Baseerat Online News Portal

این پی آر پر پھر جملہ بازی

 

محمدشارب ضیاء رحمانی

نتیش کمار نے این پی آر کے نئے فارمیٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اضافی کالموں کی وجہ سے بھرم پھیل رہاہے،پرانے فارمیٹ پر ہی این پی آر کرانا چاہیے،یہ کانگریسی دور کا ہے،کوئی نئی چیز نھیں ہے۔

پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ محض بیان ہے،سرکاری حکم نھیں ہے،پھر گزٹ کیوں جاری ہوا؟اس لیے نتیش کی ڈفلی بجانے کی ضرورت نھیں ہے،کہاکچھ اور جاتاہے،کیا کچھ اور جاتاہے،جملے بازی کے دور میں یقین کی گارنٹی نھیں ہے۔

وزیر اعلی نے نئے اور پرانے کے ذریعے جملے بازی کی ہے،پہلے یہ بتائیں کہ این پی آر کی ضرورت ہی کیاہے؟کیا جن گننا ترقیاتی امور کے لیے کافی نھیں ہیں؟
وزیر اعلی اور ان کے کارندے سچ سچ بتائیں کہ کانگریس نے پورے ملک میں این پی آر کرایاتھا؟اور یہ بتاکر کیاتھا کہ یہ این آرسی کا پہلا قدم ہے؟اگر این آرسی نھیں ہوگی تو این پی آر کی ضرورت کیوں پڑی،وزارت داخلہ اسے این آرسی کا پہلاقدم بتاچکی ہے۔
این پی آر میں سب سے خطرناک شق یہ ہے کہ سروے کنندگان جسے چاہیں گے،D یعنی ڈاٹ فل اور مشکوک لکھ دیں گے پھر این آرسی میں بچا ہی کیا؟وزیر اعلی ٹھیک کہتے ہیں کہ این آرسی لاگو نھیں کریں گے کیوں کہ این پی آر سے ہی وہ مقصد حاصل ہوجاتاہے،سروے کنندگان کے لیے معیار بھی طے نھیں ہے کہ کن بنیادوں پر مشکوک لکھ سکتے ہیں،کوئی کرائیٹ ایئریا طے نھیں کیاجاناصاف بتاتاہے کہ پوری دال کالی ہے،اس میں سماجی کارکنان کی بھی مدد لی جائے گی،کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ کارکنان سنگھ کے ہوں گے؟حیرت ہے کہ وزیراعلی کو والدین کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش پوچھنے پر اعتراض ہے لیکن ڈاٹ فل کی شق کے ذریعے این آرسی لاگوکرنے کی کوشش پر خاموش ہیں۔

وزیراعلی نے این آرسی پرمودی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اسے مستردکیاہے(چیف منسٹر گھمارہے ہیں،وزیر اعظم نے کبھی نھیں کہاہے کہ این آرسی کبھی لاگو نھیں ہوگی،پی ایم اور اب دیگر بی جے پی لیڈران کہہ رہے ہیں کہ ابھی کوئی چرچا نھیں ،اس ابھی اور کبھی کے لفظی پھیر کوسمجھنے کی ضرورت ہے،امت شاہ نے 2024 سے پہلے کی بات کہی تھی،حکومت نے پی ایم کے بعداب تک نھیں بتایاکہ 2024 تک لائیں گے یا نھیں،نتیش کمار اتنے بھولے بن کر لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں جیساکہ انھیں ابھی اور کبھی کی جملہ بازی سمجھ میں نہیں آئی ہو)شاید چیف منسٹر کو مرکزی وزیرداخلہ کے پارلیمنٹ میں دییے گئے این آرسی کو ہرحال میں لاگوکرنے کے بیان پر بھروسہ نھیں،جن کے نتیش کمار اتنے وفادار ہیں کہ ان کے کہنے پر پرشانت کشور کو پارٹی میں شامل کرلیتے ہیں لیکن پارلیمنٹ اورریلیوں میں دییے گئے بیان پر شک ہے،یھی نھیں جن کو صدرجمہوریہ بنانے کے لیے جدیو نے یوپی اے میں ریتے ہوئے ووٹ دیاہو،نتیش کو ان کی پارلیمانی تقریر پر بھروسہ نھیں،یہ کون سی راشٹریہ بھکتی ہے کہ ملک کے اولین شہری اور سربراہ کے خطاب پر اعتماد نہ کیاجائے،پھر چیف منسٹر کے کابینی ساتھی نے اگر کہا کہ بہارمیں ہرحال میں این آرسی لاگوہوگی تو جھوٹ بولنے پر ساتھ کیسے رکھے ہوئے ہیں؟پرشانت کشور اور پون ورما کی طرح سشیل مودی کو کچھ کہنے کی ہمت کیوں نھیں ہے جو این پی آر پر تاریخ بتاتے اور دھمکاتے ہیں۔
سی اے اے پر وزیراعلی نے کہاہے کہ یہ سپریم کورٹ میں ہے،تو پھر پندرہ دنوں پہلے اسمبلی میں چرچاکے لیے تیار کیوں ہوگئے تھے؟اس وقت بھی کیس سپریم کورٹ میں تھا۔

اگر موجودہ این پی آر منظور نھیں تو گزٹ کب واپس لے رہے ہیں؟یادرہے کہ کے سی تیاگی نے بھی اس فارمیٹ پر اعتراض کیاتھا لیکن گزٹ جاری کیاگیا،سمجھا جاسکتاہے کہ نتیش کا بیان بھی دھوکہ،جملہ،جھوٹ اور جھانسہ ہے۔

جب تک بہار سرکار این پی آر کا گزٹ واپس نھیں لیتی،نئے پرانے مں الجھانے کی بجائے کسی حال میں این پی آر لاگونہ کرنے کاسرکاری نوٹیفیکشن جاری نھیں کرتی،سی اے اے،این آرسی،این پی آر پر باضابطہ اسمبلی سیشن بلاکر انھیں مسترد کرنے کی تجویز منظور نھیں کرتی اور سشیل کمارمودی کے بیان کی واضح تردید وزیر اعلی کی طرف سے نھیں ہوتی،نتیش،کے سی تیاگی یا کسی کے بیان پر بھروسہ دھوکہ ہوگا،یہ تحریک کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ ہے،جدیو کے وفادار اگر سمجھائیں تو ان سے یہ سوال پوچھیے،وفاداروں کے بہکانے میں نہ آییے،دوٹوک کہہ دیجیے کہ این پی آر،سی اے اے پرسرکار چلی جائے گی،مسلمان،دلت اور یادو متحد ہوکر دھوکہ اورغداری کا بدلہ لیں گے۔

Comments are closed.