Baseerat Online News Portal

بھارت اور چین کا تجارتی یارانہ

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

سرکار کی کتھنی اور کرنی میں کتنا فرق ہے، اس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا ہی رہتا ہے، نہ جانے کتنی پالیسیاں ہیں جن پر کبھی اپوزیشن میں رہتے ہوئے سخت مخالفت کیا کرتے تھے مگر اب زلف یار کی ہوا کیا لگی کہ سارے موسم رنگین لگنے لگے، کرسی کی چمک نے اتنا مگن اور مدہوش کردیا کہ اب صرف عوام کو چِکنی چُپڑی باتیں، دیش بھکتی اور جوش و خروش کے نعرے ہی دیتے رہ گئے، مہنگائی اور معیشت کی بدحالی کے بعد ایک بڑا راز کھلا ہے، اس عشق سے پردہ ہٹ گیا ہے جس کو وہ حب الوطنی میں چھپاتے آئے تھے؛ البتہ اہل دانش تو پہلے ہی جانتے تھے کہ گھڑیال کے آنسو پر بھروسہ نہیں کرنا ہے، چین کی طاقت، اس کی مصنوعات پر ہمارا انحصار، دنیا پر اس معاشی اثر دیکھ کر تو بہر حال یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اس سے کہیں دور پڑا ہے، اس وقت بھارت کم سے کم آمدنی کی مار سے جوجھ رہا ہے، وہ افریقی ممالک کی قطار میں کھڑا ہوچکا ہے، جن کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک مری اور کوپوشن ہے، اور وہ چین جس کے متعلق یہ پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ وہ امریکی معیشت کو ٹیک اُور کر جائے گا، اس سے بھلا کیا مقابلہ ممکن ہے، اگر یہ لفاظی ہے کہ موجودہ ڈاٹا کو ہی سامنے رکھ کر صورتحال کا جائزہ لے لیجئے! اس کیا شبہ کہ گزشتہ سال سے ہی لگاتار ہندوستان اور چینی بارڈر پر تنگی جاری ہے، گلوان گھاٹی میں بیس فوجی کی شہادت، اترانچل اور اتراکھنڈ میں ان کی ہٹ دھرمی اور لداخ کی طرف پیش قدمی کا قصہ کس کے سامنے نہیں ہے، اس کے جواب میں سرکار نے ہمیشہ عوام کو اندھیرے میں رکھا، نریندر مودی کہتے رہے کہ چینی فوجی نے کوئی دخل اندازی نہیں کی ہے؛ جبکہ راجناتھ سنگھ کہہ ہے ہیں کہ فوج بھارت کی سرحد سے پیچھے ہٹ رہی ہے، اب جب کوئی اندر ہی نہیں آیا تو وہ پیچھے کیوں ہٹے گا؟ اس کشمکش کے دوران سرکار نے سینکڑوں چینی ایپس پر پابندی لگادی اور یہ پیغام دیا کہ چین ہماری پرائیویسی پر ڈورے ڈال رہا ہے، اور اب ان سے تجارت بھی کم سے کم کی جائے گی، اسی لئے آتم نِربھر بھارت کی ہُنکار بھری گئی تھی، خود کفیل ملک کا نعرہ دیا گیا تھا؛ لیکن بی بی سی رپورٹس کے مطابق سچائی یہ ہے کہ لداخ سرحد پر ہندوستان اور چین کے درمیان جھڑپوں اور اس سے پیدا ہونے والی سنگین کشیدگی کے باوجود سال ٢٠٢٠ میں چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، گذشتہ مالی سال میں بھی چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ پچھلے سال ریاستہائے متحدہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات تیسرے نمبر پر تھے۔ بھارت نے چین سے 58.7 بلین ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا، جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمدی رقم سے زیادہ تھا؛ جبکہ بھارت نے چین کو 19 بلین ڈالر کی برآمد کی ۔ چین نے ٢٠/ فوجیوں کی ہلاکت کا واقعہ تروتازہ کرنے اور ہندوستانیوں کے زخم پر مرچ لگاتے ہوئے کچھ دن پہلے اعتراف کیا ہے کہ اس مڈبھیڑ میں اس کے صرف چار فوجی ہی مارے گئے ہی؛ اگرچہ ہندوستان کا دعوی ہے کہ اس میں چینیوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ملک کی محبت اور چین سے نفرت کے بلند بانگ دعوؤں کے درمیان تجارتی تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ چھوٹے موٹے تمام اقدامات کے باوجود چین پر انحصار کم نہیں ہوا ہے، اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان اور چین کے مابین دوطرفہ تجارت گذشتہ سال 77.7 بلین ڈالر تھی جو وزارت تجارت کے عارضی اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے 85.5 بلین ڈالر سے قدرے کم تھی۔ دوسری جانب ہندوستانی حکومت نے چینی سرمایہ کاری کو ایک بار پھر منظوری دے دی ہے؛ ویسے بھی چین ہندوستان میں کبھی بھاری سرمایہ کار نہیں رہا، چنانچہ اگرچہ ہندوستان چین کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے اور خود کفیل ہونے کے بجائے اس پر منحصر ہورہا ہے مگر چین لگاتار یہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھارت سے سامان کم سے کم منگوائے، یہ گویا شراکت داری نہیں بلکہ بھارت یک طرفہ چین کی جانب جھکتا دکھائی دیتا ہے، ذرا اسی سے اندازہ لگائیں کہ چین نے 2013 سے 2020 کے درمیان ہندوستان میں 2.174 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ رقم ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ وزارت تجارت کے مطابق سال 2020 میں اپریل اور نومبر کے درمیان 58 ارب ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہندوستان میں آئی۔ دہلی کے فور اسکولز مینجمنٹ میں چینی امور کے ماہر ڈاکٹر فیصل احمد کا کہنا ہے؛ کہ خود کفیل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درآمدات رک گئیں یا غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں نہ آئے۔ بھارت اس وقت بھاری مشینری، ٹیلی مواصلات کے سامان وغیرہ کے سلسلہ میں چین میں تیار کردہ آلات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور چین سے درآمد ہونے والے سامان کا ایک بہت بڑا حصہ اسی سے متعلق ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے ساتھ 2020 میں دو طرفہ تجارتی فرق تقریبا 40 بلین ڈالر تھا۔ اتنا بڑا تجارتی عدم توازن کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں ہے۔ تفصیلات بی بی سی ہندی اور The quint ہندی پر دیکھی جاسکتی ہیں، اگر تمام ڈاٹا کو سامنے رکھا جائے تو کہیں سے کہیں تک یہ محسوس نہیں ہوتا کہ بھارت کو چین کے ساتھ کبھی کوئی دقت رہی ہے، اب پریشانی یہ بھی ہے کہ امریکہ کی صورتحال بدل گئی ہے، ٹرمپ کی جگہ بائیڈن ہیں جن کی پالیسیاں ہندوستان کے موافق ہوں یہ ضروری نہیں، عالمی سطح پر بے اعتباری کے بعد پڑوسی ملک کی طرف دوبارہ برائے مجبوری ہاتھ بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، مگر دیکھنے سننے اور سمجھنے والوں کے لئے عبرت ہے کہ ملک کی اعلی کمان کس طرح دیش بھکتی کو استعمال کرتی ہے، مفاد کے سامنے جذبات کی دیوار ریزہ ریزہ ہوکر رہ جاتی ہے اور جوش پر برف باری ہونے لگتی ہے۔

 

 

 

Comments are closed.