Baseerat Online News Portal

بابری مسجد: رب کا فیصلہ ابھی باقی ہے !

 

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن

بابری مسجد ظلم و ناانصافی کی ایسی داستان ہے جو ہزاروں بےگناہ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے
جس میں کچھ اپنوں کی بےحسی تھی اور غیروں کے ظلم ۔۔۔۔۔۔

تین گنبدوں کی بنی بابری مسجد مغل سلطنت کے پہلے بادشاہ بابر زہرالدین بابر نے سن 1528 میں اترپردیش کے فیض آباد کے مقام ایودھیا میں اپنے گورنر میرباقی میر اسواہی کی نگرانی مین سرکاری خزانے سے تعمیر کروائی تھی ۔۔۔۔۔۔
بابری مسجد فن تعمیر کا ایک عظیم و شان شاہکار تھی
پوری مسجد کو پتھرون اور چھوٹی اینٹون سے تعمیر کیا گیا جس میں صحن بھی شامل تھا جہاں ایک کنواں بھی بنایا گیا، چھت کے ساتھ تین گنبد بھی تعمیر کرائے گئے جس مین درمیانی گنبد بڑا اور اس کے دائیں بائین دو چھوٹے گنبد تھے اس کو چونے سے پلاسٹر کروایا گیا تھا اور مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے اس کی چھت کو اونچا بنایا گیا ، روشنی اور ہوا کے لئے جالی دار کھڑکیاں نصب کی گئی
مسجد میں بیک وقت ساڑھے 800 نمازی کھڑے ہوسکتے تھے
اندرونی تعمیر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ مہراب مین کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصہ مین باآسانی سنا جاسکتا تھا
تعمیرمسجد کے بعد مسلسل مسجد میں اذان ہوتی رہی اور ہرسو
اللہ اکبر کی صدائیں گونجا کرتی تھین ساڑھے تین سو سال یہان پر باقاعدہ نمازیں بھی پڑھی جاتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران فرقہ پرستوں کی شیطانی نظریں اس پہ گڑھ گئی ۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے 2 سال بعد 22 اور 23 دسمبر 1949 بروز جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت ابھے رام داس اپنے 50 چیلون کے ساتھ مسجد مین گھُس گئے اور عین مہراب کے نیچے مورتی رکھ دی گئ اور یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مورتی خود نمودار ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہان سے شیطانی کھیل کا آغاز ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
ہندوؤن نے اس مورتی کی پوجا کرنی چاہی لیکن مسلمان مسجد مین مورتی پہ اعتراض کرنے لگے اور یہیں سے تنازع طول پکڑنے لگا ۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد 29 دسمبر 1950 کو سٹی مجسٹرڈ مارکنڈے سنگھ نے حالات کو جون کا تون برقرار رکھتے ہوئے مسجد کی عمارت کو سرکار کی تحویل میں لینے کا حکوم دیا اور مسجد مین داخلے پر پابندی عائد کرتے ہوئے مسجد کو تالا لگادیا گیا جبکہ مورتی اندر ہی رہ گئی ۔۔۔۔۔
اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک بابری مسجد متنازع رہی ۔۔۔۔۔۔
اس دوران وقتا فوقتاً
ہندو بابری مسجد کی اس جگہ کو رام کی جائے پیدائش ہونے کا دعوی کرتے رہے ۔۔۔۔۔
ایکم فروری 1986 فیض آباد ضلع جج ” کے ایم پانڈے نے رمیش نامی شخص کی درخواست پہ
ہندووں کو پوجا کی عام اجازت دے دی، یہ کہتے ہوئے کہ مورتی باہر سے بھی نظر آرہی ہے اس لئے مسجد کو تالا بند رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے کے فورا بعد 40 سال سے بند بابری مسجد کا تالا بغیر کسی تاخیر کے 9 بج کر 19 منٹ پر پوجا کے لیے کھول دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
اُس وقت ایک طرف ہندوؤں مین خوشیان منائی جارہی تھی تو دوسری جانب مسلمانوں میں ماتم پسرا تھا ۔۔۔۔
اور 9 نومبر 1989 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بھی بابری مسجد کے نزدیک سنگ بنیاد کی اجازت دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں آزادی کے بعد سے مسلمان جس کانگریس کو اپنی امان مان رہے تھے اُس نے اپنا سوتیلاپن دکھا ہی دیا اور سیکولرزم کے سارے دعوے تاش کے پتون کے مانند بکھر گئے ۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ دن بھی آیا جب
پچیس ستمبر 1990 میں بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اتر پردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد 1991 میں بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ وزیراعلی مقرر ہوئے یہاں سے رام اور مندر کی ایک نئی سیاست کا آغاز ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
