Baseerat Online News Portal

بنگال کی زخمی شیرنی

نازش ہما قاسمی
مغربی بنگال میں لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے سے جاری تشدد ، آتشزدگی،بم دھماکہ، املاک کےنذرآتش کیےجانے کا سلسلہ آخری مرحلے سے قبل ودیا ساگر جی کی مورتی کو توڑے جانے سے مزید بھڑک اُٹھا ہے اور ریاست میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ جاری ہے، جہاں ہندو مسلمان دونوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، نظام زندگی کو مکمل مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آتشزدگی، بم دھماکے ، لوٹ مار کا سلسلسہ ہنوز قائم ہے اور اب تک حالات قابو میں نہیں آئے ہیں، گورنر بنگال نے کہا کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو حکومت برخاست کرکے صدر راج نافذ کیاجائے گا؛ لیکن بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی حالات کو قابو میں لانے کی پوری کوشش کررہی ہیں ، عوام سے ان کے ممبران پارلیمان امن وامان کی اپیل کررہے ہیں، بنگال پولس بھی اس کوشش میں ہے کہ جلد حالات پر قابو پالیا جائے اور ریاست کو مزید پریشانی سے بچایاجاسکے؛ لیکن ایک طاقت ایسی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ بنگال کے حالات جوں کے توں رہیں، وہاں امن وامان نہ ہو اور ممتا حکومت کو برخاست کرکے علاقہ بنگال بھی ہتھیالیا جائے ۔بنگال کی شیرنی نے دوٹوک لہجے میں کہا ہے کہ ہم ’بنگال کو گجرات نہیں بننے دیں گے‘ ۔ اس دوٹوک لہجے سے کھلبلی مچی ہوئی ہے اور پوری کوشش ہے کہ بنگال کو دوسرا گجرات بنایاجائے، عوام کو ایسی تکلیفوں سے گزارا جائے جس سے برسوں ابھرنا ممکن نہ ہو۔ اقتدار پر قابض حکومت کی حصے دار پارٹی کے ترجمان اخبار نے بنگال کو گجرات بنانے کا ایک دوسرا ہی معنی اخذ کیا ہے، ممتا کے اس بیان کو اس نے منفی رخ دیا ہے ۔اس اخبار کا کہنا ہے کہ’’ گجرات نہیں بننے دیں گے اس کا کیا مطلب ہے سمجھیں۔۔کولکاتہ اور دیگر شہروں میں جو گجراتی سماج ہیں، انہیں ریاست سے باہر نکالنے کی تیاری ہے کیا؟ وزیر اعظم مودی اور شاہ گجراتی ہیں اس لیے ان کے بارے میں اس طرح کی زبان کا استعمال کرنا درست نہیں ہے، ان کا کام کرنے کا طریقہ الگ ہے‘‘ ۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کھلے طو رپر ہندو تو کے علمبردار ہیں، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی سیکولر واد کے نام پر بنگلہ دیشی مسلمانوں کی خوشامد کررہی تھیں، یہ طریقہ ان پر ہی الٹ گیا اس خوشامد کو چیلنج کرنے کےلیے بی جے پی نے جے شری رام کا نعرہ دیا اور ہندو سماج نے اپنے گھٹتے دم کو کھول دیا، مغربی بنگال میں بی جے پی کے ۱۸ ممبرپارلیمان منتخب ہوکر آئے ہیں یہ گجرات کا ہندو تو وادی پیٹرن ہے۔
ملک کے عوام گجرات سانحے کا مطلب جانتے ہیں، وہاں ہوئے ۲۰۰۲ میں فسادات کا درد جانتے ہیں ۔ یقیناً ممتا بنرجی کا اشارہ بھی اسی طرف تھا؛ لیکن یہ اخبار اور وہاں تشدد برپانے کرنے والی پارٹیاں دوسرا مطلب نکال کر ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور ممتا کی سیکولر شبیہ کو ہندو مخالف قرار دے کر اپنی روٹی سینکنے کا عمل جاری ہے ۔ ریاست سے باہر نکالنے والی ، شمالی ہند کے مزدوروں، غریب انسانوں کو ممبئی سے نکالنے کا عمل کرکے’ اَم چی ممبئی ‘کا نعرہ دینے والی پارٹی ترنمول کانگریس کو بھی علاقائی عصبیت کرنے والی سمجھتی ہے؛ حالانکہ وہاں ایسی صورت حال نہیں ہے، وہاں ہر مذہب، مسلک، قوم، علاقے کے لوگ سکون سے اپنا کاروبار کررہے ہیں، وہاں کے عوام نہیں چاہتے کہ گجرات جیسے حالات ہوں کہ ہمارا جینا دوبھر ہوجائے ، ہماری خوشیوں میں بھنگ پڑ جائے۔ ایسے میں عوام کےلیے ضروری ہے کہ وہ گودی میڈیا کی خبروں سے دوری بنائیں، وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے فارغین کی باتوں پر یقین نہ کریں اور علاقے میں امن وامان کی برقراری کےلیے بھرپور کوشش کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کی سازش کو ناکام بنائیں۔ عوام یہ سوچتےہیں کہ آخر کیوں بنگال میں سیاسی تصادم جاری ہے ، آئے دن کیوں ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے کارکنان آپس میں بھڑ رہے ہیں۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ملک میں اگر کوئی طاقت ہے جو حکومتِ وقت کو للکارتی ہے تو وہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی ہیں جو حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود اپنی کوششوں اور کاوشوں سے فرقہ پرستوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے تو دھمکی بھرے لہجے میں فرقہ پرستوں کو للکارتےہوئے کہا تھا کہ ’زخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘ واقعی ممتا بنرجی کی حالت ابھی زخمی شیرنی جیسی ہے اور ممکن ہے کہ زخمی شیرنی بدلہ لینے کےلیے فرقہ پرستوں کا بنگال میں قلع قمع کردے۔ جاری تصادم سے یہ تو اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ریاستی حکومت کو مات دینے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، انتہائی منظم طریقے سے بنگال میں یہ گیم پلان شروع کیاگیا ہے تاکہ اسے بھی گجرات بنانا آسان ہوجائے اور گجرات سے لے کر بنگال تک بھگوادھاریوں کا خوف قائم کیاجاسکے۔ اسی کے تحت لوک سبھا الیکشن کے پہلے مرحلے سے اب تک پے درپے سلسلہ وار بنگال حکومت کو پریشان کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ان پر الزامات کا دور شروع ہے، کامیاب وزیراعلیٰ کو ناکام کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے اور میڈیا یکطرفہ ایک کو راہبر دوسرے کو راہزن بنانے پر تلی ہے؛ لیکن ان سب سے مرعوب نہ ہوکر زخمی شیرنی اپنی ریاست کو بچانے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے کبھی اس پر ’جے سیا رام‘ نہ بولنے کا الزام لگایاجا رہا ہے، کبھی جے شری رام کے پوسٹ کارڈ بھیجے جارہے ہیں اور ہندوئوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ہندو ازم سے منحرف ہیں اورشعائر ہندو ازم کونہیں مانتی ہیں اس لیے ان کی حکومت ختم کرکے بھگواداری حکومت قائم کی جائے جہاں ان کے بقول جے شری کے رام نعرے لگانے کی آزادی ہو؛ حالانکہ ممتا بنرجی نے اسے سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ جے شری رام کا استعمال کرکے مذہب کو سیاست میں ڈھکیل رہے ہیں، جے سیا رام، جے شری رام، رام رام جی ، رام نام ستیہ ہے اور دیگر مذہبی نعرے ہیں؛ لیکن بی جے پی مذہبی نعروں کو اپنی پارٹی کے نعروں میں تبدیل کرکے غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئےمذہب کو سیاست میں ملا رہی ہے۔ واقعی سیاست میں مذہب کا استعمال کرکے جذباتیات کو فروغ دینا درست نہیں، ہر پارٹی کا نعرہ ہوتا ہے؛ لیکن مذہبی نعرے لگا کر دوسروں کو اس پر مجبور کرنا یہ جمہوریت میں اچھا عمل نہیں تصور کیاجاتا ہے ۔ ریاست کے عوام کو چاہئے کہ وہ فرقہ پرستی کو مات دینے کےلیے ہر سازش کو ناکام کریں اور ممتا حکومت کی بقا کو یقینی بنائیں؛ کیونکہ جمہوریت کے ٹوٹتے تانے بانے کو مضبوط کرنے میں ریاست مغربی بنگال ہی ابھی سب سے آگے ہے اور زخمی شیرنی ہی ابھی وہ واحد اپوزیشن وزیراعلیٰ ہیں جس کے تیور سے فرقہ پرست بوکھلائے ہوئے ہیں۔ فرقہ پرست ہرحال میں بنگال پر قابض ہوکر بنگال کی تہذیب، تمدن، سنسکرتی، بھائی چارگی کو بدل کر اس کی جگہ نفرت ، تعصب، فرقہ پرستی ، خون خرابہ، لوٹ کھسوٹ والی سرکار لاناچاہتے ہیں جہاں صرف عوام کا ہی نقصان ہے۔ ایسے حالات میں وہاں کے عوام کا فریضہ ہے کہ مذہبی نعروں میں الجھ کر جذباتیات سے مغلوب ہوکر کوئی ایسا کام نہ کریں جس کےلیے بعد میں پچھتانا پڑے۔

Comments are closed.