Baseerat Online News Portal

آسام کی مظلوم عوام۔۔۔۔بھگوا پولیس اور بھگوا وزیراعلی کے ہاتھوں انسانیت نیلام

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، صدر رابطہ خیرامت، انڈیا
[email protected]
بھلا وہ انسانیت کا سچا خادم، عوام کا ہمدرد، قوم کا مخلص محافظ، ملک کا صحیح نگہباں، اقتدار کی کرسی کا حقیقی مستحق اور میڈیا و صحافت کی ذمہ داری کا پکا حامل کیسے ہو سکتا ہے!؟ جو اپنی ہی عوام کو انکی بعض مجبوریوں اور معمولی غلطیوں کیوجہ سے گولیوں سے بھون دینے کا آڈر نافذ کردے! ان کے گھروں کو زبردستی اس لئے اجاڑ دینے کا حکم دے دے! کہ وہ سرکاری زمین پر قابض ہیں اور زمانہ دراز سے رہنے کے باوجود بھی سرکار انہیں کوئی معقول بدل اور جگہ نہ فراہم کرے کہ وہ مسلمان ہیں!گھر کو اجاڑنے کے خلاف اگر گھر والا پرامن مظاہرہ کرے تو انکو تاک تاک کر بندوقوں کی نوک سے اس طرح لہو لہان کردے کہ انکی جان تک باقی نہ بچے، مرتے وقت بھی رحم و کرم کا کوئی سلوک و برتاؤ نہ کرے حتی کہ بے بس انسان کو آخری دم تک لاٹھیوں سے خوب زدوکوب کرے! نہایت ہی کم ظرفی کی بات ہے کہ جانکنی کے عالم میں بھی اپنے جوتوں سے مقتول و مظلوم کے سینہ پر اس طرح کود پھلانگ کرکے چوٹ پرچوٹ پہونچائے کہ وہ زندہ بھی نہ بچ پائے!! انکے مدرسوں اور مسجدوں تک کو شہید کرڈالے، مفلوک الحال لوگوں کو آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کردے!! کیا یہی ایک سچے پکے خادم اور ملک و صوبہ کے منتخب حاکم و محافظ کا کردار باقی رہ گیا ہے کہ ان کے اندر سے انسانیت نام کی تمام چیزیں مفقود ہوگئی ہیں؟؟ اللہ کی پناہ۔
چندروزقبل آسام کے ضلع دارنگ میں ایسٹ بنگالی مسلم اکثریتی والا علاقہ دھول پور کے گوروکھوتی محلے میں مقامی لوگوں کے ساتھ بھگوا پولیس نے مظالم کی جو داستان رقم کی ہے! اس سے انسان تو درکنارایک جانور بھی سن کر اورسوشل میڈیا پروائرل ویڈیو کو دیکھ کر شرما جائے!!جو اپنے بچوں پراپنا پیراس لیے نہیں رکھنا چاہتا کہ کہیں وہ مر نہ جائے! مگر ایک عقلمند اور باشعور انسان پر آج بہت افسوس ہورہاہے کہ وہ جانوروں کی سطح سے بھی نیچے گرچکاہے!اپنی صلاحیت اور قابلیت کو جہاں صرف کرناچاھئے وہ وہاں نہ کہ برابرخرچ کررہا ہے،تاکہ جس سے ملک کی عوام کو ملی وسماجی، تعلیمی و تربیتی اور انسانی و اجتماعی ترقی ملے، معاشی و اقتصادی کشادگیاں پیدا ہوسکے، وباؤں اور بلاؤں کا خاتمہ ہوسکے، مریضوں کو شفا حاصل ہوسکے، مہنگایاں دور ہو، روزگاری کے وسائل و ذرائع کی راہیں سب کے لئے ہموار ہو!! اس کے لئے توموجودہ گورنمنٹ کوبھی صحیح طور پر سوچنے اور پالیسی اختیار کرنے کی فرصت نہیں مل رہی ہے! انکا مشغلہ بھی تو بس ہندومسلم بھید بھاؤ، نفرت و عداوت اور ذات پات میں الجھے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں بچ گیا ہے!!ملک اپنی تعلیمی واقتصادی پسماندگی کا ہر ایک سے شکوہ بیان کررہا ہے مگر ہم ہیں کہ ذات پات اور ہندومسلم میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں!!نہایت ہی افسوس کا مقام ہے!!
آسام اور دیگر جگہوں اور جہاں جہاں بھی دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں ملک مخالف،دستور مخالف اور جمہور مخالف کام ہورہے ہیں، ان سے ہمارا ملک روزبروز کمزور ہورہا ہے، اگر اس پر قدغن نہ لگا تواسکے نتائج بہت افسوسناک صورتحال تک پہونچ سکتے ہیں! اپنے ہی بے بس اور نہتھے ہندوستانی عوام کی بستی کو اجاڑنے کی بھگوا پولیس کی مہم کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے والوں پر جس طرح اندھادھند گولیوں کی بارش کی گئی اور گوڈی میڈیا پرسن کے ذریعے 33 سالہ معین الحق کے تڑپتے جسم اور سینہ پر چھلانگ لگائی گئی اور ناپاک پیروں اور ہاتھوں سے انکی لاش کو جس بے دردی اور بے رحمی والی ظالمانہ حرکت کی گئی ہے، اس سے پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی بے حرمتی والی حرکت کرنے والوں کو کھلے عام پھانسی کی سزا ملنی چاھئے!! جنکا بھی عمل انسانیت کیساتھ جانوروں سے زیادہ بدتر ہو انکا یہی حشر اور انجام ہونا چاھئے۔ عوام کے سامنے انہیں پھانسی اور سرعام قتل کی سزا ملنی چاہئے۔ تبھی انصاف کا بول بولا ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ورنہ زبانی الفاظ سے واقعے اور حادثے کی مذمت پانی کے بلبلے کی مانند ہی سمجھا جائے گا۔ جسکی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور ظلم وبربریت کا یہ طویل سلسلہ صرف زبانی منہ خرچ سے بند ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے لئے حکومت، انتظامیہ اور عدالت کو فورا ٹھوس اقدامات کرنا چاھئے۔۔۔ ورنہ حکومت اور عدالت کو بھی مسلمانوں کے خلاف ظلم و بربریت اور قتل و غارتگری کا ساجھی اور معاون تصور کیا جائے گا۔
