Baseerat Online News Portal

آسام : پولس کا ظلم اورسرکار کا جھوٹ

 

ڈاکٹر سلیم خان

آسام  پولس کی  سفاکیت اور سرکار کی دغابازی پر سوشیل میڈیا میں ہنگامہ برپا ہوگیا ۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی مذمت کی لیکن رِہان شاہ نامی صارف نے سب سے انوکھا ٹویٹ کیا ۔ اس کے پیغام کی سرخی تھی’ بی جے پی کے افغانستان میں یہ سب عام ہے۰۰۰ ‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کے افغانستان میں تو یہ نہیں ہوتا مگر بی جے پی کے افغانستان یا ہندوستان میں یہ کھلے  عام ہوتا  ہے۔  شاہ آگے سوال کرتا ہے:’ہمارے یہاں جب  کتا پاگل ہوجاتا ہے تو اسے گولی مار دیتے ہیں  تاکہ وہ کسی انسان کے لیے خطرہ نہ بنے ۔ ۰۰۰ایسے پترکا(صحافی) بھی انسان کے لیے خطرہ ہیں ۔ ان کا کیا کرنا چاہیے؟‘‘ رِ ہان کا اشارہ بجئے بنیا نامی فوٹو گرافر کی جانب ہے جس کے گلے کیمرے کو دیکھ کر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ نامہ نگار ہے حالانکہ وہ تو سرکاری فوٹو گرافر ہے۔ ویڈیو میں   ایک لاٹھی  برادر آدمی پر پولس  پہلے لاٹھی برساتی ہے اور پھر اس پر قابو پالینے کے بعد گرفتار کرنے کے بجائے  سینے پر گولی مار دیتی ہے۔ اس کے بعد معین  الحق نامی  نوجوان  زمین پر گر جاتا ہے  توبجئے بنیا اس کی چھاتی پر کودنے لگتا ہے۔کسی انسان سے  ایسی  درندگی کا تصور بھی  محال ہے اس لیے  ایسے درندے کا وہی علاج ہے جو رِ ہان شاہ نے تجویز کیا ہے۔

  اس  واقعہ پر کوئی یقین نہیں کرتا  اگر وہ ویڈیو سامنے  نہیں آتی۔ اب لیپا پوتی کے لیے  بجئے بنیا کو پولس نے گرفتار  توکرلیا ہے  اور اس معاملے کی  تفتیش بھی  شروع ہوگئی ہے لیکن اس کا انجام سب جانتے ہیں۔ جج صاحب کو مجبوراً ثبوتوں کی کمی کے سبب اس کو رہا کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ پہلے  ویڈیو کو  ترمیم شدہ قرار دیا جائے گا اوراصلی گواہوں کے بجائے مشکوک جعلی گواہوں کو پیش کیا جائے گا اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا ۔ اس جرم کی شاید ہی کوئی سزا کسی آئین میں موجود  ہو کیونکہ  کسی ماہر  قانون نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کوئی ایسا بھی کرسکتا ہے لیکن اس ظلم و جبر کے لیے بجئے اکیلا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کے دماغ میں نفرت کا زہر بھرنے والے اور اس کو تحفظ فراہم کرنے والے سبھی لوگ  اس جرم عظیم میں برابر کے شریک  ہیں۔ اسی کے ساتھ اس جبر کا جواز فراہم کرنے والی سرکار اور میڈیا  کا بھی قصور کم نہیں ہے کیونکہ ان  کےتعاون سے ہی  ایسی مذموم حرکت کی جاتی ہے۔

