Baseerat Online News Portal

بہادری اور ایمانداری کا انعام

شہناز عِفّت
ممبئی
شہیر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ وہ ایک سیدھا سادا، ملنسار اور خوش اخلاق لڑکا تھا۔ وہ خودپسندی اور بیکار کے کھیل کود سے بہت دور رہتا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں اس کے والد کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ۔کوئی بھائی بہن نہ ہونے کی وجہ سے اب گھر کی پوری ذمہ داری شہیر کے نازک کاندھوں پر آگئی، اسی وجہ سے اسے اپنی پڑھائی بھی چھوڑنی پڑی ۔کم عمری میں اچانک اتنی بڑی ذمہ داری سر پر آجانے کی وجہ سے وہ گھبرا گیا اور سوچنے لگا کہ اب ہمارا کیا ہوگا۔ہمارا تو اب کوئی سہارا بھی نہیں ہے ۔ مگر پھر اس نے اپنے دل کو دلاسہ دیا کہ اللّہ تعالیٰ نہایت کریم ہے ،رحیم ہے۔ یہی سوچتے سوچتے اسے تلاش معاش کی فکر ہوئی ۔ ذریعہء معاش کی تلاش میں وہ ہرروز در بدر کی ٹھوکریں کھاتا، مگر لاکھ کوشش کے باوجود اسے کہیں بھی کام نہیں ملتا ۔ لہذا وہ ہر شام اداس چہرہ اورغم و ملال میں ڈوبا ہوا دل لے کر گھر آجاتا ۔ ہر وقت یہی بات اس کے ذہن میں گردش کرتی رہتی کہ میں اپنی ماں کی تکلیف کس طرح دور کروں۔شہیر کا اداس چہرہ دیکھ کر اس کی والدہ اس کو دلاسہ دیتیں اور کہتیں کہ اللّہ تعالیٰ سے ہر حال میں امید رکھو ۔اس نے پیدا کیا ہے تو وہ رزق بھی دے گا ۔ اور وہی کوئی اسباب پیدا کرے گا ۔ وہ تو سمندروں میں مچھلیوں اور پتھروں کے اندر کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق دیتا ہے، لہذا ہمیں اس کی ذات سے نا امید نہیں ہونا چاہئے ۔ وہ ہر حال میں ہمیں رزق دے گا ۔ اور ہماری مدد کرے گا ۔ وہی سب کا خالق و مالک اور رزق دینے والی صرف وہی ایک ذات ہے ۔

ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انسان ہر حال میں ایمانداری کو برتے،کیوں کہ بھلے ہی آپ کے آس پاس کا انسان آپ کے غلط کاموں،آپ کی چوری اور بے ایمانی کو نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے،لیکن آپ کا اللّہ ،آپ کا خالق و مالک وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اور یقیناً جزا اور سزا دینے والا وہی مالک و خالق ہے۔اس لئے ہر حال میں ایمانداری کو اپنا نصب العین بنانا چاہئے،صرف اللّہ کی رضا کی خاطر برے کاموں سے بچنا چاہئے اور نیک کاموں پر عمل کرنا چاہئے