انتہا پسند ہندوؤں نے بھی موقعہ کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے رام کے نام پر دو لاکھ ہندو کارسیوکوں کو لے کر ایودھیا پہنچ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران مرکز سے اچھی خاصی تعداد مین فوج بھی ایودھیا پہنچ گئ ۔۔۔۔ فوجی دستوں کو مسجد کی حفاظت کے لئے مسجد کے چاروں طرف پھیلا دیا گیا لیکن انہیں وزیراعظلم کی جانب سے سخت ہدایت تھی کہ کسی بھی حال مین ہندوؤں پر گولیاں نہیں چلائی جائیں ۔۔۔۔۔۔
چنانچہ 1992 کو انتہاپسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کردیا
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی اور اوما بھارتی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ جو بابری مسجد شہید کرنے کی تحریک چلائی تھی وہ اپنے اس گندے مقصد مین کامیاب ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔
6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے ا علیٰ رہنماؤں کی سرپرستی میں ہندستان بھر سے تقریباً دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی اور ہتھیار سے لیس 11 بج کر 55 منٹ میں بابری مسجد پر دھاوا بول دیا ۔۔۔۔۔۔۔
پولس فورس کے آگے مسجد کی در ودیوار کو توڑتے رہے اور ان میں چند دہشتگرد مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور گنبد کو شہید کرنا شروع کردیا اس طرح بغیر کسی مذمت کے پوری آزادی و سرکار کی پشت پناہی کے ساتھ شام کے 4 بجے تک پوری مسجد کو شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئ ، دہلی سمیت ہندوستان کے مختلف مقامات پر ہندو مسلم فسادات رونما ہوئے جن میں تقریبا 3000 تین ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد کے انہدام کے 28 برس بعد 30 ستمبر کو لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے بابری مسجد انہدام کیس میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کردیا یہ کہتے ہوئے کہ استغاثہ نے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ جبکہ وہاں موجود صحافیوں نے اور چشم دید گواہوں نے موقعہ کی تمام تصاویر اور ویڈیو آڈیو کلپس پیش کی تھیں جنہیں سرے سے مسترد کیا گیا ۔۔۔۔۔۔
کیس میں بری ہونے والے ایک ملزم جئے بھگوان گوئل نے عدالت کے باہرمیڈیا سے کہا کہ ”ہم نے مسجد توڑی تھی، عدالت اگر ہمیں مسجد توڑنے پر سزا بھی دیتی تو ہم اسے قبول کرتے اور ہمیں خوشی ہوتی۔ عدالت نے ہمیں سزا نہیں دی، یہ ہندو دھرم کی فتح ہے۔” اس موقع پر جئے شری رام کے نعرے بھی لگائے گئے ۔۔۔۔۔۔۔
اور واقعی میں یہ وقت ملک میں ہندوتوادی فسطائی طاقتوں کی جیت کا دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہیں نہ کہیں بابری مسجد کا فیصلا اُسی وقت ہوچکا تھا
لیکن مسلمانوں کو جان بوجھ کر جھوٹی تسلی کی تھپکیاں دیتے ہوئے
اگست 2019 کے آغاز میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حوالے سے فیصلہ سنانے کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کا آغاز کیا گیا اور اعلان کیا کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی ملازمت سے سبکدوشی سے قبل 17 نومبر تک فیصلہ سنادیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر کار وہی ہوا 28 سالہ طویل انتظار کے بعد 9 نومبر 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ سناتے ہوئے مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین کی بھیک دے دی گئ اور مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے اور مسجد کسی دوسری جگہ تعمیر کرنے کا حکم دے دیتے ہوئے انصاف کا قتل کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو تاقیامت تاریخ میں سیاہ دن مانا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال یہ دنیاوی عدالت کا متعصبانہ فیصلا ہے لیکن کائنات کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلا آنا ابھی باقی ہے اور مسلمانوں کے لئے بابری مسجد کی جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی بابری مسجد اینٹ پتھر میں نہیں مسلمانوں کے دلوں میں بسی ہے یہاں سے نکال پانا ناممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.