Baseerat Online News Portal

آپریشن لوٹس

 

عبدالرحمان صدیقی

(ایکزیکٹیو ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

مہاراشٹر میں گزشتہ ۱۰ دنوں سے جاری سیاسی ڈرامہ ڈراپ سین ہوگیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی مہاوکاس اگھاڑی حکومت نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب حیرت انگیز طور پر فڈنویس کی جگہ شیوسینا کے باغی لیڈر ایک ناتھ شندے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ہوں گے جس کا اعلان خود سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کردیا ہے۔ گورنر کوشیاری جنہوں نے آج سے ڈھائی سے قبل علی الصبح یا رات کے آخری پہر میں دیویندر فڈنویس کو وزیراعلیٰ اور اجیت پوار کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف دلایا تھا لیکن جب یہ حکومت نہیں چل سکی تو ادھو ٹھاکرے کو حلف دلایا، اب ایک مرتبہ پھر بازی پلٹ گئی ہے ایک ناتھ شندے کو حلف دلایاجارہا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ بی جے پی کی حمایت اور سرپرستی میں بننے والی شندے کی حکومت کو اگر کوئی بہت بڑی قانونی پیچیدگی اور سیاسی بحران سامنے نہیں آیا تو یہ باقی مدت پوری کرے گی۔اس کے ساتھ ہی تری پورہ، مدھیہ پردیش اور کرناٹک کے بعد آپریشن لوٹس کا ایک او رمرحلہ مکمل ہوا، آپریشن لوٹس یعنی جن ریاستوں میں سرکاری غیر سرکاری ساری طاقت جھونک دینے او رہرطرح کا حربہ اور ہتکھنڈہ اپنانے کے بعد بھی بی جے پی او راس کے حلیفوں کو اقتدار نہ ملے وہاں ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت اور انفورسمنٹ ڈائیکوریٹ ، سی بی آئی پھر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ ڈرا دھمکا کر انہیں وفاداری پر مجبور کیاجائے گا، اور غیر بی جے پی حکومت کا تختہ پلٹ کر وہاں بی جے پی یا این ڈی اے کی حکومت قائم کردی جائے اب تک صرف راجستھان میں یہ تجربہ ناکام ہوا ہے ورنہ ہرجگہ بی جے پی نے مرکزی ایجنسیوں کے تعاون سے اپنی جیت درج کرائی ہے۔

حکمراں جماعتوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کو ہراساں کیے جانے اور مرکز میں برسراقتدار حکمراں ٹولہ کے ذریعہ اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور گورنر کے ذریعہ ریاست میں صدر راج نافذ کرنے اور مرکز میں حکمراں ٹولہ کی پسندیدہ حکومت مسلط کرنے کا سلسلہ بہت پرانا اور یہ ہر دور میں ہوا، گورنروں کو مرکز میں برسراقتدار ٹولہ کے ایجنٹ کی حیثیت سے استعمال کرنے اور اپوزیشن کی حکومت کو غیر مستحکم کیے جانے کی روایت بہت پرانی ہے، مرکزی حکومتوں کو اس کےلیے نکتہ چینیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن ۲۰۱۴ سے جس طرح ملک میں صرف ایک پارٹی کی مرکز اور ملک کی تمام ریاستوں میں حکومت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، او رمرکزی ایجنسیوں کو اپوزیشن کو ڈرامنے دھمکانے کے لیے استعمال کیاجارہا ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی حکومت کسی بھی صورت میں اپوزیشن کو برداشت کرنے کےلیے تیار نہیں ہے۔

مہاراشٹر میں ۲۰۱۹ کے چنائو میں جب شیوسینا نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ نہ ملنے پر بی جے پی کے ساتھ اپنا اتحاد توڑ دیا تو دیویندر فڈنویس مرکزی حکومت، گورنر ریاست او راجیت پوار سے سانٹھ گانٹھ کرکے وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف لے لیا او راجیت پوار کو نائب وزیراعلیٰ بنایا لیکن بہت جلد انہیں حکومت چھوڑنی پڑی، اور شیوسینا نے این سی پی اورکانگریس کے ساتھ مل کر مہاوکاس اگھاڑی حکومت بنائی، حکومت بن تو گئی لیکن مودی امیت شاہ کی نگاہوں میں یہ کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی اور دیویندر فڈنویس کے اندر دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کی خواہش اس بری طرح مچل رہی تھی کہ وہ دن رات اس حکومت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے بالآخر انہیں کامیابی مل گئی لیکن انہوں نے کسی عظیم سیاسی مقاصد کے پیش نظر ایک ناتھ شندے کو وزارت اعلیٰ دے دی۔ ادھو ٹھاکرے کی حکومت کو بہت معیاری یا مثالی حکومت نہیں تھی لیکن اس کا اس لیے خیر مقدم کیاگیا تھا کیوں کہ شیوسینا نے اپنے ماضی کے برعکس اقلیتوں سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپنائی تھی اس کے علاوہ کورونا وبا کے دوران ادھو حکومت نے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ادھو ٹھاکرے اور ان کی قیادت والی بچی کھچی شیوسینا کا مستقبل فی الحال غیر یقینی نظر آرہا ہے، لیکن اپوزیشن کو کسی بھی حال میں برداشت نہ کرنے کی جو پالیسی سامنے آئی ہے، اور جس ڈھٹائی سے مخالفین کو نیچا دکھانے کےلیے مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کیاجارہا ہے وہ رجحان جمہوریت کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔

Comments are closed.