Baseerat Online News Portal

اور وہ جھولا اٹھا کے چل دیا۔۔۔!

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
وہ ایک دیہی زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، مقامی سیاست میں ان کا غلبہ تھا ، ۲۰۰۵ میں وہ قومی سیاست میں داخل ہوئے اور ان کا ایک بھائی ملک کا صدر منتخب ہو گیا اور مسلسل دس سال تک اقتدار میں رہا ۔ ۲۰۰۹ میں اس نے ملک کی ایک اقلیت سے تیس سال سے چلی آرہی خانہ جنگی کو بزور قوت ختم کردیا جس کی وجہ سے وہ ملک کی اکثریت کا ہیرو بن گیا ۔۲۰۱۵ کے صدارتی انتخابات میں اسے ہار کا منھ دیکھنا پڑالیکن ۲۰۱۹ میں دوسرا بھائی صدر منتخب ہوا تو اقتدار پھر اس خاندان کے ہاتھوں میں آگیا ۔
۲۰۱۹ میں وہاں عیسائیوں کے تہوار ایسٹر کے موقع پرگرجا گھروں اور ہوٹلوں میں بم دھماکے ہوئے جن کا الزام وہاں کی ایک مسلم جماعت کے نام مسلمانوں پر لگایاگیا جو ابھی کورٹ میں زیر سماعت ہے ان دھماکوں کے کچھ ہی دنوں بعد ان مٰیں کے ایک بھائی نے صدارتی امیدواری کا اعلان کیااورملکی سلامتی کو اپنی انتخابی مہم کا اہم اشو بنایا۔ ویسے بھی خانہ جنگی میں ایک اقلیت کو شکست دینے کے بعد اس ملک کی اکثریت کے قوم پرست لوگوں نے مسلم اقلیت کے خلاف ماحول بنانا شروع کردیا تھا ، مسلمانوں کے خلاف ریلیوں اور احتجاج کے انعقاد شروع ہو گئے تھے ، مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ اور حلال سرٹیفیکیٹ کی مخالفت کی جانے لگی تھی جو کئی بار مسجدوں، مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملوں کی صورت منتج ہوئی تھی ۔اس کے بعد ایسٹر دھماکوں نے وہاں کی اکثریت کی اکثریت کومسلم مخالفت میں اپنے قوم پرستوں کا ہم نوا بنا دیا اس خاندان نے اکثریت کے مسلم مخالف بر انگیختہ جذبات کو اپنے حق میں خوب کیش کیا ۔ خانہ جنگی کے وقت جو اکثریت متحد طور پر ان کے ساتھ کھڑی تھی ایسٹر بم دھماکوں کے بعد یہ اکثریت مسلم اقلیت کے مقابل پھر اس کے حق میںمتحد اور متحرک ہوگئی یہاں تک کہ ان کے مخالفین بھی ’ اسلامی بنیاد پرستی ‘ سے نمٹنے کے لئے ایک مضبوط لیڈر کی ضرورت کے تحت ان کی وکالت کرنے لگ گئے ۔ اس طرح۲۰۱۹ کا صدارتی الیکشن جیت کر وہ دوبارہ اقتدار پر قابض ہوگئے ۔ ایک بھائی صدر بن گیا اور دوسرا وزیر اعظم ۔اقتدار پر اس قبضے کے بعد انہوں نے اکثریت کو خوش کرنے کے لئے نہ صرف ایک مذہبی عبادت گاہ میں عہدے کا حلف لیا بلکہ مسلمانوں کی قانونی ہراسانی بھی شروع کردی۔عوامی مقامات پر برقع پر پابندی لگانے کے لئے قانون کا مسودہ کابینہ سے پاس کروایا اور’ یکساں سول کوڈ‘ کی طرز پر ’ایک ملک ،ایک قانون‘ بنانے کے لئے ایک متنازعہ مذہبی رہنما کی صدارت میں ٹاسک فورس بھی تشکیل دے دی۔اکثریت خوش ان کے ہر اقدام کو ماسٹر اسٹروک سمجھتی رہی ، ناقدین کا الزام ہے کہ اس دوران انہوں نے اقتدارپر پنی گرفت بہت مضبوط کرلی ۔ فیصلہ سازی پر مکمل اجارہ داری قائم کرلی ۔ اپنے فیصلوں اور پالسیوں کے نفاذ کے لئے فوج اور سلامتی ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کیا اور آزاد جمہوری اداروں کو کمزور کرنے والے قوانین پارلمنٹ سے پاس کروالئے یعنی وہ جمہوری تانا شاہ بن گئے ۔ عوام خاص طور سے اپنے ووٹرس کو خوش رکھنے کے لئے انہوں نے ٹیکس میں بھاری کمی کی ، اورکئی ترقیاتی تعمیری پروجیکٹس شروع کئے ، پل سڑکیں بندرگاہیں ہوائی اڈے اور عمارتیں بننا شروع ہوگئے ، لیکن ان سب کے لئے پیسہ یا تو چین سے ادھار لیا گیا یا یہ سب چیزیں ۹۹ سال کی لیز پر چین کو دے دی گئیں ،جس سے ملک پر قرض کا بوجھ بڑھتا چلاگیا ۔ ایک دن اچانک وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ آج سے ملک میں نامیاتی کھیتی (Organic Farming) ہوگی اس نے کیمیائی کھاد کی برآمد پرہی پابندی لگادی ، کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اس کی وجہ سے کیا حالات پیدا ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا گیا سو ان سے نمٹنے کی تیاری کیا ہوگی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں چاول کی فصل برباد ہوگئی ، غذا کی قلت اور دام میں اضافہ شروع ہوگیا ، اور آخر میں کھانا بازار سے ہی غائب ہوگیا۔برآمدات درآمدات سے بہت زیادہ بڑھ گئے،غیر ملکی زرمبادلہ گھٹ گیا،یہاں تک کہ پٹرول اور کوئلہ خریدنے کے لئے درکار ڈالر ختم ہوگئے ، پہلے پٹرول کی قیمت بڑھی پھر قلت ہوئی اور اب پٹرول ہے ہی نہیں جس کی وجہ سے ایک طرف ہر طرح کا ٹرانسپورٹ بند ہوگیا اور دوسری طرف بجلی کا بحران پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پانی کا بحران پیدا ہوا ، دفاتر،فیکٹریاں اور سیاحتی صنعت کی اسا س ہوٹلیں بھی بند ہوگئیں یعنی آمدنی کے تمام ذرائع بند ہوگئے۔ غرض کہ دو مہینے سے بھی کم وقت میں ملک مکمل طور پر دیوالیہ ہوگیا بلکہ خود سرکار نے اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ۔
ایسا نہیں کہ جو کچھ ہوا اس کا اندازہ نہیں تھا۔۲۰۱۹ کے بعد ہی سے کچھ لوگ اس سے آگاہ کررہے تھے لیکن اس وقت ملک کی عوام کی اکثریت حاکم کے ہر اقدام کو ماسٹر اسٹروک سمجھتی تھی ۔ لیکن اب جبکہ ملکی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے تب ان کے سمجھ میں آیا کہ یہ سب ماسٹر اسٹروک نہیں بلکہ جمہوری لیڈر کی تانا شاہی تھی جس نے لوگوں کو غیر اشوز میں الجھا کر اصل اور زمینی مسائل سے لا علم رکھا ۔ اب وہی لوگ اس خاندان کے خون کے پیاسے ہوگئے جو اسے اکثریت کا خیرخواہ ، اقلیت کا دشمن اور قومی سلامتی کا ہیرو سمجھتے تھے ۔ ا ب لوگ اس کے وزراء اور منتخب نمائندوں کو دوڑانے لگے جھیل میں پھینکنے لگے اور خود اس خاندان کے آبائی گھرکو جلاکر خاک کردیا جس کے بعد ملک کے اس مقبول ترین مشہور ترین اور مضبوط ترین قائدنے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیااور عوام کے خوف سے بحری فوج کے ایک اڈے میں پناہ لی ۔گویا جھولا اٹھایا اور چل دیا۔
یہ کہانی ہے سری لنکا اور وہاں کے راج پاکشے خاندان کی جس کا ایک فرد مہندا راج پاکشے پہلے دس سال تک صدر رہا ،اور اب وزیر اعظم تھا، اورآج کل عوام کے ڈر سے فوج کی پناہ میں چھپا بیٹھا ہے، ایک بھائی وزیر مالیات تھا اور کئی رشتہ دار حکومت میں اہم عہدوں پر فائز تھے ، ان لوگوں کی تانا شاہی نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ،معیشت کی مٹی پلید کردی اور عام بھکمری کی سی حالت پیدا کردی ۔ ایک بھائی تا دم تحریر وہاں کا صدر ہے جس کو نکالنے کے لئے عوام مسلسل احتجاج کر رہے ہیں کئی بار صدارتی محل کے گیٹ تک بھی پہنچ چکے ہیں ۔
ہر جمہوری تاناشاہ کا یہی انجام ہوتا ہے لیکن عوام اس وقت ہوش میں آتی ہے جب سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے۔

Comments are closed.