Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

ایک ہی مسجد میں تراویح کی متعدد جماعتیں
سوال:- ایک مشہور مسجد میں تین علیحدہ علیحدہ وقتوں میں نمازِ تراویح کا اہتمام کیا گیا ہے ، بعد عشاء سوا پارہ ، مسجد کے بالائی حصہ میں آٹھ بج کر ۱۵؍ منٹ پر روزانہ تین پارے، مسجد کے نچلے حصہ میں دس بج کر چالیس منٹ سے روزانہ سوا پارہ ، کیا یہ درست ہے ؟( جواد احمد، مانصاحب ٹینک)
جواب:- جیسے فرض نمازوں میں تکرار جماعت مکروہ ہے، اسی طرح فقہاء نے نمازِ تراویح میں بھی مکرر جماعت کو منع فرمایا ہے : و لو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ (ہندیہ :۱؍۱۱۶) ؛ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے ،مسجد میں ایک ہی جماعت کی جائے ،باقی جماعتیں مسجد سے باہر گھر میں یا کسی اور مقام پر کی جاسکتی ہیں ۔

جس کی آمدنی مشکوک ہو ، اس کی دعوتِ افطار
سوال:- رمضان المبارک میں ثواب کی نیت سے اکثر افطار ، یا کھانے کی دعوت روزہ داروں کو دی جاتی ہے ، بعض مرتبہ میزبان کی کمائی ، یا تو دو نمبر کی ہوتی ہے ، یا کم سے کم مشکوک ہوتی ہے ، اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو دل شکنی اور کدورت کا اندیشہ ہے ، ایسی صورت میں حکم شرعی کیا ہے ؟ ( سرفراز احمد، پرانی حویلی)
جواب:- اگر کسی مسلمان کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا ذریعۂ آمدنی حلال ہے ، یا حرام ؟ تو بحیثیتِ مسلمان اس کے بارے میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے دعوت قبول کرنی چاہئے ، اگر اس کی آمدنی ناجائز ہو ،یا آمدنی کا غالب حصہ ناجائز ہو، تو اس کی دعوت قبول کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس کی تذلیل کے درپے ہوئے بغیر تنہائی میں اسے دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ سمجھادینی چاہئے ، تاکہ اسے عبرت ہو، اگر وقتی طور پر اسے ناگواربھی گزرے تو آئندہ انشاء اللہ وہ آپ کی مجبوری کو سمجھنے پر مجبور ہوگا ، اگر اس کی آمدنی کا غالب حصہ حرام و ناجائز ہو ، لیکن جس پیسے سے دعوت کر رہا ہے ، معلوم ہے کہ خاص وہ پیسہ حلال ذریعہ سے حاصل شدہ ہے تو اس دعوت میں ایسے لوگ شریک ہوسکتے ہیں جو ’’ مقتدیٰ ‘‘ کا درجہ نہ رکھتے ہوں ، علماء اور خواص کو ایسی دعوتوں سے بھی گریز کرنا چاہئے ، فقہ کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ یہ تفصیل موجود ہے(ہندیہ:۵؍۳۴۳)البتہ بلاوجہ کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی بھی درست نہیں اور اگر درست طریقہ پر معلوم ہو ، تو اُلجھاؤ پیدا کئے بغیر تساہل بھی درست نہیں ، تاکہ معاشرہ میں ایسے لوگوں کو عبرت ہو اور وہ اس سے بچنے کا اہتمام کریں ۔

روزہ اور جسمانی نقاہت
سوال:-کسی شخص کی روزہ رکھنے کی نیت ہے ، لیکن اپنی جسمانی کمزوری جیسے نقاہت وغیرہ کی وجہ سے عاجز ہے ،اور سمجھتا ہے کہ روزہ رکھوں گا تو پورے نہ کر سکوں گا ، ایسی صورت میں اسے کیاکرنا چاہئے ؟ (شاہ جہاں، ملے پلی)
جواب:- اگر واقعی کوئی شخص اتنا کمزور ہوکہ روزہ نہیں رکھ سکتا اور یہ اس کی عارضی بیماری ہو تواسے وقتی طورپر روزہ نہیں رکھنے اور بعد میں روزہ قضا کر لینے کی گنجائش ہے ،لیکن یہ عجز محض وہم کے درجہ کانہ ہو بلکہ یہ کسی معتبر مسلمان ڈاکٹرکی رائے کی روشنی میں ہو ،یا کم سے کم خود روزہ رکھ کر دیکھے اگر تجربہ سے ثابت ہو کہ واقعی وہ روزہ پورا نہیں کر سکتا تو پھر اس کے لئے آئندہ دنوں میں روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہوسکتی ہے ۔

