Baseerat Online News Portal

’’آئین ہند‘‘ منظم مگر نفاذ سے ہنوز دور

خبردرخبر:نوراللہ نور
چھبیس جنوری کا جشن یوں ہی رسما نہیں بلکہ اس آئین کے نفاذ کا جشن اور اور استقبال ہے جس نے انگریزی سامراج کے تسلط کو سرے سے اکھاڑ پھینکا ، آزادی ہند کے بعد ناپاک انگریزوں نے اپنے دور استعمار میں جو بھید بھاؤ اور امتیازانہ سلوک کا جو تعفن پھیلایا اس سے ملک کو پاک کرنے کی خوشی میں یہ جشن منایا جاتا ہے اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ہندوستان نے اگر چہ پندرہ اگست انیس سو پینتالیس ہی کو آزادی حاصل کرلی تھی مگر انیس سو پچاس تک برطانوی فرمانروا سربراہ مملکت رہا مگر چھبیس جنوری انیس سو پچاس میں جب نیا آئین عمل میں آیا تو ان کی مطعون ذات سے یہ شاداب ملک آزاد ہوا۔
یقیناً ہندوستان کی سسکتی عوام انگریزی استعمار سے آزاد شدہ حواس باختہ لوگوں پر آئین سازوں کا بڑا احسان ہے اور یہ سب ان کی رہین منت ہے۔
آئین ہند میں جن بنیادی حقوق کو پیش نظر رکھا گیا تھا اس کے حساب سے ایک پرسکون ہندوستان کی تعمیر متوقع تھی انفرادی آزادی، ضمیر کی آزادی، اجتماع کی آزادی بنیادی تعلیم کی آزادی، یقیناً یہ ساری چیزیں مامون و پرسکون ہند کے لئے مفید و نفع بخش تھی۔
آئین سازوں نے بڑی دور اندیشی اور محنت شاقہ کے بعد بڑے خلوص و محبت سے بنا کسی مذہبی و مسلکی امتیاز کو تشکیل دی اور ایک خوشگوار ہند کے خواب سجائے۔
مگر افسوس! اگر ہم گزرے ہوئے ماہ و سال کو دیکھتے ہیں اور گزرے ہوئے ایام کی تلخیاں جب ذہن کے پردہ تخیل پر آتی ہے یہ منظم قانونی دستاویز اپنی معنویت اور نفاذ سے کوسوں دور معلوم ہوتا ہے، جب روح فرسا واقعات و مشاہدات اور امتیازی سلوک کا منظر یاد آتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ آئین سازوں کی محنت و مشقت کا تمسخر کیا گیا ہے اور مذاق بنایا گیا ہے۔
ہندوستان کے گزشتہ چند سال اس بات پر شاہد ہیں کہ آئین کی ساری دفعات و اختیارات کا مذاق کیا گیا ہے آزادی اظہار رائے سے لیکر آزادی تعلیم و ترقی ہر ایک پر دست درازی ہوئ ہے اور ہر ایک دفعات کا بیجا اور غلط استعمال ہوا ہے۔
بات تمثیل سے زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے میں طویل السن اور مجرب نہیں مگر میری ان آنکھوں نے جو نظارے دیکھے ہیں وہ تمثیل و براہین کے لئے کافی ہیں۔
یوں تو بہت سے واقعات نے دستور ہند کو مخدوش کر دیا مگر وہ چیدہ و چنیدہ واقعات جس نے اس کی بنیاد کو متزلزل کردیا اور اس کے وقار کو مجروح کیا ان میں سے ایک "شہادت بابری” ہے جس نے مذہبی آزادی اور مساوی حقوق کی حق تلفی کی تازہ مثال ہے جس واقعہ کی نا انصافی نے قانون و آئین کی دھجیاں اڑا دیں شہادت بابری نے صرف ایک طبقے کو زچ نہیں پہنچائی ہے بلکہ آئین ہند کی اس دفعہ کا مذاق اڑایا گیا ہے جس میں مذہبی آزادی کے تعلق سے قانون مرقوم ہے۔
آزادی اظہار رائے کس پرندے کا نام ہے کچھ پتہ ہی نہیں ہے قانون ساز اسمبلی نے تو یہ پاس کردیا کہ ہر ایک کو بولنے، لکھنے کی آزادی ہے مگر میرے خیال سے اس کا نفاذ نہ ہوسکا کیونکہ اگر یہ اختیارات ہوتے تو "گوری لنکیشن "کو قتل نہ کیا جاتا ؛ "صدیق کپن ” سلاخوں میں نہ ہوتے سچائی کی نمائش اور حقیقت سے روشناس کرانے پر صحافیوں، ادیبوں کو ذلت کا سامنہ نہ کرنا پڑتا اور ابھی کے اس ماحول سے تو آزادی اظہار رائے کا وجود ہی کالعدم ہوتا ہے ۔
دوہزار کے مسلم کش فسادات میں ایک طبقے کا نسلی استحصال اور دلائل و براہین کے باوجود قاتلوں کا کیفر کردار تک نہ پہنچنا آئین مذہبی آزادی کی تذلیل و توہین ہے،مالیگاوں اور اجمیر بم دھماکہ کیس میں اصل خاطیوں سے چشم پوشی، اور بے گناہوں کو جیل رسید کرنا آئین ہند کی دفعات و اختیارات کا کھلا مذاق ہے ۔
تعلیم تو بس امراء کے بچوں کا حق ہوگیا ہے غریب اور پسماندہ طبقات کے بچے کی تو اعلی تعلیم تک رسائی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے اور جس خواندہ اور مستحکم ہند کا خواب لوگوں نے دیکھا تھا وہ ناخواندگی کی صف میں سر فہرست ہے۔
جوں جوں زمانے نے کروٹ لی لوگ آئین کی سلاسل کو توڑ کر اس پر دست درازی بھی کرنے لگے دفعہ 14 کا کھلے عام مذاق بنایا گیا ہے اور دستور ہند میں من مانی اور ترمیم و اضافے کے یہ کھیل اب کھل کر کھیلا جا رہا ہے دہلی فساد کے مجرموں کے خاطیوں کا سر عام ماحول کو پراگندہ کرنا یہ باور کراتا ہیکہ آئین تو منظم ہے مگر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے واقعات و تجربات نے یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ آئین ہند کو آئین کو جتنا مظبوط بنایا تھا اسے اب اتنا لچر بنادیا گیا ہے اور اس کا نفاذ اب بھی کوسوں دور معلوم ہوتا ہے۔
معاشرے کی ہر فرد کی زمہ داری ہے اور اعلی عہدیداروں کا یہ فریضہ ہیک اس کے نفاذ کو یقینی بنائے تاکہ ہر ایک مجبور و مظلوم کو اس کا حق مل سکے۔

Comments are closed.