Baseerat Online News Portal

ایسا کہاں دیش ہے میرا ……؟  نوراللہ نور

ایسا کہاں دیش ہے میرا ……؟

 

نوراللہ نور

 

آج صبح سے ہی یوم آزادی کی گہما گہمی تھی ہر لوگ گزشتہ شام ہی سے یوم آزادی کی مبارکبادیاں دے رہے تھے ہر گلی نکڑ ناکے پر بڑے بڑے ساؤنڈ بوکس پر حب الوطنی کے نغمے اور گیت بجائے جارہے تھے اس اثنا میں دکان پر کچھ خریدنے کے غرض سے گیا وہاں ایک ساؤنڈ بوکس پر یہ نغمہ بج رہا تھا ” دھرتی سنہری امبر نیلا ہر موسم رنگیلا ایسا دیش ہے میرا ” مزید نغمہ نگار نے ایک دلکش و پرکشش ہندوستان کو بیان کیا ہے ساون کے دلفریب رت اور چوپالوں میں بزرگوں کے بغیر ذات پات کے بھید بھاؤ کی نشست کا ذکر کیا اخوت و مساوات کی منظر کشی کی ہے واقعتاً ایسا ہی تھا میرا وطن جس پر میں نے باوضو ہوکر اپنی جبیں خم کی ہے برادران وطن پوتر تا اور سچے من سے اس کی پھلنے پھولنے کی منو کامنا کیا کرتے ہیں مگر جس ہندوستان کی تصویر نغمہ نگار نے اپنے نغمے میں دکھانے کی کوشش کی ہے وہ اب صرف خواب ہے حقیقی ہندوستان اپنے نقشے اور ذہن و دماغ سے عنقاء ہو چکا ہے ۔

کھیت کھلیان اب بھی ہیں مگر وہ جاذب اور پر کشش نہیں رہے اور کیسے اس کا حسن جاذب نظر ہوگا ؟ جب کسان خودکشی اور خود سوزی کر رہے ہوں کھتیاں اب کیوں کر لہراے گی جب کسانوں کے ساتھ دھوکہ بازی ہو "نیلا” امبر تو ہے مگر معذرت دھرتی سنہری نہیں کیونکہ آزادی کے بعد سے اس کے حسن کا کسی کو خیال ہی نہیں آیا سب نے یکے بعد دیگرے اس کے حسن کا سودا کیا خوبصورت گاؤں کے محبت بھری فضاؤں کو مذہب کی سیاست سے پراگندہ کردیا گاؤں کے بھولے بھالے ذہن میں عصبیت کو بھر دیا ترقی یافتہ سیم وزر سے لدے اور ہندوستان کے حسن کے ضامن شہروں کو بیچ کھایا حسین تھا اتنا حسین‌ کہ یوروپ و امریکہ کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جائے مگر نہ جانے کس کی نظر بد لگ گئی ویسا ہندوستان اب صرف ایک سپنا ہے ۔

اس نغمے میں‌خوشحال ہندوستان کا ذکر کیا کہ خوشحالی سے ہر ایک سرشار ہے سب اپنے محنت کی روٹھی کھارہے ہیں مگر اب وہ بات نہیں بلکہ آج ملک کا اکثر حصہ کسب معاش میں سرگرداں ہیں نوکریاں فراہم کرنے کے بجائے نوکریاں چھینے جارہی ہے اور بے روزگاری میں دیگر ممالک کو اپنا بھارت مہان مات دے رہا ہے صوفی سنتوں نہرو و ابوالکلام جیسے تعلیم یافتہ لوگوں کا وطن اب تعلیم و تعلم سے کوسوں دور ہے اور غریب و نادار بچے اب بھی جہالت کی کو ٹھریوں میں اپنی صلاحیتوں کو لیے بیٹھے ہیں مگر اس جانب توجہ نہیں بلکہ تعلیم سے زیادہ توجہ عبادت گاہوں کو مل رہی ہے جہالت بڑھ رہی ہے اور ترقی کی شرح مقدار کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے پرانے ہندوستان کی اب جھلک بھی ممکن نہیں ۔

چوپالیں اب بھی ہیں مگر وہ رام و رحیم کا بغیل گیر ہوکر اٹھکھیلیاں کرنا مفقود ہے بلا تفریق ایک ہی کنویں سے سارے لوگوں کا سیری حاصل کرنا اس نظارے کا فقدان ہے اب چوپالیں نہیں ہے سیاست بازی کے اڈے ہیں اب بغل گیر ہوکر کھیتوں کھلیان کی سیر تو دور ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں مندر و مسجد کے حسین سنگم کے نظارے نہیں ملتے بلکہ اب تو ترنگے اور ہندو مسلم اتحاد کے حسین امتزاج کو ایک رنگنے کی تیاری ہے ۔

حقیقت میں یہی ہندوستان کی تصویر ہے جو اس نغمے میں نغمہ کار نے بتلایا ہے مگر اب یہ صرف اس کا تصور و تخیل ممکن ہے حقیقت میں پرانے ہندوستان کی تلاش و جستجو میں آپ کھو جایں گے مگر وہ ہندوستان نہیں ملے گا ۔

کیونکہ اس کا ترنگا اب بھگوا اور زعفرانی رنگ میں رنگ گیا ہے اب ایسے لوگوں کا تسلط ہے جس نے ہماری تہذیب و ثقافت عادت و اطوار اور اور اخوت و محبت کے کلچر کا سودا کر لیا ہے اب ہمارے سپنوں کے ہندوستان کا وجود آخری سانس لے رہا ہے اور ایک زعفرانی متشدد نفرت و حقارت سے پر بھارت بننے کی تیاری زوروں پر ہے محبت سے بھرے اور گنگا جمنی تہذیب اب نفرتوں کی زد میں ہے سب بک چکا ہے اور سب ختم ہو چکا ہے اگر پرانے ہندوستان کی تلاش ہے تو بے جا خیال ہے اب آپ ایک آزاد ہندوستان میں نہیں ہے بلکہ ایک غلام ہی ہیں ذہنی غلامی فکری غلامی نہرو ؛ گاندھی ؛ اشفاق اللہ خان ؛ اور ابوالکلام کے دیش میں اب گوڈسے ساورکر گوالکر کا قبضہ اب پرانا ہندوستان تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملے اس لیے اب اس نغمے کا جواب اور تفسیر یہی ہوگی کہ ایسا کہاں ہے دیش میرا ؟؟؟؟

Comments are closed.