Baseerat Online News Portal

آرین خان کو جیل ،شاہ رخ سے انتقام !

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 

آرین خان کیا پابلوایسکوبار ہے؟

اگر نارکوٹکس کنٹرول بیورو( این سی بی) کی بات مانی جائے تو یہی لگے گا کہ آرین خان دنیا کے بہت بڑے ’منشیات فروشوں‘ میں سے ایک ہے۔ ایسکوبار کو دنیا کا سب سے بڑا منشیات فروش مانا جاتا تھا، اسے ’ کنگ آف کوکین‘ کہا جاتا تھا، کولمبیا سے اس کا تعلق تھا، اسے ۲؍دسمبر ۱۹۹۳ء میں ایک مڈبھیڑ میں کولمبیا کی پولس نے مارگرایا تھا۔ پابلوایسکوبار کو ساری دنیا جانتی تھی ، امریکہ اور یوروپ میں کوکین کے ذکر کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں اس کا نام دوڑ جاتا تھا۔ اب یہاں بھارت میں این سی بی نے شاہ رخ خان عرف کنگ خان کے بیٹے آرین خان کو ’ ۶گرام چرس‘ ۔۔۔ جو نہ آرین خان کے قبضہ سے ملی ہے اور نہ ہی آرین خان نے اس چرس کا نشہ کیا ہے ۔۔۔ کے بارے میں ’ جاننے‘ کے ’ جرم‘ میں گرفتار کیا ہے ، اور اس معاملے کو یوں پیش کیا جارہا ہے جیسے کہ آرین خان بہت بڑا منشیات فروش ہے ! این سی بی کے اہلکار آرین کے واٹس ایپ چیٹ کو یوں پیش کررہے ہیں جیسے کہ اس میں عالمی ڈرگ کاریٹل کی ساری معلومات بھری ہو۔ چیٹ کے لیے نوجوان، ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے جو اصطلاحات گڑھتے ہیں ، ان کو ’ کوڈ‘ کہا جا رہا ہے ،اور ان کے اندر ایسے معنیٰ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو آرین کو انٹرنیشنل ڈرگ کاریٹل سے جوڑ دے ۔ آرین خان کے قبضے سے بھلے ہی منشیات نہ ملی ہو، بھلے ہی اس نے منشیات کا استعمال نہ کیا ہو ، لیکن اس کے دوست کے قبضے سے ۶ گرام چرس کی برآمدگی کو آرین کا ’ جرم‘ مان لیا گیا ہے ۔آرین کو گرفتار کرنےاور ضمانت پر رہا نہ کرنے کے تعلق سے یہ دلیل دہی جارہی ہے کہ اُسے ’ ۶ گرام چرس‘ کی خبر تھی، اس کا مطلب یہ کہ چرس اس کے ’قبضے ‘ میں تھا! اسے قانونی زبان میں Conscious Possession کہا جاتا ہے۔آرین کے جو واٹس ایپ چیٹ ہیں وہ اب تک سامنے نہیں آئے ہیں ، لیکن ان کی بنیاد پر ایک ابھرتی ہوئی اداکارہ، گزرے ہوئے کل کے ایک فلم ایکٹر، چنکی پانڈے کی بیٹی، اننیا پانڈے این سی بی کی راڈار پر آگئی ہے ، اس سے اب تک دوبار پوچھ تاچھ ہوچکی ہے ۔ این سی بی کے زونل ڈائرکٹر سمیر وانکھیڈے ( جن پر حکومت مہاراشٹر کے اقلیتی امور کے وزیر اور این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک نے کئی سنسنی خیز الزامات لگائے ہیں ) کا یہ کہنا ہے کہ اننیا پانڈے نے آرین کو ڈرگ سپلائی کیا تھا، وہ بھی تین بار ۔ لیکن اننیا نے اس الزام کو سرے سے خارج کردیا ہے ۔

