Baseerat Online News Portal

انورشاہ کشمیریؒ علم و فضل کا روشن چراغ تھا

 

✍️⁩نسیم ظفر بلیاوی

یوں تو ہمارے اکابر دار العلوم دیوبند میں سبھی اپنے وقت میں ایک اعلیٰ محدث، شعلہ بیاں مقرر، نایاب مجتہد، عمیق فکر و فلسفہ کے مالک، ڈھیروں ملفوظات کے حامل، علم و عمل اور اپنے فضائل و مناقب کے اعتبار سے آفتاب و ماہتاب ہوۓ ہیں۔ جنہوں نے اپنے دقیق و عمیق علم سے ہر متلاشی علم کی علمی تشنگی کو بجھایا ہے، انہیں علوم کے خزانوں میں سے ایک ۲۷ شوال سن ۱۲۹۲ھ کی معطر و خوشبودار صبح کو، خاندان سادات سے تعلق رکھنے والا، کشمیر کا ایک نومولود بچہ بھی تھا۔ جو آگے چل کر ایک لمبی تاریخ رقم کرنے والا تھا، کتابوں کے شہر میں دل و دماغ کو بسانے والا تھا، مختلف علوم و فنون پر کامل دسترس رکھنے والا تھا، جو اپنے والد_والدہ کا ایک چمکتا ستارہ تھا، چھ سال میں حافظیت، اکیس سال میں عالمیت، مکمل کرنے والا تھا، چند مدارس اسلامیہ میں قیام کے بعد ام المدارس دار العلوم دیوبند میں صدر المدرسین کی حیثیت سے فائز ہو کر احقاق حق اور ابطال باطل کا حقیقی مصداق تھا، مزید دقیق مسائل پر گہری نظر و نگاہ رکھنے والا تھا، جانشین شیخ الہند رح کا ایک ذہین و فطین شاگرد تھا، دفاع ختم نبوت کا علمبردار تھا، گستاخ رسولﷺ کے لیے ایک شمشیر برہنہ تھا، رحمتوں والے نبی کا سچا یار تھا، اہل سنت والجماعت کا یگانہ شاہکار تھا، نیز مرزایئت کے کفر و ارتداد اور دجل و فریب کے تمام گوشے کو روز روشن کی طرح عیاں کرنے کے ساتھ ہی بدعتیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا، اپنی جامع معقول و منقول شخصیت کے ساتھ مختلف علوم و فنون کی کتب کا مطالعہ فرما کر اس پر اپنی باریکی تحقیقات و تدقیقات کر کے بہت سارے مسائل کو نہایت آسان و سہل انداز میں پیش کرنے والا تھا، اپنی مشفقانہ و مخلصانہ تربیت سے ہزاروں جید عالم بے مثال شاگرد مصنف پیدا کرنے والا تھا۔ بالآخر وہ نومولود بچہ بڑا ہوا اور مذکورہ بالا تمام امور کو حقیقت و واقعیت کا ایک جامہ پہنایا اور اپنی ایک الگ شناخت و پہچان بنا کر اپنے دقیق علم و عمل کا، فضائل و مناقب کا، تبحر و وسعتِ معلومات و وسعتِ مطالعہ کا، حق گوئی و حق بیانی کا، ایسا لوہا منوایا ہے کہ جس کی بدولت آج پوری دنیا بالخصوص اہل علم اس بچے کو محدث امت فقیہ اعلی امام العصر حضرت مولانا انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

جی ہاں علامہ انور شاہ کشمیری ایک ایسی عالمی شخصیت ہے کہ جن کے ملفوظات و مواعظ اس قدر وافی و شافی ہیں کہ جب بھی وہ میرے نظر و نگاہ سے گزرتے ہیں تو میں دیکھ کر عش عش کر بیٹھتا ہوں، جن کی محض اردو تصنیفات پڑھنا عمیق مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں ہے، مزید شاہ صاحب کی ایسی عربی و اردو تصنیفات ہیں جو آج بھی اہل علم کے لیے علم و آگہی کا ذریعہ بن رہی ہے اور بنتی رہیں گی (پشت در پشت منور ہونگی حضرت انور تیرے انوار سے) ہر لفظ ایک جامع معنی لیۓ ہوتے ہیں، جوکہ وہ سفید ورق پر تحفظ کرنے کے قابل ہوتے ہیں، شاہ صاحب کے نزدیک نہ عصبیت تھی نہ گروہ بندی، فقط وہ حق کی حمایت اور سچ کی اطاعت کرتے تھے، شاہ صاحب کے کثرتِ مطالعہ اور وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ ہندوستان اور حرمین شریفین کے کتب خانوں کی عربی مخطوطات میں سے انہوں نے کوئ کتاب ایسی نہ چھوڑی جو آپ کے کامل و مکمل مطالعہ سے نہ گزری ہو۔

یہی وہ کشمیری رح ہے جس کے بارے میں مولانا ابراہیم صاحب رح میر سیالکوٹی فرما گئے کہ اگر کسی کو مجسم علم دیکھنا ہو تو مولانا انور شاہ کو دیکھ لے۔