شہیر کو اپنی ماں کی ان باتوں سے حوصلہ ملتا اور اس کا دل ایک بار پھر امید کی کرن سے جگمگا اٹھتا ۔ لہذا وہ اللّہ کی ذات سے امید رکھتا اور دعا کرتا۔ایک دن شہیر بہت پریشان ہو گیا ۔ اس کی پریشانی دیکھ کر اس کی ماں نے کہا بیٹا تو گاؤں سے اب شہر جا کر تلاشِ معاش کی فکر کر اور کوئی ڈھنک کی نوکری کر لے۔ لہذا شہیر اپنی ماں کی باتوں پر لبیک کہتے ہوئے سامانِ سفر تیار کیا اور ماں کی دعا لیتے ہوئے گھر سے نکل پڑا ۔ وہ گاؤں کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر پہونچا اور شہر جانے کےلئے ٹرین کا ٹکٹ لے لیا ۔ شہیر ٹرین کے ڈبے کے ایک گوشے میں خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ٹرین آہستہ آہستہ چھک چھک کی آواز کے ساتھ اسٹیشن سے دورہونے لگی۔ ٹرین پوری رفتارسے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔ کچھ دیر بعد ٹکٹ چیکر آیا اس نے کرخت آواز میں شہیر سے ٹکٹ مانگا ۔ شہیر نے ٹکٹ دکھایا پھر ٹکٹ چیکر دوسروں کے ٹکٹ چیک کرنے لگا۔
شہیر کی سیٹ کے قریب ایک ساہوکار کی بیوی بیٹھی تھی جس کے گلے میں سونے کی ایک قیمتی چین پڑی تھی۔ ٹرین میں کھڑا ایک آدمی بار بار دزدیدہ نگاہوں سے چین کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ شہیر اس آدمی کی نقل وحرکت کوبغوردیکھ رہاتھا ۔ اسٹیشن قریب آنے والا تھا ، ٹرین کی رفتار کچھ دھیمی ہوئی، تبھی اچانک اس آدمی نے ساہوکار کی بیوی کے گلے میں پڑی چین پہ جھپٹا مارا اور گلے سے چین کھینچ کر ٹرین سے کود گیا ۔شہیر جوپہلے سے ہی یہ سب دیکھ رہا تھا فوراً حرکت میں آیا اور ٹرین سے ہی اس آدمی کے پیچھے جست لگادی، آدمی تیزی سے بھاگ رہا تھا مگر شہیر نے بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ دور جا کر اس شخص کو پکڑ لیا ،معمولی ہاتھا پائی کے بعد چور کے ہاتھوں سے چین چھین لی۔ اتنے میں ٹرین بھی رک گئی اور مسافر اسٹیشن پہ اترنے لگے۔ ایک لمحہ کے لئے شہیر کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ وہ یہ چین خود ہی رکھ لے،اس وقت اسے اس کی سخت ضرورت بھی ہے،اور یہاں اس کے آس پاس کوئی ہے بھی نہیں جو اسے چین لے کر بھاگنے سے روک سکے،لیکن اگلے پل ہی اس نے اس خیال کو اپنے دل سے جھٹک دیا اور اسے شیطانی وسوسہ سمجھتے ہوئے اپنی اس بری نیت سے باز آیا اورفوراہی اپنے دل کو سمجھایا کہ’’ کوئی دیکھے نا دیکھے سب کا مالک اللّہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘اور اس خیال کے آتے ہی اس نے فورا اسٹیشن کی جانب دوڑ لگادی۔
شہیر جلدی سے اسٹیشن پہونچا اور ساہوکار کی بیوی کو تلاش کر کے اس کی چین لوٹا دی ۔ ساہوکار کی بیوی شہیر کی اس بہادری اور ایمانداری کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور شہیر کو اپنے ساتھ اپنے گھر لےگئی ۔عورت نے ساہوکار سے تمام احوال بیان کیا ۔ ساہوکار شہیر کے اس کارنامے سے بہت خوش ہوا اور شہیر سے اس کے بارے میں پوچھا ۔ شہیر نے اپنی غربت کی داستان سنائی جس سے ساہوکار کی بیوی اور ساہوکار بہت متاثر ہوئے اور شہیر کی قابلیت ، بہادری اور ایمانداری دیکھ کر انہوں نے شہیر کو اپنے یہاں نوکری پر رکھ لیا۔جس سے شہیر بہت خوش ہوا ۔ساہوکارکی نوکری اس کے لئے حلال رزق کمانے کا بہترین ذریعہ بن گئی اور گاؤں سے شہر آنے کا مقصد بھی پورا ہوگیا ۔ یہ شہیر کی بہادری اور ایمان داری کا سب سے بڑا انعام تھا ۔

پیارے بچوں ۔۔۔۔!!!
ہمیں اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہےکہ اللہ کی ذات سے کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہئے اور مصیبت کے وقت صرف اللّہ سے مدد مانگنی چاہئے،اللّہ ضرور ہماری مدد کرے گا ۔
اسی طرح ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انسان ہر حال میں ایمانداری کو برتے،کیوں کہ بھلے ہی آپ کے آس پاس کا انسان آپ کے غلط کاموں،آپ کی چوری اور بے ایمانی کو نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے،لیکن آپ کا اللّہ ،آپ کا خالق و مالک وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اور یقیناً جزا اور سزا دینے والا وہی مالک و خالق ہے۔اس لئے ہر حال میں ایمانداری کو اپنا نصب العین بنانا چاہئے،صرف اللّہ کی رضا کی خاطر برے کاموں سے بچنا چاہئے اور نیک کاموں پر عمل کرنا چاہئے۔
اور دوسری بات یہ کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھانا چاہئے،مدد کے لئے مذہب نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ صرف اورصرف انسانیت کی بنیاد پر ہر پریشان اور مظلوم کی مدد کرنی چاہئے، یہ ایسا کام ہے جس پر اللّہ تعالیٰ کی جانب سے بڑا اجر دینے کا وعدہ ہے۔

Comments are closed.