Baseerat Online News Portal

آ ہ ترجمان سیرت پروفیسر یاسین مظہر صدیقی رحمۃ اللہ علیہ

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
شعبہ دینیات سنی،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
پروفیسر یاسین مظہر صدیقی علمی وتحقیقی دنیا میں کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ انہوں نے دینیات و اسلامیات کے انتھائی اہم ترین پہلو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخِ اسلام پر اختصاص و اعتبار حاصل کیا تھا۔ آ پ سیرت نبوی پر سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ یوں تو پروفیسر یاسین مرحوم کا جملہ کام سیرت نبوی کے اچھوتے اور جدید گوشوں کو اجاگر کرتا ہے۔ درجنوں کتابیں اور سیکڑوں تحقیقی مقالات سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سےمنصہ شہود پر آ چکے ہیں ۔ آ پ کا یہ تحقیقی سرمایہ رہتی دنیا تک باحثین و محققین کے لئے مشعل کا کام کرے گا ۔ تحقیق و تفتیش کی عمدہ مثال ’’عہد نبوی کا تنظیم ریاست وحکومت‘‘اور ’’مصادر سیرت ‘‘ ہیں ۔بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم کی جملہ مساعی جمیلہ باحثین و محققین کے لئے نعمت عظمی کے مترادف ہیں۔ "عہد نبوی میں تنظیم ریاست وحکومت ” آ پ کا ایک ایسا اہم علمی شاہکار ہے کہ اسے نقوش ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ چنانچہ آ پ کی یہ کتا ب "سیرت کا نقوش نمبر "کے پانچویں حصے میں بھی موجود ہے۔ راقم کا خیال یہ ہیکہ اگر آ پ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے علاوہ کوئی دوسری کتاب تصنیف نہ بھی کرتے تب بھی یہی کتاب آ پ کے علمی وقار و اعزاز کو نمایاں کرنے کے لئے کافی تھی۔ جن حضرات نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس میں سیرت کے ان مباحث و مسائل پر گفتگو کی گئی ہے جو ہمیں متعدد کتابوں کی ورق گردانی کے بعد بمشکل حاصل ہوسکیں گے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ سیرت نبوی کی ضرورت و حاجت ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں کس قدرہے۔اعتقادات،عبادات ،معاملات ، اخلاقیات، سیاسیات غرض زندگی کا کوئی بھی حصہ ،پہلو ہو ہمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ پروفیسر یاسین صاحب کی سیرت طیبہ پر یا دیگر موضوعات پر لکھی گئیں تحریروں کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ قاری ان کو پڑھ کر اپنی زندگی کو سیرت رسول کے سانچے میں ڈھال لے اور اپنے آ پ کو اسلامی تعلیمات سے جوڑ سکیں۔ نیز ہمارا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے ان خطوط و نظریات کی اتباع و اقتداء کریں جن سے دونوں جہان میں سرخ روئی اور سعادت و نیک بختی حاصل ہوسکے۔ در اصل ہماری تمام تر علمی اور دینی فتوحات کا لب لباب بھی یہی ہیکہ نوع انسانیت اپنے مذہب ودین اور تہذیب و ثقافت سے آ شنا ہوکر علم و عمل کا خوبصورت لباس زیب تن کر لے۔ جب ہم یاسین صاحب کی کتابوں یا ان کی علمی وفکری کاوشوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو قاری کے ذہن کی راہ دانیوں میں متعدد گوشے نمودار ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہیکہ آ نجناب نے سیرت کے جس گوشے اور حصہ کو اپنی قلم کی جولان گاہ بنایا ہے تو اس کا حق ادا کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ عہد رسالت کا منظرسامنے آ جاتا ہے ۔ اور دل ودماغ میں فطری طور پر عقیدت واحترام اور حب و انسیت کا جذبہ بھی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے جاگزیں ہونے لگتا ہے۔ نیز یاسین صاحب کی نگارشات کی روشنی میں یہ بھی پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ آ پ کا تمام علمی و تحقیقی سرمایہ ، تحقیق و تدقیق کے جملہ اسلوب وآداب سے مملو ہے۔ مثلآ تجزیہ کرنے، تحقیقی مطالعہ پیش کرنےاور نقد کرنے کے کیا ضابطے اور قواعد ہیں۔ یہ تمام نکات ہم کو یاسین صاحب کی تحریروں میں ملتے ہیں ۔یاد رکھئے یہ تمام وہ باریکیاں ہیں جن کا حق ادا محققین نہیں کرپاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جادہ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں جس سے تحقیقی کارنامہ کا حسن مجروح ہوجاتا ہے اور محقق کی لا عملی اور بودے پن کا ثبوت بھی فراہم ہوجا تا ہے۔ آ ج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہیکہ کہ تحقیق و تفتیش کے نئے نئے گوشے سامنے تو آ رہے ہیں مگر ماہرین کا کہنا یہ ہیکہ یہ کام صرف روایتی طور پر انجام دیا جارہا ہے ۔ کیونکہ محقق کا تجزیہ اور اس کا نظریہ کہیں بھی نظر نہیں آ تا ہے۔ گویا بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آ ج کے اکثر محققین تجزیاتی یا تنقیدی مطالعہ پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس لئے خصوصا جدید محققین کے لئے پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم کی تصنیفات کا مطالعہ بہت ساری پیچیدگیاں اور الجھنیں دماغ سے رفع کرنے میں معین و مددگار ثابت ہوگا۔ عموماً ہم جب کسی پر نقد کرتے ہیں تو سامنے والے کی فکرو تحریر کا علمی محاکمہ کم کرپاتے ہیں بلکہ ہمارے رویہ میں اونچ نیچ اور کسر شان کا پہلو غالب آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی واقعہ نقل کرنا ہوتا ہے تو اس کے مالہ وماعلیہ کو جاننے سے قبل اپنی رائے کا اظہار کردیا جاتا ہے ۔ جو محققین کی عظمت و انفرادیت کو پستہ کرڈالتا ہے۔ جبکہ کسی بھی مسئلہ کا پس منظر اور اس کے خد و خال سے واقفیت حاصل کرنے سے پہلے اس پر رائے زنی کرنا نہ صرف بے سود ہے بلکہ قارئین کو بھی شش و پنج میں مبتلا کردیتا ہے۔ یاسین صاحب کی سیرت نگاری یا تصنیفات وتالیفات میں ریسرچ میتھا ڈولوجی کے جملہ اوصاف ملتے ہیں۔ اسی طرح آ پ کا یہ علمی سرمایہ محققین کو اس جانب بھی گامزن کرتا ہے کہ صالح اور صحت مند تنقید کا اہتمام اپنی تحریروں میں کس طرح کرنا چاہیئے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پرماضی قریب اور بعید میں بہت سارے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ مزید لکھ رہے ہیں ان تمام مصنفین و محققین کے کارناموں کی افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر سیرت نبوی کے علمی سفر کو سب سے پہلے بانی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، سر سید احمد خان نے خطبات احمدیہ کے نام سے شروع کیا ۔اس کے بعد اس جانب بہت سے اکابر گامزن ہوئے اور انہوں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ اہم ترین علمی کارنامے ثبت کئے جن کی عظمت و تقدس کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ مثلآ ہمارے سامنے علامہ شبلی کی سیرت النبی ، مولانا ادریس کاندھلوی کی سیرت المصطفیٰ ،نعیم صدیقی کی محسن انسانیت، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی الرحیق المختوم اعلمی تحقیقات ہیں ۔ سیرت نگاری کے باب میں مذکورہ تالیفات اپنی مثال آ پ ہیں۔ اسی طرح مجدد سیرت ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا نام بھی تا قیامت جلی حروف سے لکھا جائے گا کیوں کہ انہوں نے بھی سیرت نبوی کے ان گوشوں سے روشناس کرایا جن تک رسائی عموماً لوگوں کی نہیں ہوپاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے جو گراں قدر سیرت نبوی کے حوالے سے سرمایہ چھوڑا ہے اس سے بھی ہمیشہ ہمیش تشنگان علوم نبوت سیراب ہوتے رہیں گے۔ بطور یادھانی ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی سیرت نبوی کے متعلق چند تصنیفات کا نام ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ عہد نبوی کے میدان جنگ، عہد نبوی کا نظام حکمرانی، رسول اکرم کی سیاسی زندگی، خطبات بھاول پور، میں مذکور سیرت سے متعلق چھہ خطبات، نیز الوثائق السیاسیۃ وغیرہ وہ تجدیدی کارنامہ ہے جن کو اہل علم بے انتہا پسند کرتے ہیں ۔ چنانچہ
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بعد بلا شبہ سیرت نبوی کے حوالے سے جو نام علمی حلقوں میں لیا جاتا ہے وہ پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم کا ہے۔ پروفیسر یاسین مظہر صدیقی نے تاریخ اسلام اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر انتھائی بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کو مجد د سیرت کہا جاتا ہے تو وہیں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم کو ترجمان سیرت کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ آ پ کا یہ علمی سرمایہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ آ پ کی اس فکر و نظر نے تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کے حوالے سے صفحہ قرطاس پرایسے نقوش ثبت کئے ہیں جن کی روشنی میں اسکالرس تحقیق و تفتیش کے میدان میں آ گے بڑھتے رہیں گے ۔ دوسرا سبق پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم کی زندگی سے یہ بھی ملتا ہے کہ با حث و محقق کو چاہئے کہ وہ کسی خاص موضوع کو متعین کر کے کام کریں اور پھر اسی میں اختصاص پیدا کریں تاکہ وہ اس موضوع پر متن و سند کی حیثیت سے جانےجائیں ۔ پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم نے سریت نبوی کو منتخب کیا اور اسی میں اپنی پہچان و شناخت بنائی ۔
دوسری بات یہ کہنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آ پ انتھائی سنجیدہ منکسر المزاج با اخلاق اور خوش مزاج تھے۔ جتنی اہمیت ان کی مجلس میں بڑے بڑے لوگوں کو ملتی تھی اتنی اہمیت وہ نئے اسکالرس کو دیتے تھے۔ جو بھی ان کی مجلس میں حاضر ہوتا وہ بغیر علم کے جوہر چنے نہیں آ تا تھا۔ مگر افسوس کہ آ ج ترجمان سیرت ہمارے درمیان میں نہیں ہے ، ان کی عدم موجودگی کو محسوس کیا جائے گا۔ علمی دنیا سوگوار ہے ۔ مگر ان کے افکار و نظریات اور علمی ورثہ موجود ہے۔ لہذا ان کی فکراور منہج تحقیق کو فروغ دینا ان سے محبت و وفاداری کی واضح علامت ہے ۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جہاں ہمارے درمیان ایک ترجمان سیرت موجود نہیں رہا وہیں جدید و قدیم کا سنگم بھی رخصت یوگیاہے۔ ان سے ہماری عقیدت کا ثبوت یہ ہوگا کہ ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے اور اپنے اندر اسی طرح کا تحقیقی شعور و جذبہ پیدا کریں جو پروفیسر یاسین مظہر صدیقی مرحوم نے کیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ہندو پاک میں اپنے موضوع پر سند کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین۔

Comments are closed.