Baseerat Online News Portal

ایکناتھ کھڑسے ، نتن  پٹیل کے بعد اگلا نمبر یوگی ادیتیہ ناتھ  کا ہے؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

بھارتیہ جنتا پارٹی میں آج کل وزرائے اعلیٰ کا چل چلاو ہے۔  اعلیٰ کمان جب من میں آئے  جس کو چاہتا ہے دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر پھینک دیتا ہے ۔ بی جے پی کے مستعفی وزرائے اعلیٰ اور ٹشو پیپر میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا۔  اس  سال پانچ کا ٹکٹ کٹ چکا ہے ۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے قبل  جب کسی وزیر اعلیٰ کو بدلا جاتا تھا تو دوسرے صوبے کے وزرائے اعلیٰ کو زحمت نہیں دی جاتی تھی اس لیے آخرگجرات کے اندر بھوپندر پٹیل کی  حلف برداری کی تقریب میں یوگی ادیتیہ ناتھ ، شیوراج سنگھ چوہان ، بسواراج بومئی، پرمود ساونت  اور ہیمنتا بسوا سرما کو کیوں بلایا گیا ؟   ان لوگوں کو دراصل وجئے روپانی کے انجامِ بد سے عبرت پکڑنے کے لیے بلایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر بلی کا بکرا بنانے کے لیے تیار  کرلیں ۔  مدھیہ پردیش کے ماما یعنی  وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان چونکہ لال کرشن اڈوانی اور سشما سوراج کے قریبی رہے ہیں اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی ان پر اعتماد نہیں کرتے۔    اس بار ان کا پتاّ کاٹنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی لیکن خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ لکھنو دربار اور دہلی دربار کی کشمکش سے اتر پردیش کا بچہ بچہ واقف ہوچکا ہے اس لیے  فی الحال مدھیہ پردیش کے شیوراج چوہان اور اترپردیش کے یوگی ادیتیہ ناتھ کے سر پر تلوار ننگی  لٹک رہی ہے۔

گجرات کے اندر مرتا کیا نہ کرتا کی حالت میں سابق وزیر اعلیٰ  وجئے روپانی نے بھوپندر پٹیل کا نام پیش کیا اور ان کے نائب نے اس کی تائید کردی پھر کیا تھا سارے ارکان اسمبلی نے نندی بیل کی مانند سر ہلادیا۔   کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اٹھ کر پوچھتا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟  کیا وائبرنٹ گجرات میں ایک ہائی اسکول پاس سے بہتر وزیر اعلیٰ کا کوئی امیدوار نہیں ہے؟؟ اب ایک بات تو طے ہے کہ بھوپندر پٹیل کا اگر کوئی ڈپٹی ہوگا  بھی تو وہ پاٹیدار نہیں ہوگا اس لیے نتن کا درجہ کم ہونا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھوپندر کے ساتھ علامتی طور پر بھی دوچار لوگوں کی حلف برداری نہیں ہوئی  اس لیے کہ نائب وزیر اعلیٰ کا فیصلہ ہی نہیں ہوسکا۔ اس کے نام کا اعلان ہوتے ہی پنڈورا بکس کھل جائے گا اور بی جے پی کے اندر جوتم پیزار شروع ہوجائے گی نیز اس سے حلف برداری کے رنگ میں بھنگ پڑ جائے گا۔ بھوپندر پٹیل کی حلف برداری میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے علاوہ آنندی بین کی بیٹی انار پٹیل بھی موجود تھیں ۔ اب یہ انار کیا انارکی پھیلاتی ہیں یا کتنوں کو بیمار کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔  

نتن پٹیل گجرات کے سب سے تجربہ کار رہنما اور نصف درجن سے زیادہ مرتبہ نہ صرف  رکن اسمبلی  بلکہ وزیر بھی  رہ چکے ہیں۔ وہ  جانتے ہیں کہ بی جے پی میں منہ کھولنے کے لیے  ناک  دبانا پڑتا ہے۔ 2017 میں جب انہیں وزارت خزانہ کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی تو انہوں نے باغیا نہ تیور دکھائے  اس کے نتیجے میں  اعلی کمان کو نہ صرف  جھکنا بلکہ نائب وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔اس  بارپھر وہ میڈیا سے بات  کیے بغیر اپنے آبائی شہر مہسانہ روانہ ہوگئے۔  مہاراشٹر میں ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ وہ وزارت اعلیٰ کی کرسی کے حقدار تھے مگر ان  کے ذریعہ دیویندر فردنویس کا نام پیش کروایا گیا۔  اس کے بعد فردنویس نے ان پر مقدمات قائم کرکے ان  سے وزارت  محصول کا عہدہ بھی چھین لیا۔ اگلی مرتبہ الیکشن میں ان کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ۔ اس طرح وہ بی جے پی سے نکل کر این سی پی میں جانے پر مجبور ہوگئے اور اب ای ڈی نے چھاپا مارکر ان کی جائیداد قرقی کرلی ۔ بعید نہیں کہ جو معاملہ مہاراشٹر میں ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ ہوا ہے وہی سلوک گجرات میں  نتن پٹیل کے ساتھ بھی ہو کیونکہ یہی سنگھ پریوار کی تربیت ہے اور یہی اس کی پرمپرا ہے۔