آرین خان کی گرفتاری سے چند ہی روز قبل گجرات میں صنعت کار اڈانی کی ملکیت والی مندرا بندرگاہ پر ۲۱؍ ہزار کروڑ روپئے کی تین ہزار کلو گرام کی بھاری مقدار میں منشیات ضبط کی گئی تھی۔ یہ منشیات کیسے آئی اور اس کا استعمال کہاں اور کِن مقاصد کے لیے کیا جانا تھا ، اور اڈوانی کی بندرگاہ کے ذمے داران کا ضبط شدہ منشیات سے کیاتعلق تھا ، یہ سب سوالات ، جو اٹھنا تھے ، جنہیں پوچھا جانا تھا ، نہ اٹھائے گئے اور نہ پوچھے گئے ۔ عدالت نے اتنی بڑی مقدار میں منشیات کی ضبطی پر تشویش کا بجا اظہار کیا اور اس معاملے کی سنجیدگی کے ساتھ تفتیش کی ہدایت دی ، لیکن اس معاملے کوپوری طرح سےدبادیا گیا ہے ، اور ۶ گرام کی چرس ، ۲۱ ہزار کروڑ روپئے کی تین ہزار کلو گرام منشیات کے مقابلے زیادہ اہم ہوگئی ہے۔اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ درست ہوگا کہ ۶گرام چرس زیادہ اہم بنا دی گئی ہے۔ظاہر ہیکہ ۶ گرام چرس ، تین ہزار کلو گرام منشیات کے مقابلے کچھ نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ معمولی مقدار کی چرس کی برآمدگی کو ، وہ بھی آرین کے نہیں کسی اور کے قبضے سے ، ہوادی گئی ہے اور ۲۱ ہزار کروڑ روپئے کی منشیات ضبطی پرزبان بند کرلی گئی ہے ، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ’دال میں کچھ کالا ہے ‘ تو غلط نہیں ہوگا ۔۔۔ کیا ہے ’ دال میں کالا‘؟ کیا کسی اور کو بچانے کے لیے آرین کو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے ؟ کیوں اڈانی کے پورٹ کی منشیات ضبطی پر سے آنکھیں پھیر لی گئی ہیں؟ بہت سارے سوالات ہیں ۔ ممکن ہے کہ اڈانی پورٹ کے ذمے داران نے جو لاپروائی برتی ہے ، یا وہاں منشیات کی آمد میں ان کا کوئی ہاتھ ہے ، تو اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ۶ گرام چرس کی کہانی گڑھی گئی ہو ۔۔ ۔جو بھی ہو اڈانی پورٹ کی کہانی سامنے آنا ضروری ہے ۔ ضروری اس لیے بھی ہے کہ یہ کہا جارہا ہے کہ وہاں پہلے بھی بھاری مقدار میں منشیات اتاری گئی تھی اور ملک بھر میں پھیلادی گئی ہے ۔ منشیات کی رقم کا استعمال چونکہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے لیے کیا جاتا ہے اس لیے سارا معاملہ ملک کی سلامتی کا بن گیا ہے ۔۔۔ این آئی اے کو تفتیش کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ،دیکھئے پردۂ غیب سے کیا سامنے آتا ہے ۔۔۔اور آتا بھی ہے یا نہیں آتا ہے۔