یہی وہ کشمیری رح ہے جس کے بارے میں اشرف علی تھانوی رح فرما گئے کہ انور شاہ حقانیت اسلام کی دلیلوں میں کا ایک دلیل ہے۔

یہی وہ کشمیری رح ہے جس کے بارے میں حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائپوری فرما گئے کہ حضرت شاہ صاحب آیۃ من آیات اللہ ہیں۔

یہی وہ کشمیری رح ہے جس کے بارے میں عطاء اللہ شاہ بخاری فرما گئے کہ صحابہ کا قافلہ جا رہا تھا یہ پیچھے رہ گئے تھے۔

انور شاہ کے علم و فضل کی جمیع خصوصیت میں سے ایک یہ بھی تھی ان کے معاصرین اہل فضل و کمال نے بھی ان سے استفادہ کیا ہے، شیخ الہند و علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہ جیسی باوقار ہستی اکثر اہم ترین مسلے میں شاہ صاحب کی جانب رجوع فرمایا کرتے تھے، تمام علوم میں شاہ صاحب کی خصوصیت و فضیلت تبحر و وسعتِ مطالعہ اور دقت نظر جو آپ کو حاصل تھی اس کے باوجود بھی حضرت سلف صالحین کے راستے کو ترک کرنا ہرگز بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، بیجا تاویلات نہیں کرتے تھے، برعکس اس کے _ پہلے اور موجودہ دور میں کسی کو وسعتِ مطالعہ کی دولت مل گئی تو مجتہد بن گئے اپنے علم پر بھروسہ کرکے قرآن کی تفسیر، احادیث کی تشریح، سلف صالحین کی تاویل، میں بالکل آزادانہ رویہ اختیار کر گئے، دوسروں تک باتیں پہچانے میں اپنی ساری قلمی اور زبانی قوتیں صرف کردیا کرتے ہیں۔

خیر اب آپ مذکورہ بالا کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت کی علمی تحقیقات و تدقیقات کا، حضرت کے ڈھیروں ملفوظات و مواعظ کا، حضرت کے متعلق اپنے معتبر اکابر کے حوالے کا، آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں انور شاہ کشمیری یہ کس طرح کی شخصیت تھی، تاریخ کی کتابوں کے صفحات پر غور کریں تو شاہ صاحب کے اس سے بھی اہم اور مخصوص کارنامے آپ اپنی نظروں کے سامنے موجود پایئں گے، جو کہ شاہ صاحب کی مکمل خوبیوں اور شاندار مختلف تحریکوں کو ان مختصر تحریر میں پرونا تقریباً احقر کے لئے نہایت ہی مشکل ہے،

مختصراً عرض یہ کہ شاہ صاحب اپنی حیات میں جمیع شاگردوں اور اپنے محبین و متعلقین کا رب ذوالجلال سے رشتہ مستحکم کرکے، یاد الٰہی سے گہرا ناتہ جوڑ کے، غافل و مردہ دلوں کو زندگی عطا کر کے، شاہ صاحب اپنی زندگی کے پورے ساٹھ سال مکمل کرتے ہوۓ، اپنی نورانی کرنوں سے دنیا کو منور کرتے ہوئے، اہل علم کے علمی تشنگی کو بجھاتے ہوئے، ۲ صفر سن ۱۳۵۲ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) جب وفات کی خبر قصبے میں پہنچی تو چشم فلک نے ایک ایسا حیران کن منظر دیکھا، کہ ایک طرف پورا اہل قصبہ ایک رنج و الم کے گہرے سمندر میں ڈوب کر، بآواز بلند مرثیہ پڑھ رہا ہے، دوسری طرف مدارس اسلامیہ اور اہل علم کا قافلہ گریہ و بکاہ میں مصروف ہو کر، خود کی یتیمی کا رونا رو رہا ہے، اس وقت علامہ شبیر احمد عثمانی و دیگر محبین حضرات بالکل مغموم و غمگین ہیں اور گویا ہیں کہ حضرت شاہ صاحب علماء کو یتیم کر گئے، طلباء کو پڑھانے والے اساتذہ تو مل سکتے ہیں، لیکن علماء کو اب کون پڑھائے گا ؟ علماء کی علمی پیاس کو اب کون بجھاۓگا ؟ مذکورہ جملہ فقط پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، جوکہ شاہ صاحب کا یہ سانحہ ارتحال اس وقت سے لیکر اب تک تمام امت مسلمہ بالخصوص جمیع علماء اور طلباء کے لیے یہ ایک عظیم خسارہ تھا اور آج بھی ہے آپ کی وفات کے بعد لاہور میں ایک تعزیتی اجلاس کیا گیا تھا جس میں موجود ڈھیروں باوقار علماء کے ساتھ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح بھی موجود تھے انہوں نے اس اجلاس میں ایک شعر کہا تھا کہ؂

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Comments are closed.