Baseerat Online News Portal

آہ ! ایک دیرینہ شناسا و مخلص دوست چل بسا

نجیب الرحمٰن ململی ندوی۔لکھنؤ
ابھی دس بارہ دن پہلے امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رح کو خراج عقیدت پیش کرنے اور انکی گرانقدر خدمات کو یاد کرنے اور اس سے سیکھ حاصل کرنے کیلئے النور فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لکھنؤ کے ممتاز کالج کے آڈیٹوریم میں ہم نے ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا تھا۔ جسمیں شرکت کیلئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل محمود پراچہ صاحب کو ساتھ لیکر حضرت امیر شریعت سے تعلق اور ناچیز کی محبت میں مفتی اعجاز ارشد صاحب رح خصوصی طور پر دہلی سے لکھنؤ تشریف لائے تھے۔ کیا خبر تھی کہ یہ انکی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔ اور یہ ملاقات اس دار فانی کی آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ دیر رات تک ہم دونوں ہوٹل میں بیٹھکر ذاتی اور ملک و ملت کے حالات پر تبادلۂ خیال کرتے رہے۔مرحوم سے گزشتہ اکیس سالوں سے تعلق اور رابطہ تھا۔ جب بھی میرا دہلی یا انکا لکھنؤ کا سفر ہوتا تو ہم دونوں کی ملاقات کی کوشش رہتی۔ اور مختلف موضوعات پر بات چیت اور مشورے ہوتے۔ مرحوم نہایت ملنسار خوش اخلاق اور ملت کا درد رکھنے والے انسان تھے۔اسی بناء پر حضرت امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحب علیہ الرحمہ ان پر اعتماد کرتے، اور بہت سے ملی کام انکے سپرد کرتے جنہیں وہ بحسن و خوبی ذوق و شوق کے ساتھ انجام دیتے۔17اپریل کو صبح سے ہی اہل تعلق کی موت کی خبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوپہر بارہ بجے معروف سماجی کارکن ہمارے مخلص و مشفق کرم فرما حاجی عبدالرؤف ہاشمی رح کی تجہیز و تدفین سے فارغ ہوکر گھر آیا تو ایک رفیق نے فون پر مفتی صاحب کی علالت کی اطلاع دی۔ فورا فون لگایا لیکن دو بار پوری گھنٹی بجنے کے بعد بھی فون نہ اٹھ سکا۔ پھر انکے قریبی بے تکلف عزیز برادرم بلند شاہ ظفراللہ ندوی کو فون کیا تو انسے بھی تازہ صورتحال کی جانکاری نہ مل سکی۔ اور اسکے تھوڑی دیر ہی کے بعد انکے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر آگئی۔
سن کر ایک زبردست جھٹکا لگا۔ لیکن مشیت ایزدی کے آگے کس کا بس چلتا ہے۔ یقین نہیں آرہا تھا۔ مگر نم آنکھوں کے ساتھ دل سے آہ بھرتے ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون کہنا ہی پڑا۔
موت سے کسکو رستگاری ہے۔آج وہ کل ہماری باری ہے۔
اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائےاور پسماندگان کو صبر جمیل، استقامت اور ہمت و حوصلہ عطاء فرمائے۔

Comments are closed.