Baseerat Online News Portal

ایودھیا   میں  کھدائی: سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے،جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

 

ڈاکٹر سلیم خان

جسٹس رنجن گوگوئی نےگذشتہ سال (2019)  ۹ نومبر کو  ایوان ِ بالا کی رکنیت کے عوض  انصاف کا پیمانہ الٹ کر بابری مسجد کی  2.77 ایکڑ اراضی رام للا کے حوالے کر دی۔  اپنے فیصلے میں  عدالت نے مرکزی حکومت کو مندر کی تعمیر اور انتظام کے لیے ایک ٹرسٹ تشکیل دینے کا حکم صادر کرویا۔ اس طرح گویا سرکار کی من مراد پوری ہو گئی  ۔مسلمانوں کو احمق بنانے کے لیے سپریم کورٹ نے ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ کی خیرات دینے کے لیے کہا جس کو  امت  کے سوادإ اعظم نے ٹھکرا دیا۔اس فیصلے کے بعد ہندو سادھو سنتوں کے درمیان جوتم پیزار کا ایک سلسلہ جاری ہوگیا لیکن حکومت ان کو سمجھا مناکر یا ڈرا دھمکا کر مندر کی تعمیر کا عمل شروع کروانا ہی چاہتی تھی کہ لاک ڈاؤن کے سبب  دو ماہ کا تعطل آگیا ۔ آگے چل کر  لاک ڈاؤن میں نرمی آئی توکام  دوبارہ شروع  ہوا ۔

ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ انوج کمارجھا کے مطابق  ٹرسٹ نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے دوران تعمیراتی کام کے آغاز کی اجازت مانگی تواسے  منظور کیا گیا اور وہاں تمام تر احتیاط کے ساتھ  کام جاری ہوا۔زمین  کو ہموار کرنے کی خاطر کی جانے والی  کھدائی میں جو باقیات ہاتھ آئے ۔ ان سے متعلق ڈی ایم انوج کمار جھا کا  کہناتھا کہ جو کچھ ملا ہے اس کی   آثار قدیمہ کے نقطہ نظر سے جانچ نہیں کی گئی ہے اور ایسا کرنا فی الحال  ممکن بھی  نہیں ہے۔ انوج کمار کی یہ بات درست ہے لیکن انہیں  ٹرسٹ کی نگرانی میں صاف صفائی کر رکھنا تو ایسا ہے جیسے چور کے ہاتھ میں تجوری کی چابی دے دی جائے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ  غاصب  ٹرسٹ والے جنھوں نے عدالت عظمیٰ میں دھوکہ دھڑی سے مسجد کی زمین ہتھیا لی ان باقیات  میں سے کیا رکھیں گے اور کیا غائب کردیں گے؟ بعید نہیں کہ اس میں باہر سے کیا کچھ لاکر شامل کرنے کے بعد یہ دعویٰ بھی کردیں کہ وہ سب وہیں سے نکلا ہے۔  ویسے مودی اور یوگی راج کی اندھیر نگری جو بھی ہوجائے کم ہے ۔ ان لوگوں کا عدل و انصاف سے کوئی واسطہ تو  ہے نہیں ، اپنا  اقتدار اور سیاسی مفادحاصل کرنے کے لیے سب جائز ہے۔  

رام جنم بھومی ٹرسٹ کے نگراں چمپت رائے نے ضلع مجسٹریٹ کی اجازت سے11 مئی کو   شروع  ہونے والے کام کے بارے میں بتایا کہ  زمین کی سطح ہموار کرنے کے کام میں تین جے سی بی، ایک کرین، دو ٹریکٹر اور دس مزدور تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ سارے کام کورونا وائرس کے حوالے سے حفاظتی معیار، ماسک اور معاشرتی دوری وغیرہ پر سختی سے عمل کرتے ہوئے ہو رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا  کہ  کھدائی  کے دوران بڑی تعداد میں دیوی دیوتاؤں کے ٹوٹے ہوئے مجسمے، گل کڑیاں اور دوسرے نوادرات ملے  ہیں۔ان میں ۷ بلیک ٹچ سٹون کے ستون، چھ ریڈ سینڈ یعنی سرخ رنگ کے پتھر کے کالم، پانچ فٹ کے نقش و نگار والے شیولنگ اور محراب کے پتھر برآمد ہوئے ہیں۔  اب تضاد دیکھیں کہ منوج کمار جھا کہ مطابق آثار قدیمہ کے ماہرین نے نہ تو انہیں دیکھا اور نہ یہ ماضی قریب میں ممکن ہے لیکن چمپت رائے نے اس سے بے نیاز ہوکر اپنی  بے پرکی ہانک دی اور یہ  اعلان بھی کردیا کہ مندر کے یہ  نوادرات  وہاں پر پائے جانے والے  رام مندر کے وجود کا مستند ثبوت ہیں ۔  

ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے جب بغیر ثبوت کے عقیدے کی بنیاد پر دھاندلی کر ہی دی تو اپنا احساسِ جرم دور کرنے کے لیے اس طرح کا جھوٹ گھڑنے کی انہیں چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ رام مندر کا سارا کھڑاگ جھوٹ اور مکاری کی بنیاد پر رچا گیا ہے ۔ اس کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک مقامی صحافی مہیندر ترپاٹھی نے ٹرسٹ کی تائید میں کہہ دیا  کہ ’پرانے مندر کی باقیات پہلے بھی مل چکے ہیں۔ ابھی ملنے والے شیولنگ، کلش یا مجسمے انھیں سے متعلق ہیں ۔  یہ بات اگر درست ہے تو انہیں کی بنیاد پر مقدمہ لڑا جاتا عقیدے کا سہارا لینے کی ضرورت کیا تھی؟  ان شواہد کے متعلق وشو ہندو پریشد والے میڈیا تو بہت بولتے ہیں مگرعدالت میں  اس پر چپی سادھ لیتے ہیں۔ اس دروغ گوئی میں شامل ہوکر رام جنم بھومی کے سربراہ پجاری آچاریہ ستیندر داس نے اعلان کردیا  کہ اس سے قبل محکمہ آثار قدیمہ نے اس جگہ کی کھدائی کی تھی اور کھدائی میں مندر کے شواہد ملے تھے۔کھدائی میں پائے گئے شواہد کی بنیاد پر ہی سپریم کورٹ نے رام للا کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔ اب پھر ایک بار  رام مندر سے متعلق جو  شواہد ملے ہیں  ان میں کمل دل، شنکھ، چکر اور دھنوش وغیرہ شامل ہیں ۔ ستیندر داس کے مطابق سناتن دھرم سے وابستہ یہ ساری چیزیں اشارہ کرتی  ہیں کہ یہاں پہلے ایک مندر تھا۔ اس طرح کے جھوٹ پر سنگھ کے فسطائی رام مندر کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش  تو کرتے ہیں  لیکن ان کے ہر جھوٹ کا بھانڈا بہت جلد پھوٹ جاتا ہے کیونکہ بقول شاعر؎

جو میرا جھوٹ ہے اکثر مرے اندر نکلتا ہے                                     جسے کم تر سمجھتا ہوں وہی بہتر نکلتا ہے

چمپت رائے اور ستیندر داس کی دروغ گوئی نے ان کے بھکتوں کا  حوصلہ بڑھایا اور انہوں نے سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ میں کچھ مورتیوں کی  تصاویر شائع کردیں جن سے متعلق  کہا گیا کہ یہ کھدائی کے دوران ہاتھ لگی ہیں۔  دلچسپ بات یہ ہے  ان تصاویر میں  رام ، سیتا اور لکشمن کی مورتیوں کے پائے جانے کا دعویٰ کرنے کے بعد نیچے لکھا  گیا کہ ’’ایودھیا میں کھدائی کرتے سمئے رام ، لکشمن ، جانکی ، جئے بولو ہنومان کی مورتی پائی گئی جئے شری رام ‘۔ ایسی  جرأتمندی کا مظاہرہ  تو چمپت اور ستیندر  بھی نہیں کرسکے ۔ اس سے اندازہ  کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح جھوٹ پیر پسارتا ہے۔  دنیا بھر میں کذب گوئی کو اس کے تضاد سے پہچان کر جھٹلایا جاتا ہے لیکن وطن عزیز میں اندھے بھکت اس پر آنکھ موند کر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ اسے بڑی عقیدت سے پھیلا کر پونیہ کماتے ہیں ۔  وہ رو اس شعر پر یقین کرکے جھوٹ پر جھوٹ کی پرت چڑگائے جاتے ہیں کہ؎

سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے                                          جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

