Baseerat Online News Portal

بلی کی گردن میں گھنٹی باندھے گا کون؟

 

نور اللہ نور

یوں تو ہمارے گردو پیش میں ساری چیزیں مہنگی ہے مگر ایک چیز ہے جو اس مہنگائی کے دور میں بھی با آسانی بلکہ یوں کہ لیں کہ مفت میں مل جائے گی اور وہ ہے ” مشورہ” یہاں پر مفت میں دستیاب ہے اور شوشل میڈیا کی مارکیٹ میں عمدہ اور بہترین مشورے آپ کو اونے پونے بھاؤ میں مل جائیں گے۔
مگر اس کے برعکس جو چیز نایاب پائیں گے وہ ہے ان آراء کو عملی جامہ پہنانا، عملی طور پر اس کا لائحہ عمل پیش کرنا ، آپ کو مشورے مل جائیں گے مگر عملی طور جب اس کا حل دریافت کریں گے تو لوگ چراغ پا ہو جائیں گے کہ ہم مشورہ بھی دیں ، ہم راستہ بھی دکھائیں اور چلنا بھی سکھائیں؟
ہمارے معاشرے اور قوم میں یہی کچھ چل رہا ہے ملی مسائل کے حل کے نام پر جاندار طرز تحریر اور شاندار فصیح اردو میں بڑے بڑے مضامین لکھے جا رہے ہیں ، بہترین آرائیں آرہی ہیں مگر ان کا عملی حل کبھی پیش نہیں کیا گیا ، جو لوگ تحریر میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں زمینی سطح پر ان کی کارکردگی ندارد اور صفر کے درجے میں ہے۔
جو لوگ اپنی تحریروں میں ملی مسائل کے حل کے نام پر ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹتے ہیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں وہ ایک بار اپنے حلقے کا جائزہ لیں اور پھر بتائیں کہ جو رائے وہ دوسرے کو دے رہے ہیں کیا عملی طور پر اس کا نفاذ انہوں نے اپنے گلی محلے میں کیا؟ جس چیز کی ترغیب دے رہےہیں کیا انہوں نے اس کے لئے کوئی سعی کی؟
یقین مانیے جتنا ہم نے اپنے رائے کو منانے اور دوسرے کو نیچا دکھانے میں قوت صرف کی ہے اگر عملی طور پر اس کو انجام دیتے تو نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔
لمبی لمبی تحریر لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ زمین پر اتر کر کام کرنا پڑتا ہے ، آپ کی بات یا آپ کی تحریر اسی وقت مؤثر ہوگی جب آپ خود آگے بڑھ کر عملی نمونہ پیش کریں گے ورنہ صرف تحریر سے تحریر اور صاحب تحریر کی پذیرائی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔
ہمارے قوم کی مثال” بلی اور چوہے” کی اس کہانی کے مثل ہے جس میں چوہوں نے بلی کی شرارت سے عاجز آکر مشورہ کیا کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے سبھوں نے عمدہ عمدہ رائے پیش کی ایک نے کہا کہ بلی کے” گردن میں گھنٹی باندھ دو!” اس پر ایک بوڑھے چوہے نے کہا کہ رائے تو اچھی ہے مگر گھنٹی باندھے گا کون؟
ہم بھی حالات سے دوچار ہیں اور مختلف مسائل سے دوچار ہیں ، وقت کے درندوں کو قبضے میں کرنے کے خواہاں ہیں جس کے لئے بہت قیمتی مشورے آتے ہیں ان کا ہم احترام کرتے ہیں اور کرنا چاہیے کیونکہ کہ یہ بے چین لوگوں کی دل کی پکار ہے مگر سوال یہی ہوتا ہے کہ اس شیر کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا اور قبضے میں کون کرے گا؟
یہ کسی ایک جماعت یہ ایک فرد کا کام نہیں بلکہ پوری قوم و ملت کا کام ہے اور اس کے لئے ہر ایک کو سعی کرنی اور اپنے حصے کا دیا جلانا ہوگا، جس کا واحد حل یہ ہیکہ ہم تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے ایک میز پر بیٹھ کر حل نکالیں اور اپنی تحریروں کے نشتر کا رخ اپنوں سے ہٹاکر دشمن کی طرف موڑ دیں! یقیناً کامیابی ہمارا مقدر ہوگیا اور حالات ہماری دسترس میں ہوگا

Comments are closed.