خروج ریح کے مریض کا اعتکاف کرنا
سوال:-اگر کسی شخص کو گیسٹک کی بیماری ہو اور باربار خروج ریح کی نوبت آتی ہو تو کیا ایسے شخص کو اعتکاف کرنا چاہئے ، یا اس کا اعتکاف کرنا جائز نہیں؟ ( محمد حسنین، راجمندری)
جواب:- اگر کوئی دوسرا شخص اعتکاف کر رہا ہو ، تو خیال ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا اعتکاف میں نہ بیٹھنا بہتر ہے ، کیونکہ اعتکاف سنت کفایہ ہے ، یعنی اگر ایک شخص نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب لوگ ترک سنت کے گناہ سے بچ جائیں گے ، اور ایسے شخص کے اعتکاف کرنے میںبظاہر مسجد کی بے احترامی معلوم ہوتی ہے ، اور اس سے اجتناب زیادہ اہم ہے ، ویسے یہ اس حقیر کی ذاتی رائے ہے ، دوسرے اہل علم سے بھی دریافت کر لیا جائے ۔

مطلقہ بہن کو زکوۃ
سوال:- ایک مطلقہ بہن اپنی دو لڑکیوں سمیت جو کہ کمسن ہیں، بھائی کے پاس ہے اور بھائی دونوں بچیوں کی تعلیم سے لے کر ہر چھوٹی بڑی خوشی کا خیال رکھتا ہے ، اگر بھائی پر زکوۃ لازم ہوتو کیا وہ اس بہن کو دے سکتا ہے ؟ (محمد اعوان الحق، سدی پیٹ)
جواب:- مطلقہ بیوہ اور ان کی بچیوں کی کفالت و پرورش نہایت ہی مستحسن اور مبارک عمل ہے ، اگر بہن نصاب زکوۃ کی مالک نہیں ہیں، تو بھائی اسے زکوۃ کی رقم دے سکتا ہے ، بلکہ اس کو زکوۃ دینے میں دوہرا اجر ہے ، زکوۃ ادا کرنے کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی : و لا إلی من بینھما ولاد ( الدر المختار ) و قید بالولاد لجواز بقیۃ الأقارب کالأخوۃ و الاعمام و الأخوات الفقراء ، بل ھم أولیٰ ؛ لأنہ صلۃ و صدقۃ ‘‘ ( رد المحتار : ۳/۲۹۳)

مزدور پیشہ لوگوں کے لئے اعتکاف کی صورت
سوال:- میں رمضان المبارک میں اعتکاف کرنا چاہتا ہوں ؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ میں کاریگر ہوں اور وہی ہمارے معاش کا ذریعہ ہے ، کام کرتا ہوں تو ضروریات پوری ہوتی ہیں ، ایسی صورت میں میرے لئے اعتکاف کرنے کا کوئی راستہ ہے ؟ ( ایاز احمد، بنجارہ ہلز)
جواب:- آپ کو چاہئے کہ اعتکاف کی نیت کرتے وقت یہ شرط لگائیں کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک میں اپنے کار خانہ میں کام کرنے کے لئے جایا کروں گا ، اگر آپ نے پہلے سے یہ شرط لگادی تو آپ کا یہ فعل اور وقت اعتکاف سے مستثنی ہوگا ، چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر اعتکاف کی نذر ماننے کے وقت ہی شرط لگادے کہ مثلا وہ مریض کی عیادت ، نماز جنازہ اورعلمی مجلس میں حاضر ہونے کے لئے نکلے گا تو ایسا کرنا جائز ہے : لو شرط وقت النذر أن یخرج جاز ذالک(درمختار مع الرد:۳؍۴۳۹)علامہ شامیؒ نے اس اصول پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کے لئے جن چیزوں کے واقع ہونے کا غالب گمان ہو جیسے : پیشاب ، پائخانہ وغیرہ ، یہ تو اعتکاف سے ویسے ہی مستثنی ہوں گے ، چاہے شرط نہ لگائی گئی ہو اور جو چیزیں اس نوع کی نہیں ہوں ، وہ شرط لگانے کی صورت میں مستثنی سمجھیں جائیں گی : ومالا فلا إلا إذا شرط (درمختار:۳؍۴۳۹)