بھوپندر پٹیل کل ریاست کے 17 ویں وزیراعلی کے طور پر عہدہ او ررازداری کا حلف لیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نتن پٹیل اس میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ انہیں اتراکھنڈ کے گورنر کے عہدہ کی تجویز دی گئی ہے۔ سیاست کے ماہر نتن پٹیل سرگرم سیاست میں رہنا چاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے سابق وزیراعلی وجے روپانی سے بھی اچھے تعلقات نہیں تھے۔ روپانی جہاں امت شاہ کے پسندیدہ تھے وہیں نتن پٹیل گجرات کی سیاست میں امت شاہ کا مخالف خیمہ سمجھے جانے والی آنندی پٹیل کے نزدیکی سمجھے جاتے ہیں۔ ریاست میں اگلے سال ہونے والے انتخابات کے مدنظر بی جے پی نتن پٹیل کی ناراضگی کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کرسکتی۔

 اترپردیش کے  وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ آج کل  اس قدر گھبرائے ہوئے ہیں کہ اپنے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کرنے والے سابق آئی اے ایس سوریہ پرتاپ سنگھ کے خلاف انہوں نے   یکے بعد دیگرے نصف درجن   مقدمات درج کروادیئے۔ سوریہ پرتاپ سنگھ 1982 بیچ کے آئی اے ایس افسر ہیں جنہوں نے 2015 میں اتر پردیش کے چیف سکریٹری  کی حیثیت سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لیتے  ہوئے کہا تھا  کہ ایک ایماندار افسر کے لیے صوبے  میں کام کرناناممکن ہے۔ اس وقت تو خیر سماجوادی پارٹی کی سرکار تھی اب جبکہ یوگی کی مہانکمی اور بدعنوان حکومت برسرِ اقتدار آگئی تو انہوں نے وزیر اعلیٰ کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ان کے خلاف جس طرح کے احمقانہ بنیادوں پر مقدمات درج کیے گئے ہیں ان کو دیکھ کر یوگی انتظامیہ پر ہنسی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے۔

پچھلے سال جون میں سوریہ پرتاپ سنگھ کے خلاف لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس تھانے میں ان کے 10 جون کو کیے گئے ٹوئٹ پر آئی پی سی کی دفعہ 188، 505، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور وبائی امراض  ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا  حالانکہ سنگھ نے اپنے  ٹوئٹ میں صرف یہ پوچھا  تھا کہ ، ’’وزیر اعلیٰ یوگی کی ٹیم 11 کی میٹنگ کے بعد کیا چیف سکریٹری نے زیادہ کورونا ٹیسٹ کرانے والے کچھ ضلع مجسٹریٹوں  کی سرزنش کی کہ کیوں اتنی تیزی پکڑئے ہو، کیا انعام پانا ہے، جو ٹیسٹ ٹیسٹ چلا رہے ہو؟ اتر پردیش کے چیف سکریٹری صورتحال کو صاف کریں گے؟ یوپی کی حکمت عملی (یہ ہے کہ )   نو ٹیسٹ = نو کورونا۔‘‘ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر مقدمہ چلایا جائے؟لیکن ایف آئی آر  اس کے بعد  سوریہ پرتاپ سنگھ نے ٹوئٹ میں  کہا تھا کہ ، ’’وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، اگر 69000 اسسٹنٹ ٹیچر بھرتی معاملے پر آواز اٹھانے پر آپ مجھ سے ناراض ہیں تو اس کا بدلہ نکالنے کے لیے ایک عدد ٹوئٹ کوبنیاد بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ سیدھے اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹتے ہوئے بھی مجھ پر مقدمہ کر سکتے تھے۔‘‘