بی جے پی کی موجودہ سرکارکی ارتھی  کو  کندھا دینے والے چار لوگوں میں آگے تو  مودی جی اور شاہ جی ہیں  اور پیچھے یوگی جی اور ہیمنتا بسوا سرما ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے انہیں تینوں کو مودی جی کا جانشین  بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ شاہ جی تو خیر فطری  وارث ہیں مگر انڈیا ٹوڈے کا سروے یوگی کو شاہ کے آگے لے جاتا ہے اور پونیہ پرسون واجپائی سوال کرتے ہیں کہ ہیمنتا کو پی ایم میٹیریل مانا جائے یا برخواست کیا جائے؟ پونیہ پر سون اس لیے یہ سوال کرتے ہیں کہ انہیں گودھرا کے مودی اور دارنگ کے سرما میں کوئی خاص فرق نہیں دکھائی دیتا۔ مودی جی کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی گجرات کے مسلم  کش فساد پر  معافی تو دور افسوس کا اظہار  بھی نہیں کیا۔ یہی حال سرما کا ہے ۔ اس کو ڈنڈا لے کر دوڑتا معین نظر آتا ہے مگر گولی چلاتے پولس اہلکار دکھائی نہیں دیتے۔         اس کو معین الحق کی جان جانے کا دکھ نہیں ہے لیکن پولس والوں کے زخمی ہونے پر افسوس ہے۔ وہ چار مساجد کو بنوانے کی بات نہیں کرتا مگر مندر کی تعمیر کا وعدہ کرتا ہے۔  سرما بالکل مودی اور یوگی کے قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے ۔

آسام کے وزیر اعلیٰ سوال کرتے ہیں کہ تشدد کس نے بھڑکایا؟ لوگ تو اپنی جگہ خالی کررہے تھے تو اچانک پولس پر حملہ کیوں ہوا؟  اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہیمنتا  بسوا سرما نے خود وعدہ کیا تھا کہ  ہٹائے جانے والے جو لوگ اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کردیں گے وہ ان کی باز آباد کاری کے لیے 6 بیگھا زمین ان کو دیں گے۔ جن لوگوں کو ہٹایا گیا وہ برسوں سے وہاں آباد تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے مقامی لوگوں سے زمین خریدی تھی۔ اس کے کاغذات ان کے پاس تھے ۔ ان  سب  nyبڑی محنت سے اپنا نام این آر سی میں شامل کرایا تھا اس لیےوہ پر امید تھے کہ حکومت اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے متبادل زمین دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر پہلے سے ان کے لیے مکان بنائے جاتے اور حسبِ  وعدہ  زمین دے دی جاتی تو یہ تشدد نہیں ہوتا، چونکہ سرکار نے انہیں کھلے آسمان کے نیچے بے یارو مددگار چھوڑ دیا اس لیے غصہ پھوٹ پڑا۔  اب پی ایف آئی وغیرہ کا شور کرنا بے معنیٰ ہے۔ بسوا شرما اگر کہتے ہیں وہ  باہری لوگ تھےاس لیے زمین نہیں دی گئی تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوسرے دن شہید ہونے والا 12؍ سالہ نوخیز شیخ فرید پوسٹ آفس سے اپنا آدھار کارڈ لے کر آرہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستانی شہری نہیں تھا تو اس کو آدھار کارڈ کیسے ملا ؟ اس سوال کا جواب سرما کو دینا ہوگا۔

آسام کے اندر علٰحٰیدگی  کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کو دبانے کی خاطر آسامی اور بنگالی کا جھگڑا کھڑا کیا جاتا ہے۔  اسی علٰحیدگی پسندی کے سبب پچھلے ماہ 26 ؍ اگست کو  ڈیما ہساو میں دیماسا نیشنل لبریشن آرمی کے لوگوں نے دیومبرا کے علاقے میں سات لاریوں کے ساتھ پانچ ڈرائیورس  کو زندہ جلا دیا۔   پچھلے چند سالوں میں اس علاقے کی دو اہم تنظیمیں دیما حالم دوگاہ اور اس  کا جوئل گروہ نے ہتھیار ڈال چکا ہے مگر اب  2019 میں  ڈی این ایل اے متحرک ہوگئی  اور اس نے حفاظتی دستوں کے ذریعہ مارے جانے والے اپنے 7 لوگوں کا انتقام لینے کی خاطر یہ حملہ کیا تھا۔ مذکورہ حملے سے قبل میزورم کی سرحد پر آسام پولس پانچ اہلکاروں اور ایک شہری کو میزو جنگجووں نے ماردیا۔ ان تمام مواقع پر ہیمنتا بسوا سرما چوہا بنے رہے لیکن اب غریب بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف پولس فورس کی مدد سے شیر بن گئے ہیں ۔