آرین خان کی گرفتاری ، ممکن ہے اڈانی پورٹ کی ضبطی سے عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیےکی گئی ہو ۔۔۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ، یہ معاملہ’ انتقام‘ کا بھی ہے اور اس ملک کے وی وی آئی پی مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کا بھی ہے کہ انہیں آسانی کے ساتھ پھنسادیا جائے گا اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکیں گے ۔۔۔ اور دیکھا جائے تو اس وقت شاہ رخ خان کے ساتھ یہی ہورہا ہے ۔ مجھے شاہ رخ خان سے اپنی ایک ملاقات یاد آرہی ہے ، فلم ’ مائی نیم ازخان‘ کی ریلیز کے موقع پر انہوں نے اپنے بنگلے ’ منّت‘ پر صحافی حضرات کو جمع کیا تھا اور فلم سے متعلق تفصیلات بتائی تھیں۔ اس وقت ان کی باتوں سے یہ لگا تھا کہ وہ اپنی مسلم شناخت سے شرمندہ نہیں ہیں ، نہ وہ اسے چھپانا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں خود کو مسلمان بتاتے ہوئے کسی طرح کی جھجھک محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ اپنی فلم کے ذریعے انہوں نے ساری دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ ’ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں‘۔۔۔ لیکن وہ وقت تو پھر بھی مسلمانوں کے لیے بہت اچھا تھا ، اس وقت نہ نریندر مودی وزیراعظم تھے اور نہ ہی امیت شاہ ہوم منسٹر اور نہ ہی بی جے پی ملک کی برسراقتدار سیاسی جماعت تھی۔۔۔ تب اور اب میںبڑا فرق ہے ۔ آج بی جے پی ، مودی اور شاہ کی تریمورتی نے لوگوں کے ذہنوں کو اس قدر زہر آلود کردیا ہے کہ ہر ایک مسلمان ’ ملک دشمن ‘ سمجھا جانے لگا ہے ۔۔۔ شاہ رخ خان بھی ۔۔۔ شاہ رخ خان تو کچھ زیادہ ہی ، ملک اور قوم دشمن قرار پائے ہیں کہ انہوں نے اب تک صرف ایک بار نریندر مودی سے ملاقات کی ہے ، دوسری فلمی ہستیوں کی طرح وہ ان کے دربار میں قطار لگاکر کھڑے نہیں رہے ہیں ، اور نہ ہی اکشے کمار کی طرح بچکانے سوال کرکے ان کا انٹرویو کیا اور انہیں عوام دوست سمجھا ہے ۔ گوری سے بیاہ کرکے انہوں نے ’ لوجہاد‘ کا جرم الگ کیا ہے ۔ بھلے ہی نجیب کی گمشدگی، عمرخالد اور شرجیل اور صدیق کین کے ساتھ سرکاری نا انصافی پر انہوں نے کھل کر بات نہ کی ہو، مگر ملک بھر میں بڑھتی ہوئی عدمِ رواداری اور بھائی چارہ کے فقدان اور لوگوں میں پھیلتے ڈر اور خوف پر انہوں نے کھل کر بات کی ہے ۔۔۔ یہی نہیں بی جے پی کے حق میں انہوں نے نہ کبھی آواز بلند کی اور نہ ہی اس کی کسی الیکشن ریلی میں گئے ۔۔۔ بھلا بھگوا محاذ کیسے یہ برداشت کرسکتا ہے ۔ کیسے یہ برداشت کیا جاسکتا ہے کہ خود کو مسلمان سمجھنے والا ایک بہت بڑا اداکار ان کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردے۔۔۔ انتقام لینا ضروری تھا۔ انتقام پہلے کے سیاست داں بھی لیتے تھے مگر ان کا انتقام ایک حد میں ہوتا تھا ، یہ بھگوا ٹولہ ، یہ مودی اور شاہ کی سرکار، انتقام کے لیے ہر حد پار کرگئی ہے ۔۔۔ باپ کے کرتوت کا بدلہ بیٹے ، بیٹی اور بیوی سے بھی لیا جاسکتا ہے ، اور لیا جارہا ہے ۔

اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ آرین خان کو پھنسایا گیا ہے اور سمیروانکھیڈے اس کا ایک ذریعہ بنے ہیں ، تو بہت ممکن ہے کہ یہ بات سچ ہو۔ آرین کے قبضہ سے برآمدگی کے بغیر اور یہ ثابت ہوئے بغیر کہ اس نے نشہ کیا تھا،اسے جیل میں رکھنا، ضمانت نہ دینا ، صرف افسوس ناک ہی نہیں اس کے ساتھ ناانصافی ہے ، سپریم کورٹ کے Bail,not Jail (ضمانت، جیل نہیں) اور ’ذاتی آزادی مقدم‘ کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے ۔ ریپبلک ٹی وی کے ارنب گوسوامی کو اسی لیے تو ضمانت ملی تھی کہ شخصی آزادی کو سپریم کورٹ نے مقدم قرار دیا تھا۔۔۔ تو یہ سب اصول آرین خان کے معاملے میں کیوں دریا برد کردیے گئے ہیں ؟ کیا اس سوال کا جواب کبھی ملے گا ؟ یقیناً نہیں ملے گا کیونکہ یہاں توصرف ایک مشن ہے آرین کو پھنسا کر شاہ رخ خان کو پھنسانا۔۔۔ اور اس کے بعد تو بہت سارے اور خان ہیں ہی ، یوپی کے اسمبلی الیکشن تک فرقہ پرستی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کا ایک سنہرا موقع تو مل ہی جائےگا ، لوگ آرین اور شاہ رخ خان کے چکر میں گھن چکر بنے رہیں گے ، بڑھتی مہنگائی اور سماجی مسائل ان کے ذہنوں سے نکل جائیں گے ۔

Comments are closed.