Baseerat Online News Portal

بہار مدرسہ بورڈ امتحان؛ آخر ان بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت کون لے؟

وزیر احمد مصباحی (بانکا)
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، رکن :تنظیم حافظ ملت اسلامیہ
رابطہ نمبر :6394421415
(سچ بتاؤں تو اس وقت مراکزِ امتحان کے انتظامیہ کی طرف سے یہ قبیح حرکت دیکھ کر مجھ جیسے طالب علموں کو خون کے آنسو رونے کو دل کرتا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں یہ خبیث رسم کیسے در آئی؟آخر ہمارے سماج کے خدا ترس حضرات اس‌ پر نکیل کیوں نہیں کس رہے ہیں اور موجودہ بہار سرکار اس سے چشم پوشی اختیار کر کے اس زخم خوردہ قوم کے مستقبل سے اسی طرح گھناؤنا کھیل کب تک کھیلتی رہے گی؟؟؟){موجِ خیال}
ظلم، سرقہ بازی، برائی، بد اخلاقی، بےحیائی اور نیچ حرکتوں کا ارتکاب وغیرہ یہ سب وہ اعمال و افعال ہیں، جسے تقریباً دنیا کے تمام افراد کسی بھی نہج سے داد و تحسین کی عظیم کسوٹی پر جان بوجھ کر پرکھنے کی کوشش ہرگز نہیں کرتے ہیں. ایک عام سا وہ انسان جسے عقل و شعور کی تھوڑی بہت بھی پونجی حاصل ہو وہ اسے مدح و سرائی کا قلادہ پہنانے کے بجائے ناپسندیدگی و شئی مبغوض ہی کے ژمرے میں رکھتا ہے. اگرچہ وہ وقتی طور پر کسی کے دباؤ میں یا پھر کاسہ لیسی اور مال و دولت اور جھوٹی و سرابی عظمت کے آگے سر تسلیم خم کر کے اس کی مدح و سرائی کا خطبہ ہی کیوں نہ پڑتا ہو. مگر جب کبھی فرصت کے لمحات میں اس سے آپ پوچھیں اور قول لین کا دامن تھامے اس سے اس کی حسن و قبح کو لے کر استفسار کریں تو میرے خیال میں اس نوعیت کا آدمی بھی اپنی دانش کے بل بوتے یہی عندیہ صادر کرے گا کہ، نہیں؛ میں نے جس امر کو کار خیر کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہرگز پاک و صاف نہیں بلکہ وہ تو سرے ہی سے ناپاک و مذموم ہے. کہیں دور نہ جا کر محض عام سی وہ ابتدائی کتب جو مکتب کی چہاردیواری میں گاؤں کے امام صاحب محلے کے چھوٹے اور ننھے منھے بچوں کو بطور تدریس پڑھاتے ہیں، اس میں بھی اس حقیقت کا سراغ آپ کو بخوبی لگ جائے گا کہ نہیں یہ سارے مذکورہ افعال معاشرے میں مذموم ہی گردانے جاتے ہیں. ہو سکتا ہے کسی صاحب کو میری ان باتوں سے اختلاف ہو جائے. اس لیے ایسے بھائیوں سے میری بس یہ ادنی سی گزارش ہے کہ ٹھیک ہے؛ آپ دوسروں کے عندیہ پر کان نہ دھریں. بلکہ ان ساری چیزوں سے ہٹ کر ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کر لیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے نزدیک بھی اس کی حقیقت منکشف ہو جائے گی اور سود و زیاں کے مکمل تار و پود سے آگاہی بھی حاصل ہو جائے گی۔
