Baseerat Online News Portal

آزادی کی تحریکوں میں معلم کاکردار؟

عبدالرافع رسول
کوئی قوم تب طاقتور ہوتی ہے جب وہ وقت ضرورت منتشر ہجوم نہیں ،بلکہ مربوط قوت کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ ایک قوم نا قابل شکست قوت جب بنتی ہے جب اسے اپنے کردار کا ادراک ہو ۔ہرمیدان میںکامیابی کی ضمانت کیلئے ہمارے اساتذہ کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا،۔وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہو گا ، نہیں تو اس انقلابی ، آزادی کی تحریک میں اسی طرح خامیاں موجود رہیں گی جو ہمیں اس کے اندر واضح طو ر پر نظرآرہی ہیں۔نسل انسانی کی بہترین پرورش اور ذہن سازی کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ !یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ کسی المیے سے کم نہیںکہ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل استاد بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں اکارت ہوجاتی ہیں تو لوگ تنگ کر، اور اپنے خوابوں کے کیر ئر کو چکنا چور ہو تے دیکھ کر مجبورا ٹیچر بن جاتے ہیں۔
اس طرح استاد بننے والے جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اپنا کام کرتے ہیں ،اتنے ہی منفی خصائل طالب علمو ں میں در آ تے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دے۔ غلامی کی ذلت سے انہیں معلومات بہم پہنچائی جائیں غلامی کی ذلت پر بہت زیادہ مواد موجود ہے ، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد موقع کی مناسبت سے غلامی کی ذلت پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر ان کی ذہن سازی کے لئے سنا سکتے ہیں۔
آزادی کی تحریکوں میں معلم کے کردار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے تحریک آزادی کشمیر جتنا طول پکڑتی چلی جائے گی اتنا ہی اساتذہ کرام کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔کشمیر کے اساتذہ کرام کشمیر کی تحریک آزادی کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے کیسہ ہائے عظمت وعلم میںغلامی کی ذلت اور آزادی کی عظمت کے اسباق کو شامل رکھیں تاکہ قوم کو امتحان پڑا تو گنگ اور ششدردہ جانے سے بچ جائے۔ ہماری طویل جدوجہد آزادی کا تقاضا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نسل ، اگر وہ بھارت کی قتل گاہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی تو،بہادر سپاہی بننے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر، پروفیسر اور انجینئر بھی بنانا ہے ۔ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمنا کے کنارے جب شاہ جہاں تاج محل تعمیر کر رہا تھا تو آکسفورڈ یونیورسٹی میں مستقبل کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی ۔
ہمیں تاجرانہ مزاج کے اعلیٰ الرغم تختہ خاک پر اپنی آزادی کا ایسا عمل تعمیر کرنا ہے کہ دشمن جسے دیکھ کر کف افسوس ملتا رہے ۔ازمنہ رفتہ سے لے کر آج کے اس ترقی یافتہ دور تک استاد کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے ۔ جدید دوراورسائنیسی ترقی کی بنیاد بھی اسی مناسبت سے درس وتدریس پر استوارہے ۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ پڑھی لکھی قوموں نے عروج کی منازل طے کرلی ہیں۔ بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ساری ترقی کے پیچھے اساتذہ کا بڑا اہم کردار اورعمل دخل رہا ہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر آنے والی نسل کی پرورش کے لیے خالصتاً اساتذہ کے کلیدی کردار کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے انکارنہیںکہ کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ بلاشبہ وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو زندگی میں اچھے استاد میسر آتے ہیں ۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب شخص تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہوتا ہے ۔
