبیح پڑھیں تو اتنا ثواب ملے،فلاں عمل کابدلافلاں طریقے سے ملے،یہی سوچ آج امت مسلمہ لے ڈوب رہی ہے۔پچھلےکچھ سالوں سے اُمت مسلمہ کو ایک نیاروگ لگا ہے اور وہ روگ گھر میں بیٹھ کر نفع کھانے کا ہے۔اسلام نے جہاں تجارت کوحلال قرار دیا ہے،وہیں حلال تجارت کے ضوابط وشرائط بھی بتائے ہیں،مگر آج کل کچھ ایسی کمپنیاں وجود میں آئیں جنہوںنے اسلامی تجارت کو اپنے من مانیوں سے توڑ مروڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا اور لوگوںنے اسے ثواب سمجھ کر اپنالیا۔اُن کا ثواب خالص ثواب نہیں بلکہ مالی ثواب بن گیا ۔پچھلے پانچ چھ سالوں سے ایسی کمپنیاں وجود میںآئی ،جنہوںنے تجارت کوصرف اسلامی طریقوں سے نہیں بلکہ مسلک سے بھی جوڑ کر عوام کو لوٹا۔ایمبیڈینٹ،اعلیٰ،ہیرا گولڈ سمیت درجنوں کمپنیاں اسلامی تجارت کے نام پر قائم ہوئیں اور تیزی کے ساتھ پھیلتی گئیں،جس تیزی کے ساتھ یہ کمپنیاں پھیلی اور جس طرح سے انہوںنے نفع کمایااُسی رفتار سے راتوں رات یہ کمپنیاں بند ہوگئیں۔اب ان کمپنیوں کی فہرست میںآئی ایم اے گروپ آف کمپنی بھی شمار ہونے لگی ہے۔جہاں ہیرا گولڈ،اہلحدیث کے بڑے طبقے کو اپنی جانب مائل کرتے ہوئے اربوں روپیوں کا غبن کیا وہیں،آئی ایم اے نے اہلحدیث کے علاوہ تبلیغی جماعت،اہلسنت الجماعت کے بڑے طبقے کو اسلامک تجارت کے نام پر لالچ دیتے ہوئے اربوں روپئے اکٹھا کئے اور راتوں رات کمپنی کے دروازے بند کر دئیے۔ہیرا گولڈہو یا آئی ایم اے یہ تمام کمپنیاں مسلمانوں کو انشاء اللہ،ماشاء اللہ،سبحان اللہ کہتے ہوئے کروڑوں روپیوںکا غبن کرنے کی بات سامنے آئی ہے۔لوگوںنے ان کے انشاء اللہ اور ماشاء اللہ پر یقین کرتے ہوئے ان کی جمع پونجی کا بڑا حصہ سرمایہ کے طو رپراس کمپنی میں لگایا تھا،اب انہیںاناللہ وانالیہ راجعون پڑھنے کا وقت آگیا ہے۔ہیراگولڈنے اپنی کمپنی کی تائید کیلئے بڑے بڑے علماء ومحدیثین کو سامنے پیش کیا،جن میںجرجس انصاری،شیخ قاسم جیسے علماء کو سامنے رکھ کر خوب تائید حاصل کی،بلاآخر یہی علماء نوہیرہ شیخ کے تعلق سے رجوع کیا ہے۔اسی طرح سے آئی ایم اے کی نوبت بھی شروع ہوچکی ہے۔آئی ایم اے سے استفادہ لینے والے کچھ علماء نماء شخصیات آئی اے ایم کی تائید کرتے رہے،یہاں تک کہ آئی ایم اے میںسرمایہ کاری کرنے کوثواب قرار دیا۔سوال یہ نہیں ہے کہ ہیرا گولڈ،ایمبیڈینٹ یا آئی ایم اے جیسی کمپنیاں لوگوں کو کیوں دھوکہ دے رہی ہیں؟۔بلکہ سوال یہ ہے کہ آج مسلمان کس بنیاد پر ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں؟کیا مسلمانوں کے پا س سے محنت و مشقت کرنے کامادّہ ہی نا پید ہوچکا ہے۔اسلامی تجارت کو اپنے من مانی طریقے سے جہاں یہ کمپنیاںعوام کوگمراہ کررہی تھیں وہیں لوگ بے وقوف بن کر ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے تھے۔کہتے ہیں کہ لالچ بُری بلا ہے،لیکن ہماری قوم کے پاس لالچ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ حرام اور حلال میں فرق ہی بھول گئے ہیں،انہیں صرف نفع سے مطلب رہا ہے۔ٹھیک ہے اگر آپ نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمایہ کاری کررہے تھے تو اب اس سرمایہ کاری کو واپس پوچھنے کاسوال ہی نہیں اٹھتا،کیونکہ آئی ایم اے تو نقصان میں ہوگئی ہے تو کیونکر آپ نقصان میں بھی منافع طلب کرینگے اور اگر آپ نقصان میں منافع مانگ رہے ہیں تو آپ اسلامی تجارت نہیں بلکہ سودی تجارت کررہے ہیں۔