سوریہ پرتاپ سنگھ کے جواب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگی کی ڈرانے دھمکانے کی ترکیب کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔  امسال  پھر جون میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 1975 میں کانگریس کے ذریعہ نافذ کردہ ایمرجنسی کے خلاف ایک ٹوئٹ کرکے اپنی رسوائی کا سامان کیا۔  وزیر اعلیٰ  نے 25 جون 2021 کی صبح ٹوئٹ  کیا  کہ ’’سال 1975 میں آج ہی کے دن کانگریس پارٹی نے ہندوستان کی عظیم جمہوریت پر حملہ کر ملک پر ’ایمرجنسی‘ تھوپا تھا۔ میں ان سبھی پاکیزہ نفوس کو سلام کرتا ہوں جنھوں نے ایمرجنسی میں غیر انسانی مظالم کو برداشت کر کے ملک میں جمہوریت کے از سر نو قیام میں تعاون دیا تھا۔‘‘ اس کے جواب میں  سبکدوش آئی اے ایس سوریہ پرتاپ سنگھ نے طنزاً کہا تھا  کہ ’’یو پی میں آج ایمرجنسی سے کیا کچھ کم ہے، یوگی جی؟ فرضی این ایس اے، فرضی انکاؤنٹر، ایماندار میڈیا اور سوشل ایکٹیوسٹ پر فرضی مقدمے کسی کو نظر نہیں آتے؟ بے روزگار نوجوانوں و کسانوں پر ظلم، لاکھوں اموات، لاتعداد چِتائیں، گنگا میں بہتی-ریت میں دفن لاشیں؟ بے روزگاری، مہنگائی کی آفت اوپر سے۔‘‘ ویسے سوریہ پرتاپ سنگھ تو خوش قسمت ہیں جو ابھی تک باہر ہیں  جبکہ  سابق آئی جی امیتابھ ٹھاکر کو تو یوگی نے جیل بھیج ہی دیا ہے۔

یوگی نے اپنے گرو مودی سے ذرائع ابلاغ کو قابو میں رکھنے کا فن خوب سیکھا  اور اس کا استعمال کرکے انڈیا ٹوڈے کے موڈ آف نیشن میں لگاتار چار بار بہترین وزیر اعلیٰ کا خطاب حاصل کیا مگر کورونا کی دوسری لہر کے بعد  یہ  ناممکن ہوگیا ۔  جنوری کے اندر یوگی  کی مقبولیت  لوجہاد اور تبدیلیٔ مذہب کے خلاف  فرقہ پرستانہ قوانین کے سبب  تھی  ۔ اس پر عدالتی  روک اور ہاتھرس میں جبرِ  عظیم کے باوجود وہ پہلے نمبر پر تھے جبکہ جگن موہن ریڈی کو ہٹا کر ممتا بنرجی  تیسرے نمبر پر آگئی تھیں ۔ ان کے درمیان دہلی کے اروند کیجریوال تھے۔  یہ بھی خاص بات ہے پچھلے سال اگست اور اس سال جنوری کے دوران یوگی مقبولیت میں دس فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی یعنی یہ 49 فیصد سے گھٹ کر 39 فیصد پر آگئی تھی۔  اس کے بعد کورونا کی دوسری لہر نے یوگی بھٹا بٹھا دیا اور ان کی مقبولیت مزید دس فیصد کم ہوگئی اور اب وہ  پہلے نمبر سے ساتویں نمبر پہنچ گئے ہیں  ۔ اس طرح پانچویں مقام پر آنے والی ممتا بنرجی نے انہیں پچھاڑ دیا ۔

مقبولیت کے میدان میں پچھڑنے والے مودی اور    یوگی  اکیلے نہیں ہیں ۔ اس بار پہلے پانچ وزرائے اعلیٰ میں بی جے پی کا ایک بھی وزیر اعلیٰ نہیں تھا ۔ اس کے بعد والے پانچ میں بھی  دوکانگریسی اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا ایک ہے۔  ملک کے دس مقبول ترین وزرائے اعلیٰ میں صرف دو بی جے پی وزرائے اعلیٰ اور وہ بھی چھٹے اور ساتویں  نمبر پر اس بات کا ثبوت ہے کہ کمل کی مقبولیت تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ عوام کے سامنے ان کی حقیقت کھلنے لگی ہے ۔ لوگ ان کے نکمے پن  کا احساس کرنے لگے ہیں ۔  اس تناظر میں بی جے پی کے سامنے اترپردیش کا انتخاب ہے۔ بی جے پی اگر مغربی بنگال کی مانند اترپردیش بھی ہار جاتی ہے تو 2024کے قومی انتخاب میں اس کا گھنٹہ دھار ہوجائے گا  اور مودی جی  کے سامنے قبل از وقت سبکدوش ہونے کا سنکٹ آن کھڑا ہو گا ۔ خیر اترپردیش کا انتخاب تو سامنے  ہے اور قومی انتخاب بھی دور نہیں ہے۔  اب یہ  دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا  کہ ان دونوں انتخابات  میں کون اقتدار حاصل کرتا ہے  کون جیل میں جاتا ہے؟  وزیر اعظم کی   سالگرہ کے جشن کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.