Baseerat Online News Portal

اپنی ذات پر دوسرے اہل آدمی کو ترجیح ۔دینا(ایثار)

 

مفتی احمد نادر القاسمی

رفیق علمی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

تاریخ انسانی کا حیرت انگیز واقعہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔

آج دنیا میں حب جاہ اورحب منصب کی نفسانفسی ہے اورانسان جاہ ومنصب کا اتنا حریص ہوچکا ہے کہ اس کے حصول کے لٸے ساری اخلاقی حدود کوبھول جاتاہے اوراپنی منشاتک پہونچنے کے لٸے کیاکچھ نہیں کرتا۔ اکثر زندگی کے اس شعبہ میں مشاہدہ ہوتارہتاہے اورافسوس بھی ہوتاہے اوراپنے اسلاف کی اس آٸیڈیل زندگی کو پڑھتے اوردیکھتے ہیں اور اس پرفتن دورمیں سامنے آنے والے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دل روتابھی ہے۔ یہ بات اس پس منظر میں دل میں آئی جب مشہور مورخ اورسیر نگار علامہ ابن کثیرکی شہرہ آفاق تصنیف البدایہ والنھایہ جلد4صفحہ145-46 کے حولہ سے خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق کے دورکا یہ واقعہ پڑھا کہ حضرت سیدنا عمرفاروق زخمی ہوٸے تو اس وقت چھ افراد پر مشتمل ایک مشاورتی اورانتخابی کمیٹی تشکیل فرماٸی جو موزوں اوراہل ترین اشخاص پر مبنی تھی اوراسکے تمام ارکان اپنے آپ میں حقدار منصب خلافت وامارت بھی تھے وہ حضرات حضرت علی حضرت عثمان حضرت زبیر حضرت سعد حضرت طلحہ حضرت عبدالرحمن تھے۔

اب دیکھٸے ان کاجذبہ ایثاروقربانی اوراپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے کی دینی اوراسلامی حمیت۔۔حضرت زبیربن العوام نے حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ کے حق میں دست برداری اختیار کرلی۔حضرت سعدبن ابی وقاص نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے حق میں ۔حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اسلام کے خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی کے حق میں، پھرحضرت عبدالرحمن بن نے حضرت سیدنا عثمان اورحضرت سیدناعلی سے یہ تاریخی جملہ ارشادفرمایا:”أیکما یبرأ من ھذا الأمر۔فنفوض الأمرالیہ۔۔واللہ علیہ والاسلام لیولین أفضل الرجلین الباقیین۔فسکت الشیخان علی وعثمان۔فقال عبدالرحمن بن عوف : انیأترک حقی من ذلک ۔واللہ علی والاسلام أن اجتھد فأ ولی اولافراط بالحق فقالا نعم“۔

تاریخ اسلامی کےاس واقعہ پرغور فرمائیں اوراپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے کے اسلاف کے قابل تقلید عمل کودیکھٸے جب کہ معاملہ امت کے خلیفہ بننےکاہے اس سے بڑاکوٸی منصب نہیں، پھربھی ہرکوٸی اپنے آپ کو اپنے بھاٸی اوراہل کے لٸے ۔پیچھے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں.

آج کی دنیاکی جمہوری سیاست۔اورخود کوپیش کرنے ۔اوراسلامک کے فلسفہ کے خلاف دوسروں کی ذات پر اپنے آپ کو ترجیح دینے چلنے نے ہم کوکہاں پہونچادیا۔ہم سب بھول گٸے ۔ اپنی نفس پرستی کے آگے سب بھول گٸے ۔۔

میں جانتاہوں ہمارے بہت سے۔فورا حضرت یوسف اورحضرت سیلمان ۔حضرت عثمان ابن العاص وغیرہ مثالیں دے کر خود پیش گی کو بھی ایثار کے خلاف نہ ہونے کا عندیہ ضروردیں گے ۔مگر یہ امر موہوم ہے ۔کیسے معلوم ہم اہل ہیں یانہیں یہ تو آنے والاوقت بتاہے (انبیإ ٕ کرام کی ذات مثتثنی ہے۔) اللہ نےان کو خصوصی تربیت کی وجہ سےیہ دیاہے۔۔

غرض ایثار وترجیح ۔کتاب وسنت سے ثابت صریح امر محمود ہے ۔اورخود کو اہلسنت سمجھتے ہوۓ پیش کرنا ۔امر موہوم ہے۔اسلٸے ہرحال میں اسلام کا دیاہوا یہ اصول ۔اوراسلاف کا پیش کیاگیا یہ نمونہ عمل ہی اصل ہے ۔اورموجودہ حالات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ خود پیشی اورخود نماٸ کی بدعات کاخاتمہ ہو ۔اورجہمور کےاہل سیاست کو اپنی چال چلنے دیجٸے خوب اپنی خودنماٸی اورخودپیشی کریں۔ ۔ہم کو اپنےدین کے شفاف نظام کوگلے لگاناچاہٸے ۔اوردنیاوآخرت کوتباہ کردینے والے فتنوں سے خود کودوررکھنے کی کوشش کرنی چاہٸے ۔اللہ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین ۔

Comments are closed.