ہزاروں مسلمانوں کی تڑپتی لاشوں اور انکی منہ بولتی تصویر کا یہی مطالبہ ہے۔ جمہوری دستور وآئین کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ ہندو مسلم کیساتھ برابری کا برتاؤ کیا جائے، انکی آزادی، انکی جان ومال، انکی عزت و ناموس، انکی زندگی و موت اور انکی لاشوں کو ایسے انسانی درندے کے حوالے ہرگز نہ کیا جائے کہ جو چاھے جسطرح چیلوں اور کتوں جیسا سلوک کرنے لگے؟! ایک ہندو انسان کے ناحق قتل پر اتنا بڑا واویلا مچایا جاسکتا ہے کہ پورا میڈیا اور عملہ اس واقعہ پر اپنی پوری توانائی صرف کرتے ہوئے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے کہ فورا واقعے کی اعلی تفتیش اور فوری اقدامات کا حکم صادر کردیا جاتا ہے اور اسکی روک تھام کے تمام انتظامات مضبوط و مستحکم کرلئے جاتے ہیں۔ آخر وہیں ہزاروں مسلمان کا ناحق قتل و خون انکے نزدیک پانی کے برابر کیوں ہے؟ جس پر نہ کوئی واویلا مچتا ہے اور نہ کوئی ٹھوس اقدامات!! روک تھام کو بہت دور کی بات ہے بلکہ الٹے الزامات و اتہامات مقتولین و مظلومین پر ہی عائد کردیے جاتے ہیں؟ جس کے لئے حکومت، انتظامہ اور عدالت برابر کے ذمہ دار ہیں؟ آخر مسلمانون کا ہی خون اتنا ارزاں کیوں بن گیاہے؟ کہ جب چاھے جو چاھے جہاں چاھے انہیں قتل کردے اور ظالم وقاتل آزاد گھومتا پھرے!؟ زبانی الفاظ اور چند جملوں کی ادائیگی پر معاملہ کو کب تک رفع دفع کیا جاتا رہے گا؟ اور قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ کب تک دراز ہوتا رہے گا؟
33 سالہ معین الحق کیساتھ جو واقعہ پیش آیا۔ پولیس نے بربریت کا جو سلوک کیا ستم بالائے ستم یہ کہ ظالم و متعصب کیمرہ مین نے جانکنی کے عالم میں انکے تڑپتے جسم کیساتھ جس بے دردی اور بے رحمی کا برتاؤ کیا۔ اس واقعے کی جتنی بھی شناعت کی جائے وہ بہت کم ہے، شاید کہ اس دردناک اور افسوسناک داستانِ مظالم کی تصویر کشی کرنے کے لئے الفاظ و تعابیر بھی تنگ پڑجائیں۔ راقم الحروف کے پاس تو اس واقعہ کی مذمت کیلئے الفاظ تنگ ہیں۔
بھگوا پولیس نے بھگوا وزیر اعلی ہیمنت بسواس شرما کے اشاروں پر ہی بے بس مسلمانوں کے خلاف یہ انسانیت سوز ظلم اور انتہا پسندی کی کہانی رقم کی ہے۔ جس میں تین افراد پولیس کی اندھادھند گولیوں سے شہید اور دسیوں شدید طور پر زخمی ہوگئے ہیں، جبکہ اس وحشیانہ کارروائی میں ہزاروں لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، کئی مسجد و مدرسہ کو شہید کروادیا گیا۔ متعدد گھروں کو مسمار کردیا گیا ہے۔
غرض کہ انسانوں کی آبادی کو ظالموں نے جسطرح ویران و کھنڈرات میں بدلنے کی کوشش کی ہے، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ مسلمانوں کے تئیں مخلص نہیں ہے!! بھگوا گروپ انہیں اس ملک کا حقیقی باشندہ تک نہیں سمجھتے ہیں، اور انہیں ہر میدان سے بے دخل کرکے رکھ دینا چاھتے ہیں، اسی لئے وہ ہر جگہ مسلمانوں کیساتھ جانوروں جیسا سلوک و برتاؤ اختیار کررہے ہیں۔ دہلی، گجرات اور آسام جہاں کا بھی دردناک واقعہ ہو وہ اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب ملک پر انسانوں کا نہیں بلکہ حیوانوں کا راج ہے۔ جو اپنے ہی عوام کیساتھ ظلم و بربریت کا ایسا سلسلہ قائم رکھے جسے بہرحال بند ہوجانا چاھئے۔ بھگوا پولیس اور تمام مسلم مخالف عناصر کو اپنا ظالمانہ رویہ بالکل بدل دینا چاھئے۔ ورنہ اسکے نتائج جمہوری ملک کیلئے بہت خطرناک ثابت ہونگے۔ ملک درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ ملک میں انسانیت کا راج نہیں۔ ظلم وبربریت کا راج ہوجائیگا۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کہلائے گا!!وغیرہ وغیرہ۔

Comments are closed.