Baseerat Online News Portal

باکمال ادیب اور بے مثال استاذ: مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ

از قلم: عبد الرحمن قاسمی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آسمان علم و معرفت کا نیر تاباں ، علم وادب کا بے تاج بادشاہ ، قلم و قرطاس کا دھنی، زود قلم ، زود نویس، عظیم شخصیت کا حامل ، بے شمار خصایص و اوصاف کا مالک، زہد و تقویٰ، بزرگی و نیکوکاری کا پیکر ، عاجزی و انکساری سے مرصع، اعلی دماغ کا حامل، مدبر و مفکر ،ادیب زماں مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی کے شاگرد رشید ،مفکر اسلام مولاناابو الحسن علی میاں ندوی کے چہیتے، ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن ، مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے سینیر استاذ ، ماہ نامہ الداعی کے ایڈیٹر ، مختلف امتیازی اسنادکے ساتھ خصوصی ایوارڈ پانے والے حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی نور اللہ مرقدہ آج(20/رمضان المبارک 1442ھ مطابق 3/مئی 2021ھ) بہ وقت سحر بستر مرگ پر سحر گاہی کرتے ہوئے رب حقیقی سے جا ملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون!
ہمہ جہت شخصیت
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، آپ بیک وقت ایک عالم دین ، مصنف و مؤلف ، صحافی و مضمون نگار ،بہترین تجزیہ نگار اور گوناگوں خصوصیات و امتیازات سے سرشار تھے، آپ ایک حقیقی معلم اور مشفق باپ کے مثل تھے -جن کا سایہ نہ معلوم کتنے ہم جیسے بچوں کے سر سے اٹھ گیا اور یتیم کر گیا -آپ کی ذات ہر میدان میں منفرد نظر آتی ہے، آپ کی شخصیت ہمہ گیر تھی اور آپ خود اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
آپ کی ادبی تحریریں
آج سے 8/سال قبل جب راقم الحروف مادر علمی مدرسہ منبع العلوم مادھوپور میں فارسی پنجم میں داخلہ لیا اور پڑھای شروع ہوئ تو سب سے پہلے موجودہ جن عظیم شخصیات کی کتابیں درس نظامی میں شامل تھیں اور پڑھائی جاتی تھیں وہ عبقری اور عظیم شخصیات دو تھیں ایک سابق شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی اور دوسرے آپ کی – مفتی سعید صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی آسان صرف اور آپ کی مفتاح العربیہ ، آہ ! مفتی سعید احمد صاحب تو گذشتہ سال ہی اسی ماہ مبارک میں الوداع کہہ گئےاور دیکھئے آپ بھی اسی ماہ میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے ، یقیناً ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے یہ عظیم خسارہ ہے۔
آپ کی تصنیف
درس نظامی میں شامل کتاب مفتاح العربیہ پڑھنے کے وقت سے ہی آپ کےدید اور آپ سے پڑھنے کی خواہش رہی،سال اول عربی میں مفتاح العربيہ الجزء الثانی پڑھنے کا اتفاق رہا ، آپ کی یہ کتابیں نہایت ہی عمدہ اور عربی پڑھنے والوں کے لیے معین و مددگار ہے ، عربی اول کے سال درس گاہ میں بھی آپ کا ذکر حضرات اساتذہ کی زبانی سننے کا موقع ملتا رہا اور دل آپ کی زیارت اور بالمشافہہ ملاقات کے لیے ترستا رہا عربی اول ہی کے سال جمعرات کے دن اصلاحی مجلس میں حضرت الاستاذ مولانا عزیز الرحمن صاحب قاسمی مٹھیا ،نیپال استاذ مدرسہ منبع العلوم مادھوپور نے ہم طلباء کو وعظ کرتے ہوئے ارود زبان سیکھنے کے لیے آپ کی تصنیف کردہ کتاب پس مرگ زندہ کی رہنمائی فرمائی، راقم الحروف نے یہ کتاب ایک ساتھی سے طلب کی اور اس کے چند صفحات کا مطالعہ کیا ،پر پس مرگ زندہ کے اردو تعبیرات اور محاوات راقم الحروف کے لئے مشکل اور پیچیدہ ثابت ہوے ، راقم الحروف نے یہ کتاب طاق نسیان میں رکھ دیااور کہا :
’’کچھ اور سوجھ بوجھ ہوجائے تو پڑھوں گا‘‘۔
اس کے علاوہ حرف شیریں وغیرہ آپ کی تصانیف بذریعہ ڈاک دیوبند سے زیر تعلیم مدرسہ منبع العلوم مادھوپور منگا لیا ،وقت گذرتا گیا ، عمر ڈھلتی گئی اور کلاس بڑھتی گئی ، بالآخر گذشتہ سال جب بندہ دورہ حدیث شریف میں تھاتو آپ کی اس کتاب پس مرگ زندہ کو حرف بہ حرف پڑھا، الفاظ کے ذخائر، تعبیرات اور اس کے ششتہ جملوں کو نہ صرف کاپی میں نوٹ کیا بلکہ استعمال میں بھی لایا ، اور آپ کی تحریروں سے کچھ تحریر لکھنا سیکھا ، گذشتہ سال لاک ڈاؤن میں شخصیات کے مطالعہ کے دوران پس مرگ زندہ سے چنیدہ اکابر اور شخصیات میں سے ،15/عظیم شخصیات کے سوانحی نقوش اور ان کی تصنیفی خدمات پس مرگ زندہ کی ہی روشنی میں تلخیص کرکے لکھا اور سوشل میڈیا پر نشر بھی کیا ، الحمدللہ خوب پذیرائی ہوئی اور دعاؤں سے بھی نوازا گیا۔