مقدار نصاب سے زیادہ زکوۃ
سوال:- فقیر ومحتاج شخص کو مقدار نصاب زکوۃ دینے کو علماء مکروہ قرار دیتے ہیں ؛ لیکن بعض دفعہ مستحق زکوۃ کثیر العیال ہوتا ہے اور آج کل چاندی کے نصاب کے لحاظ سے نصاب کی قیمت بہت کم ہو جاتی ہے ، اگر اتنی کم رقم اسے دی جائے تو اس کی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی ؟ ( ذو القرنین، سلطان شاہی)
جواب:- فقہاء نے جہاں ایک شخص کو نصاب کی مقدار زکوۃ دینے کو مکروہ قرار دیا ہے ، وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر مقروض ہو یا اس کا کنبہ بڑا ہو کہ کنبہ کے تمام افراد پر اگر رقم تقسیم کر دی جائے تو فی کس مقدار نصاب سے کم رقم پڑتی ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں :وکرہ إعطاء فقیر نصابا إلا إذا کان مدیونا ٔوصاحب عیال لوفرقہ علیھم لایخص کلا نصاب (ردالمحتار:۳؍۳۰۳)اس طرح ایسے ضرورت مند شخص کے لئے کئی نصاب ادا کرنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے ۔

جنابت کی حالت میں سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا
سوال :- کیا بیمار پر دم کرنے کے لئے حائضہ عورت اورجس شخص کو غسل کی ضرورت ہو ، وہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرسکتا ہے ؟ ( اجمل حسین، ملک پیٹ)
جواب :- سورۂ فاتحہ پڑھنے کی دو حیثیتیں ہیں ، ایک یہ کہ یہ قرآن مجید کی تلاوت ہے ، دوسرے :اس کی حیثیت دعاء کی بھی ہے ، قاعدہ یہ ہے کہ جس آدمی پر غسل واجب ہو ، وہ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرسکتا ؛ لیکن دعاء کرسکتا ہے ، اس لحاظ سے فقہاء نے اجازت دی ہے کہ بطور دعاء کے جنابت کی حالت میں سورۂ فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے :الجنب إذا قرأ الفاتحۃ علی سبیل الدعاء لا بأس بہ ، و ذکر في غایۃ البیان : أنہ المختار (ہندیہ:۵؍۳۱۷)

خشک نجاست پر تر کپڑے کا بچھا نا
سوال:- پلنگ پر روئی کی تو شک ہوتی ہے ،جس پر ہم میاں بیوی ہم بستر ہوتے ہیں ، تو تھوڑی سی نجاست اس پر بھی گر کر سوکھ جاتی ہے ، تو کیا ہم اسی تو شک پر دوسری چادر بچھا کر سو سکتے ہیں ؟ اور اس تو شک کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہو گا ؟ ( محمد ادریس، ہاشم آباد)
جواب:- جو صورت آپ نے دریافت کی ہے اس میں چاہئے کہ جہاں پر منی کا دھبہ لگا ہوا ہے، اسے کھرچ دیا جائے ، اس سے وہ پاک ہو جاتاہے ، اب جب کہ اس کا اثر ختم ہو گیا تب اس پر بھیگی ہوئی چادربھی ڈال دی تو صحیح یہی ہے کہ اسے پاک سمجھا جائے گا ، تراوٹ کی وجہ سے اس کی ناپاکی عود نہیں کرے گی :ولونفذ المني إلی البطانۃ یکتفی بالفرک ھو الصحیح المنی اذا فرک عن الثوب وذھب أثرہ فأصابہ ماء ، فیہ روایتان : المختار أنہ لا یعود نجسا کذا في الخلاصۃ (ھندیہ:۱؍۴۴)

Comments are closed.