زندگی بہترین کتاب اور زمانہ بہترین استاد ہوتا ہے۔زمانے میں انسان آخری سانس تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اسی فلسفے اوراسی پس منظر کے تحت استاد وہی کہلاتاہے جو شاگردوں کی شخصیت سازی میں اپنا حصہ ڈالے۔ ان کی فکری تشکیل اور کردار سازی میں اہم کردار سرانجام دے۔ جو استاد صرف وقت گزارنے کیلئے کلاس میںاونگھتا رہے اور رسماً لیکچر دے کر چلا جائے یا پھر اپنی انرجی کو ٹیوشنیں پڑھانے کے لئے بچا کر رکھ کر پیسے کمانے کی مشین بن جائے وہ صحیح معنوں میں استاد کہلانے کا حقدارنہیں۔ بنیادی طور پر استاد اور تعلیم کا شعبہ ایثار کیش پیشہ ہے۔ یہ ایک مقدس پیشہ ہے اس لئے اس شعبے میں صرف ان لوگوں کو آنا چاہئے جن میں بے لوث خدمت کا اور ایثار و قربانی کا جذبہ موجود ہو۔ جس استادنے اپنے شاگرد پر انمٹ نقوش چھوڑے،نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا، اس میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کیا، اوراسے نئی منزلوں سے آشناکیا،اپنی پاکیزہ فکر،صالح کردار اور گہرے مطالعے سے شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کئے! اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں کردار سرانجام دیا اوراسے معرکے سرکرنے کے قابل بنایا۔
قابل،لائق اورذہین وفطین شاگردوں کی سوچ و فکراورشخصیت پرایسے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ غور وفکر کے چراغ جلاکر اپنی شخصیت کا ایکسرے کریں اور اپنے باطن میں گھس جائیں تو آپ کو اپنی شخصیت کے سنوارنے میں کئی اپنے استادوں کے ہی ہاتھ نظر آئیں۔ اچھے طالب علم کی بہت سی عادات، زندگی کے رویئے، بول چال اور روز مرہ کی زبان کے الفاظ و محاورے ایسے ہی استاد سے ورثے میںملتے ہیں ۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ استادمعمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں وہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات میں اساتذہ کی تکریم کا حکم جا بجا ملتا ہے ۔ یہاں تک کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے معلم بنا کر معبوث کیاگیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بحثیت معلم دنیا کے لیے انمول کردار تھا۔دیگر معاشروں اور مذاہب کے مقابلے میں اگر اسلام میں استاد کے مقام کے بارے میں ذکر کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اساتذہ کی تکریم کا اس قدر قائل ہے کہ وہ انہیں روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے ۔ استاد شاگرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کر کے اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا تا ہے۔اسی پس منظرکے تحت مسلمان کئی صدیوں تک علم و سائنس کے استاد رہے ہیں اور دوسری قوموں نے ان سے استفادہ کیا۔اساتذہ علم کے حصول کا براہ راست ذریعہ ہیں، اس لیے ان کے احترام کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔

مجھے فخر ہے کہ میں بھی اساتذہ کی بے لوث رہنمائیوں ، کرم فر مائیوں اور ان کی شفقتوں کا رہیں منت ہوں۔ میرے استاتذہ کرام نے میری راہنمائی کی اور شاہراہ حیات پر انگلی پکڑ کر میری صلاحیتوں کو نکھارا سنوارا۔ان محترمان میں سے سوائے پروفیسرابراہیم کے سب کے سب اپنے درویشانہ جلال و جمال میں یکتاتھے۔ انہی کی محبت وشفقت سے میری زندگی میں لالہ وگل نے جنم لیااورمیرے چمن میں بہارآئی میںزانوئے ادب تہہ کئے بیٹھے ان صبحوں اور شاموں کو آواز دینا چاہتا تھا جو نہ جانے کہاں کھو گئیں، لیکن آج بھی دل کے عطردان میں عود کی طرح سلگتی رہتی ہیں۔میرے یہ سب اساتذہ وفات پاچکے ہیں۔میں گئے زمانے کے کھنڈروں کے بیچ ان کوشب وروز کو حافظے کی شمعیں لے کر تلاش کرتا رہا ہوں، جن کا مجھ پر بڑ ااحسان ہے۔ میں ان پاک نفوس لوگوںسے نگار خانہ دل آباد کرنا چاہتا ہوں جن کی یادوں کی پر چھا ئیاںمیرے چار سو موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بہانے بدلتے موسموں کے رنگ و روپ ، آتی جاتی رتوں کی بو باس اور گئے زمانوں کی بھولی بسری یادیں تازہ ہو تی ہیں۔کبھی ماضی کی دھند میں لپٹے خوشحال چہروں کے خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ کبھی گردپوش بستیوں کے بام و در ابھرنے لگتے ہیں اور کبھی بھر جانے والے پرانے زخم کا کوئی ٹانکا بھی ادھڑ جاتا ہے اور لہو رسنے لگتا ہے۔بہر کیف اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اور ان کے ہم مقام اپنے ان اساتذہ کرام کے لئے خلوص ِ دل سے دست بدعاہوں۔