آپ !ادیب العصر مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف پڑھیں تو آ پ یہ ضرور محسوس کریں گے کہ مولانا کی زبان میں عجیب کشش اورچاشنی ہے ، سحر انگیزی اور سلاست کہ کیا کہنے ! حضرت امینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کا ہر پیراگراف ادب سے معمور اور الفاظ و تعبیرات سے لیس ہوتا ہے ، پڑھنے والا پڑھتا رہ جاتا ہے ،چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ، آپ پس مرگ زندہ کے اس تراشہ کو پڑھیے اور سر دھنیے…
مولانانور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں…. ’’وہ شب بیدار اہل دل اور خوش اوقات عالم دین تھے،مشاغل کی بے پناہی ،کبھی باجماعت نماز میں خلل انداز ہوتی تھی نہ شب بیداری ، تہجد گذاری اور آہ سحر گاہی میں، وہ صحیح معنی میں فارس بالنہار اور راہب باللیل تھے ؛کیوں کہ وہ جن اساتذہ کے شاگرد تھے،وہ صرف حرف علم کے پجاری نہ تھے؛بلکہ وہ علم و عمل دونوں کے شہسوار تھے ؛اس لیے ان کی گود میں پلا بڑھا ہر عالم صحیح معنی میں علم و عمل کا جامع ہوتا تھا ،حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی دہلوی اس کی نمایاں مثال تھے -اس راقم نے ان کی انتہائی کم زوری ، پیرانہ سالی اور بیماریوں کی مسلسل یلغار سے،انھیں زار و نزار رہنے کا دور دیکھا ہے؛لیکن وہ جہاں ہوتے ،جس حال میں ہوتے ، موسم جاڑے کا ہو یا لو کا،برسات کی جھڑی ہو یا رات کی تاریکی وہ اپنی چھڑی ٹیکتے ہوئے مسجد پہنچتے اور با جماعت نماز ادا کرتے -عبادت کا ذوق،ذکر الٰہی کا شوق ،تلاوت اور اورادوِظایف کی پابندی ،ان کی ذات کا امتیازی وصف تھا -مدرس و فقیہ و مفتی ومحدث، و مؤلف و سیاسی میدان کے سرگرم قائد مولانا سید محمد میاں ، در اصل ایک متقی ، خدا ترس اور زاہد و اواب عالم دین تھے ،ان کی زندگی کا یہی وصف در حقیقت سب سے زیادہ نمایاں اور ان کی عظمت کے ہار کا سب سے قیمتی موتی ہے کہ اس کے بغیر سارے کارنامے لفظ بے معنی اور نقش نا تمام ؛بلکہ سعی ناکام ہوتے ہیں : علامہ اقبال نے صحیح کہا ہے:
عطار ہو،رومی ہو ،رازی ہو ،غزالی ہو۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا ، بے آہ سحر گاہی
(دیکھیے:پس مرگ زندہ ص/43-44مط،ادارہ علم وادب،دیوبندتیسرا ایڈیشن:رجب المرجب 1431ھ مطابق جون 210ء )
آپ اس تراشے کو پڑھنے کے بعد بہ خوبی اس چیز کا ادراک کر گیے ہوں گے کہ کتاب کے ایک تراشہ کا یہ عالم ہے تو مابقیہ آپ کی کتاب اور تحریروں کا کیا عالم ہوگا؟ آپ کی اردو تحریریں جس طرح مقبول ،قابل استفادہ ہیں،اس سے کہیں آپ کی عربی تحریرات، نکات ،استعارات ،تشبیھات اور تعبیرات لائق تقلید ،قابل استفادہ ہیں- راقم الحروف حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بد قسمتی سے شرف تلمذ حاصل نہ کرسکا ،البتہ آپ کے کامیاب اور مایاناز شاگردوں سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے ،جن میں حضرت الاستاذ مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی،اور حضرت مولانا و مفتی محمد سجاد حسین قاسمی دامت برکاتہم العالیہ قابل ذکر ہیں ، مولانا نور عالم خلیل امینی کے پڑھانے کا انداز ، طریقہ کار اور اسلوب آپ کے شاگردوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، راقم الحروف آپ کی وفات سے ڈیڑھ ماہ قبل مولانا ساجد حسن رحمانی ،فاضل دارالعلوم دیوبند کی معیت میں آپ سے بالمشافہہ ملاقات کیا، آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی علمی کاوشوں اور بکھری تحریروں کو آنگن میں بیٹھ کر قلم و قرطاس ہاتھ میں لیے ہوئے جمع کر رہے تھے،راقم الحروف کی یہ ہی پہلی اور آخری بالمشافہہ ملاقات ٹہری، آپ پندرہ بیس دنوں سے بیمار تھے ، کل /3:45 بہ وقت سحر روح افسردہ اور غم ناک خبر ملی کہ آپ نہ رہے ، اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے ، جنت میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

Comments are closed.