1991 دماسا نیشنل سیکیورٹی فورس نے دماسا راج قائم کرنے عزم کیا مگر 1995 میں ہتھیار ڈال دیئےجوئل کی قیادت میں ایک گروہ الگ ہوگیا ۔ 2009 میں ان کے رہنما گورسالا گرفتار ہوگیا اور 2012 میں جنگ بندی پر دستخط کردیئے۔ اس پر 2017 میں این آئی اے نے 2006 سے  2009 کے درمیان سرکاری وسائل جنگجو لوگوں کو دینے کا الزام لگایا۔ڈی این ایل اے کا مقصد دیماسا لوگوں کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنا اورعظیم  دیماسا سلطنت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے عوام کے اندر یقین و اعتماد پیدا کرنا ہے۔   آسام کا سب قدیم حکمراں  قبیلہ دیما ہے جو دیما ہساو، کربی آنگلانگ، کچھار، ناگاوں  اور ہوجائی میں آباد ہیں ۔اس نے 13ویں اور 16 ویں صدی کے دوران جنوبی آسام پر حکومت تھی۔ یہی اپنے آپ کو    برہمپترا کی وادی کا اصلی باشندہ سمجھتے ہیں۔  اس کو ناگا لینڈ کی تنظیم  این ایس سی این (آئی ایم ) سےمدد ملتی ہے۔1960 میں ان لوگوں نے پہلی باراپنا الگ صوبہ مانگا تھا۔1990 کی دہائی میں یہ علٰحیدگی پسندی اپنے عروج پر پہنچی ، فی الحال وہاں آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت خود مختاد کچھار ہلس  اور کربی آنگ لانگ نامی دو کونسلس ہیں لیکن قبائلیوں کی خاطر خود مختار صوبے  کا وعدہ کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔ 

حکومت کا دعویٰ ہے کہ آسام کے اندر  2016 سے اب تک  3,439  جنگجو ہتھیار ڈال چکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زیادہ  جنگجو موجود تھے۔ان کے اندر  بڑی تعداد میں  بوڈو جنگجو تھے۔  یہ لوگ تو خیر آسام کے اندر محدود  خودمختاری یا الگ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر اُلفا (آئی)   کو آسام کے ہندوستان کے ساتھ الحاق   پر اعتراض ہے کیونکہ اس کے مطابق آسام انگریزی سامراج کا حصہ کبھی  نہیں تھا۔  ان کے مطابق  ایسٹ انڈیا کمپنی  اور برما کے درمیان فروری   24, 1826کو   جو ینادابو معاہدہ ہوا تھا اس کی دوسری شق میں آسام کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا اور اسے منتقل نہیں کیا گیا۔  الفا(آئی)  اس معاہدے کی روشنی میں حکومت ہند سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔   حکومت ہند  آئین کے دائرے میں  گفتگو کی خواہشمند ہے جبکہ الفا کا کہنا ہے کہ اس گفتگو  کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔  ان باتوں کا حالیہ تشدد سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے لیکن ان چیزوں کو دبانے خاطر بنگلا دیشی مسلمانوں کا ہواّ کھڑا  کیا گیا ہے تاکہ سارے اختلافات ثانوی درجہ میں پہنچ جائیں ۔ ویسے دریا کے کنارے بسنے والوں کا مسئلہ فی الحال ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے حکومت کا اس پر کارروائی کرنا غیر قانونی ہے اور مقامی وکلاء سپریم کورٹ جانے کی تیاری کررہے ہیں ۔ اس کا سب سے خراب پہلو یہ ہے حکومت نہ تو ان بے یارو مددگار لوگوں کی باز آبادکاری  کے لیے سنجیدہ ہے اور نہ انہیں فوری امداد دے رہی ہے۔ اسی کے ساتھ یوڈی ایف اور کانگریس کو بھی مدد کرنے سے روک رہی ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کے اقوام متحدہ میں بلند باگ دعویٰ بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ۔

 

 

  

Comments are closed.