طالب علم ایک خاندان کا فرد ہی نہیں، بلکہ پوری قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں اساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت ہی اسے عملی زندگی میںنئے نئے راستے دکھا سکتی ہے۔بلاشبہ تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کی اونچی پرواز اور ترقی نے تعلیم جیسے مقدس فریضے کو رفتہ رفتہ ایک مقدس مشن کی بجائے محض کاروبار بنا دیا ہے۔ غریب طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کی سکت نہیں رکھتے، اسی لیے ان کے بچے معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ تاہم یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ آج کے استادکو بھی وہ احترام نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار ہے۔بلاشبہ وہ قوم کا معمار ہے۔
آج ایک طرف استاد ہو اور دوسری طرف ایک پولیس کانسٹیبل تو لوگ خوف سے اس پولیس والے کو سلام کریں گے مگر استاد کونہیں! کشمیر میں نام نہاد الیکشن ہو ،مردم شماری ہو یا خانہ شماری کٹھ پتلی انتظامیہ کی طرف سے ان سب میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگادی جاتی ہے، حتی کہ اب تو سرکاری سطح کے جلسے اور جلوسوں میں خصوصی طور پر حکم نامہ جاری کئے جاتے ہیں کہ ان میں تمام اساتذہ حاضرہوکر نیتائوں کی شان بڑ ھا ئیں ۔حالانکہ یہ اساتذہ کے فرایض منصبی کی بے حرمتی اور بے تعظیمی ہے ۔ان کاموں کے لئے دوسرے بے کار اور بدنام محکموں کے ملازمین کافی ہوتے ہیں۔ استاد کاکام نئی نسل کوتعلیم سے آراستہ کرنا ہے نہ کہ کٹھ پتلی حکمرانوں اور سیاہ کارسیاست کاروں کے جلسے جلوس کی زینت بڑ ھا نا۔ کشمیرمیں اور بھی سرکاری ادارے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ایسے ہر نامراد کام کے لئے حکومت کو صر ف اساتذہ ہی فارغ اور فالتو نظر آتے ہیں !یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے! کیاوجہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے ویران اور کوچنگ سینٹرز آباد رہتے ہیں۔ اساتذہ کی تعلیمی ا داروں سے عدم دلچسپی اور نجی ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز پر بڑی تن دہی اور انہماک سے کام کرتے ہیں توایسے میں قوم مایوسی کی شکارہے۔ نجی اداروں میںوقت کی پابندی کرتے ہیں ۔ اگر یہ سب نجی اداروں یا ان کے مالکان سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کا تقاضا ہے تو پھر سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کے تقاضے کیا ہوئے؟ماضی میں اساتذہ کی تنخواہیں کم تھیں لیکن ان کا احترام بہت زیادہ تھا اب تنخواہوں میں قدرے اضافہ ہو چکا ہے، لیکن احترام میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ رجحان معاشرتی اقدارکے زوال کا عکاس ہے ۔اس زوال کو روکنے کے لیے اساتذہ کو اپنے طرز عمل میںتبدیلی لانی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ آج بھی اپنے طلبا کے آئیڈیل ہیں اوردیگرخطوں کی طرح ریاست جموں وکشمیربھی اپنی بقا اور ترقی کے لیے اساتذہ پر انحصار کرتی ہے۔ اس اعتماد کو بحال رکھنا اور مسابقت کے اس دور میں ثابت قدم رہنا اساتذہ ہی کو زیب دیتا ہے وہ ہمت ہار بیٹھیں تو پوری قوم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جائے گی ۔ہماری کوئی دردمندانہ استدعا،کوئی گذارش ،کوئی اپیل اساتذہ کو ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلا دے تو ہم اسے کار خیرسمجھتے ہیں۔استادکامنصب فرائض سے غفلت، کار منصبی سے کوتاہی اور کام میں تساہل برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔دیکھنایہ ہے کہ آج استاد اور طالب علم کے مابین خلوص اور عقیدت کا رشتہ عنقا کیوں ہو چلا ہے، آج کے اساتذہ کو طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل رہی جو ان کے اساتذہ کو حاصل تھی۔ایک ایسے دور میں طالب علم سے زیادہ ذہین اور زیادہ ذرائع رکھتا ہو، معلم کو خود کو منوانے کیلئے کچھ بڑھ کر کرنا پڑے گا ۔ معاشرہ استاد سے بہت کچھ چاہتا ہے۔اگر معاشرے کو درست کرنا ہے تو ہمیں بنیاد پریعنی استاد کے رول پر توجہ دینی ہو گی ۔ ہمارے اساتذہ کو ٹیم پلیئر اور ٹیم لیڈر کا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہونا ہو گا ۔ استاد کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ روحانی والدین کا لفظ کتابوں میں تو اچھا لگتا ہے مگر وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اب استاد کو اپنا بنیادی کردار نبھانا ہو گا ۔ اگر استاد آج خود کو رول ماڈل کے سانچے میں ڈھال لیں تو طلبا خود بخود پیروکار کے قالب میں ڈھل جائیں گے۔

Comments are closed.