ان اندھے بھکتوں میں تھوڑی بھی عقل ہوتی تو وہ ان تصاویر پر یقین کرنے سے قبل  چمپت رائے اور ستیندر داس سے پوچھتے کہ رام ،سیتا اور لکشمن کی مورتیوں کے پائے جانے کاوہ اقرار  انہوں نے کیوں نہیں کیا؟   ویسے بعید نہیں کہ  آگے چل کر یہ لوگ اس طرح کی  مورتیاں کہیں سے  لاکر ان باقیات میں ملا دیں اور یہ دعویٰ  کر دیں کہ مورتیاں کھدائی میں نکلی ہیں ۔جب سیاں ّ بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟ نیز جھوٹ کی تشہیر کے لیے زر خرید میڈیا تو موجود ہی ہے۔سوشیل میڈیا میں مورتیوں کی تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ جستجو کرنے والوں نے اس کی کھوج بین کی تو پتہ چلا کہ یہ  تو جھارکھنڈ کے جلنگا  گاوں میں پائی جانے والے مندر کے مجسمے ہیں ۔ عصرحاضر میں ذرائع ابلاغ ایک دو دھاری تلوار ہے ۔ اس کے ذریعہ جھوٹ پھیلانا جس قدر آسان ہے اسی طرح تردید بھی ممکن ہے۔ اس میں  فرق صرف یہ ہے کہ مسترد کرنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔

 امت مسلمہ کے بزرگ اگر اپنے نوجوانوں کے درمیان دن رات ماتم کرکے انہیں مایوس  کرنے کے بجائے  اس  میدان میں محنت و مشقت کی ترغیب دیں تو یہ کام  بڑی آسانی سے اسلام  ہوسکتا ہے۔ اس بابت صرف عار دلانے یا وعظ و نصیحت کرنے کے بجائے عملی مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کام کے لیے کسی جوان اور صحتمند ہونا ضروری نہیں ہے۔  مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے مکروفریب کا ٹھوس حقائق کی بنیاد پر   منہ توڑ جواب دینے کاکام کبر سنی میں  بھی کیا جا سکتاہے  لیکن اس کے لیے شکوہ شکایت کے پر آشوب  ماحول سے نکلنا  لازمی ہے  ۔  دی کوئینٹ نامی ادارے نے اس  معاملے کی جانچ پڑتال کا بیڑہ اٹھایا  تو اسے  گوگل میں تلاش کے دوران  ایک مضمون ہاتھ لگا ۔  دی انالسٹ نامی ویب سائیٹ پر ان مجسموں کی تصاویر کے  جھارکھنڈ میں کھنٹی ضلع کے  ایک مندرسے  ملنے کی بات کی گئی تھی ۔  اس خبر کی مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ جنوری 2019 میں  جھارکھنڈ کے کھنٹی ضلع کی بھدرا پنچایت   میں واقع جلنگا گاوں میں  کچھ لوگوں کے ہاتھ  یہ مورتیاں لگی تھیں۔  یہ چونکہ بہت پرانا واقعہ نہیں تھا اس لیے کوئینٹ کے نامہ نگار  نے کھنٹی کے ایس ڈی ایم سے رابطہ کرکے اس بات کی تصدیق کرائی کہ  یہ تصاویر حقیقت میں اسی گاوں کے مورتیوں کی ہے ۔ دی کوئینٹ والوں نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کے لیے دہلی سے  جھارکھنڈ کا سفر نہیں کیا  مگر اس پر اپنا وقت ضرور صرف کیا ۔ وہ کوئی جنات نہیں ہماری طرح کے انسان ہیں لیکن انہوں نے صحیح خطوط  پر کام کیا اور کامیابی  سے ہمکنار ہوئے۔

فسطائی  ہندو جب بھی  اس   جھوٹ کو دوبارہ  پھیلائیں گے تردید میں  اس تحقیق کو موجود پائیں گے۔   کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے والی   اہنٹی باڈی جس طرح  مریض کے خون (سیرم) میں پائے جاتے ہیں اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ پھیلائے جانے والے جھوٹ کا توڑ بھی انٹر نیٹ پر موجود  ہوتا ہے لیکن اس تک رسائی کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ تو خود اپنے ذریعہ پھیلائےجانے والے مشکوک پیغامات کو آگے بڑھانے سے قبل ان کی تحقیق ضروری نہیں سمجھتے اور کوئی توجہ دلائے تو اس کی تردید کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ انٹر نیٹ پر کسی جھوٹ کا  پردہ فاش کردیا جائے تو آگے والوں کے لیے  محفوظ بھی ہوجاتا ہے ۔ فی الحال کئی ایسی ویب سائیٹس ہیں کہ جن سے رجوع کرکے  تصاویر ، ویڈیوز یا خبروں  کی تصدیق کرنا ممکن ہے ۔ اس میدان میں امت کے نوجوانوں کو بھی  آگے آنا چاہیے۔       ایک ایسے دور میں جبکہ بہت سارے لوگ جھوٹ کی تاریکی پھیلانے میں دن رات ایک کررہے ہیں کچھ لوگ روشنی   کے چراغ لے کر میدان میں آئیں تو یہ اندھیر چھٹ سکتا ہے لیکن اس کے لیے عزم و حوصلہ کے ساتھ محنت شاقہ  درکار ہے۔ 

Comments are closed.