Baseerat Online News Portal

بغیر سند کے تعلیم یافتہ

محمد عارف خان اکوڑہ خٹک
تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا صرف مردوں پر لازم نہیں۔ بہن، بیٹی، بیوی اور ماں کو امور خانہ داری اور ضروری مسائل سے آگاہ کرنا بلکہ عملی تربیت اور تعلیم دینا ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ ایک لڑکے کی تعلیم سے فائدہ صرف اس کے والدین یا بہن بھائی حاصل کر لیتے ہیں جبکہ لڑکی کی تعلیم سے پورا گھر بلکہ پورا خاندان مستفید ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائیں، ہماری دادی کو، جو مروجہ علوم سے ناآشنا تھیں، مگر گھریلو اور خاندانی تمام معاملات کی نگرانی خود کرتی، تعلیم و تعلم سے اتنا لگاؤ تھا کہ رات کو سوتے وقت قصے سناتی، کبھی کبھار اشعار سناتی، جن میں کئ اشعار ابھی تک مجھے ازبر ہیں، تقریبا 2002 میں ان کی وفات ہوئی تھی لیکن ان سے سنے اشعار ابھی تک ذہن میں ہیں۔ قبر کے متعلق اکثر ایک شعر سنایا کرتی تھی کہ :
’زہ چہ جوندے ووم تاسو ویشتے ووم پہ کانڑو،اوس م سہ لہ خکلوئ د قبر کانڑو
(جب زندہ تھا تو پتھروں سے مجھے مارتے، اے قبر کے پتھروں اب کیوں پیار کرنے لگے ہو)
ہمارے بڑے جتنے بھی گزرے ہیں وہ بغیر رسمی تعلیم کے نہایت اعلیٰ پڑھائی، قصائد، اشعار، رحمان و خوشحال بابا کے دیوان کا اکثر حصہ، قرآنی سورتوں میں سورہ یس، رحمان، واقعہ،ملک اور اکثر آخری سورتیں جبکہ مشہور فاطمہ نامہ ، عہدنامہ وغیرہ زبانی یاد ہوتیں تھیں اور پڑھائی کیا کرتیں تھیں۔ رات کو دادی اماں کے کمرے میں چلے جاتے تو وہ اپنے ہاتھوں سے روزمرہ استعمال کی چیزیں بناتی جس سے ان کا گزر بسر ہوتا تھا کیونکہ ہمارے دادا تقریباً 1989 میں انتقال کر گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 1997 تک ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی، نماز مغرب کے بعد دادی کے کمرے میں جاتے تو وہاں ایک لالٹین ہوا کرتا تھا۔دادی اپنی کمائی سے اس میں مٹی کا تیل ڈالتی تھی، وہ کھڈی کیا کرتی اور شاید ہم کتاب کی پڑھائی میں مصروف ہوتے۔ عشاء تک قصے اور کہانیوں میں وقت گزر جاتا اور تاریک کمرے میں نماز پڑھ لیتے۔ایک مرتبہ میرا بھائی کسی امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو رات دیر تک مطالعے میں مشغول رہا جس کی وجہ سے لالٹین میں تیل ختم ہوگیا۔ دوسرے دن دادی کو پتہ چلا تو میرے بھائی سے کہنے لگی "نوسیہ! بيگا د ٹول تيل راته خلاص کڑی نن به راته تيل راوڑی” کہ میرے نواسے! رات کو آپ نے لالٹین کے سارے تیل جلائے اور ختم کیے تھے، اب میرے لیے تیل لاؤ گے۔پھر چار و نا چار لانے کا ذمہ میرا تھا کہ چھوٹا تھا۔ دوکان سے تیل لاتا۔گھر کی ضرورت کی چھوٹی چیز ہوتی یا بڑی، دادی کے پاس موجود ہوتی، دادی نے کچھ مرغیاں پال رکھی تھیں، جن کی انڈوں پہ ہمارا جھگڑا ہوتا۔ ایک روپے کا ایک کبھی کبھار دو انڈے بھی مل جاتے تھے۔ لیکن یہ بات یقینی تھی کہ کسی کے سہارے زندگی بسر کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ جس چیز کی بھی ضرورت ہوتی اپنے بکس کو کھولتی اور پیسے نکالتی، جس سے اپنی ضرورت پوری کرتی۔خوددار اور مخلص لوگ تھے جو کسی کے بل بوتے زندگی بسر نہ کرتے۔ علم و عمل سے بھرپور زندگی گزاری۔ گھر کے اکثر معاملات میں ان کے مشورے کے بغیر کام نہ ہوتے تھے۔ گھریلو زندگی ہویا رشتہ داروں کی غمی و خوشی ہر موقع پر ذمہ داری سے اپنے فرائض نبھاتی، اولاد کی الگ جبکہ نواسوں اور نواسیوں بلکہ پوتوں اور پوتیوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہاں بات لمبی ہوئی اور یاد آیا کہ میں دادی کی شعر و ادب سے لگاؤ کی بات کر رہا تھا، تو اس سے پشتو کا یہ شعر بھی سنا تھا، چونکہ رمضان اور پھر عید کا موقع ہے وہ شعر:اختر پہ ٹوقو ٹوقو راغلو نہ م اوگئ شتہ نہ د غارے تعویزونہ
(پلک جھپک میں عید سر پہ آئی جبکہ میرے تو عید کے ملبوسات ہیں اور نہ زیورات)

Comments are closed.