اگر سودی تجارت کررہے ہیں تو یقیناً گناہ میں مبتلا ہیںاور آپ نے اللہ سے جنگ کی ہے،اپنے مردار بھائی کاگوشت کھایا ہے اور ماں کے ساتھ زنا کرنے کے برابر ہے۔یہ تمام باتیں معلوم ہونے کے باوجود قوم ایسی جھوٹی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہی ہے۔مسلسل کمپنیاں لوگوں کو ٹھگ رہی ہیںاور لوگ اپنے آپ کو ان کے حوالے کررہے ہیں۔پچھلے پانچ سالوں میں اندازاً اُمت مسلمہ5 لاکھ کروڑ روپئے ایسی جھوٹی کمپنیوں میں بہہ چکے ہیں۔صرف ہیرا گولڈ کے تعلق سے50 ہزار کروڑ روپئے کا گھوٹالہ بیان کیا جارہا ہے،اس کے علاوہ ایمبیڈینٹ کا سرمایہ10-15 ہزار کروڑ،اعلیٰ کا ایک ہزار کروڑ،اللہ واکبر کا ایک ہزار کروڑ،مرگنال کمپنی کا20-10 ہزار کروڑ اور نہ جانے ایسی اور بھی کتنی بڑی چھوٹی بڑی کمپنیاں ہیں جو سرخیاں میں نہ آتے ہوئے بھی لوگوں کو ٹھگ کر فرار ہوچکی ہیں۔یقین جانئے کہ اگر یہ کمپنیاں حق وشفاف کے ساتھ کام کرتی تو یہ کمپنیاں ہندوستان کی ٹاپ کمپنیوںمیںشمار ہوتی۔رئلائنس جیسی کمپنیوں کے برابر کھڑی ہوتی،اتنی بڑی رقم میں ہزاروں تعلیمی ادارے،کئی یونیورسٹیاں،کئی میڈیا ہائوز،کئی اسپتال،انڈسٹریس بنائےجاسکتے تھے۔مگر نہ لینے والوں کے پاس اخلاص تھا اور نہ ہی دینے والوں کےپاس اخلاص تھا،وہ بھی حرام چاہ رہے تھے یہ بھی حرام کھا رہے تھے۔جس قوم میں حرام خوری سر چڑھ کر بولے اُس قوم کی دعائیں کیسے قبول ہونگی اورکیسے ان کے استغفار قبول ہونگے،کیسے وہ قدرتی آفات سے بچیے گیں،کیسے ظالم حکمرانوں سے پناہ حاصل کرینگے۔اگر واقعی آئی ایم اے قانونی دائرے میں رہ کر کاروبار کرتی تویقیناً و ہ اپنے سرمایہ داروں کومنافع دینے میںٹال مٹول کرتی،نہ ہی لوگوں کو نوٹ بندی کا بہانا پیش کرتی۔اپنی تائید میں بڑ ے بڑے ماہرِ معاشیات یعنی ایکنامسٹ اور سی اے کے ذریعے سے اخباری بیان یا تائیدی بیان جاری کرتی نہ کہ تجارت کی الف ب سے نا واقف علماء کے ذریعے سے تائید حاصل کرتی۔اگر آئی ایم اے کے پاس واقعی میں تجارت کا جذبہ ہوتا تو وہ اتنے بڑے سرمایہ سے میڈیا ہائوز کاقیام کرتی نہ کہ علماء نما شخصیات کی جانب سے شروع کردہ ویب پورٹل کے ذریعے سے اپنے بیانات جاری کرتی!۔جس وقت یہ تحریر قلمبند کی جارہی ہے اُس وقت تک تو آئی ایم اے کے سی ای او منظور خان کے تعلق سے طرح طرح کے گمان پیش کئے جارہے ہیں اور لوگوںمیں یہ خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ ان کا پیسہ بھی دوسری کمپنیوں کی طرح ہی چلاگیا۔بات یہ بھی ہے کہ یہاں چند مسلمانوں کانقصان نہیںہے بلکہ یہ پوری اُمت مسلمہ کانقصان ہے،پہلے ہی مسلمان مالی حالات میں کمزور ہیں،ان سرمایہ کاروںمیں کچھ لوگوںنے اپنی زندگی بھر کی کمائیاںان کمپنیوںمیں لگائی ہیں تو کچھ نے اپنی جمع پونجی کو بیچ کر ان کمپنیوں میںسرمایہ کے طو رپر لگایاہے۔اب اتنے بڑے نقصان کی بھرپائی کون کریگا؟۔عام لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے بازئوں پر یقین رکھتے ہوئے اپنی محنت کی کمائی سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ شارٹ کٹ طریقے اپناتے ہوئے راتوں رات مالدار بننے کی طرف گامزن ہوں۔ 

Comments are closed.