یہ اتنی عام اور سادہ سی بات ہے کہ ہر مذہب کے لوگ اس سے دور و نفور رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں.خاص طور پر سنجیدہ مزاج اشخاص اور حق و صداقت کی معترف طبیعتیں تو ان ساری متذکرہ بالا اوصاف کو سم قاتل تک جانتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ جب سماج و معاشرے میں کوئی شخص ان حرکتوں کا ارتکاب کرتا اور دوسروں کو اس طرف ابھارتا ہے تو پھر معاشرہ اسے نگاہ تکریم سے دیکھنے کے بجائے حد درجہ نفرت کرنے لگتا ہے. یہ سارے مذموم خصائل مذہب اسلام میں تو بڑی شد و مد کے ساتھ ممنوع قرار دیے گئے ہیں. ایک مسلمان کو واقعی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کسی شناسا اور مسلم بھائی سے فریب کاری، بداخلاقی اور برائی کا مظاہرہ کرے. لیکن پھر بھی اس کے خبیث انجام کار کی بھر پور وضاحت کے باوجود جب کبھی ایک پڑھا لکھا تعلیم یافتہ انسان ان اوصاف سے اپنی دیوانگی و عاشقی کا دم بھرتا ہے تو پھر عام انسانوں پر سکتے کی کیفیت سی طاری ہو ہی جاتی ہے. اور وہ بھی اس وقت جب کہ وہ اپنی لٹریری ٹیم کو لے کر مکمل سانٹھ گانٹھ کے ساتھ آپ ہی کے یہاں ڈاکہ زنی کے خاطر مورچے تیار کر رہی ہو. حد تو اس وقت ہو جاتی ہے جب کہ وہ کلمہ گو مسلم آبادی سے تعلق رکھنے کے باوجود اس طرح کی نیچ حرکتوں کا ارتکاب کیا کرتے ہیں۔
کچھ اسی طرح کی خبیث افعال کے مرتکبین اور دور دراز سے شریک امتحان ہونے والے کثیر طلبہ سے نقل و سرقہ بازی کے نام پر اچھی خاصی رقم بٹور نے والی ایک دلیر خبیث جماعت سے میری ملاقات مسلسل پانچ چھ روز سے ہو رہی ہے. جی! سچ پوچھیں تو اس وقت جو مختلف اضلاع میں بہار مدرسہ بورڈ کی طرف سے عالم اور فاضل وغیرہ کے امتحانات ہو رہے ہیں اور جہاں جہاں امتحانی مراکز قائم ہوئے ہیں ، یہ ان مال و زر کے محبین کے لیے دنیاوی منافع کمانے اور جیب گرم کرنے کے لیے بہترین آماجگاہ ثابت ہوئے ہیں.یہ اتفاق ہی کہیے کہ بدقسمتی سے اس دفعہ ان لٹیروں کے چنگل میں یہ ناچیز بھی آ گیا ہے. حقیقت یہ ہے کہ صبح سویرے ٤٠،٥٠ کلومیٹر کی ایک طویل مسافت طے کر کے جب شریک امتحان ہوتا ہوں اور ابھی ایک دو سوال کا ٹھیک طرح سے جواب بھی رقم نہیں کر پایا ہوتا ہوں کہ اسی اثنا میں یہ لٹریری ٹیم جسے گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے لیے ایک نگراں کے طور پر تقرری بخشی گئی ہے، ہر کنڈیڈیٹ کے آگے اپنی جھولی پھیلائے بڑے رعب و دبدبہ کے ساتھ بھیک مانگنے لگتی ہے. (میرے خیال سے اگر یہ بھیک مانگنے کے طور پر ایک بھکاری کے روپ میں اپنی عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرے تو کچھ بات بھی بنے.مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا. اور الٹے ہی یہ بڑے تیکھے الفاظ میں کاپیوں کے تہس نہس ہو جانے کی دھمکیاں بھی سنا جاتے ہیں) واقعی! آج ایسے موقعوں پر وہ گزرے ایام بڑی شدت سے اپنی خوبیوں اور اچھائیوں کا احساس دلاتے ہیں جب آج سے پہلے گزشتہ تین سالوں میں عالم (آنرس) کا امتحان اسکول و کالجس میں دیا کرتا تھا. ہماری نگرانی کے لیے غیر مسلم افراد کی تقرری عمل میں آتی . سختیاں اگرچہ بسا اوقات حد سے گزر جایا کرتیں، مگر وہ اتنی نیچ اور گھٹیا حرکتوں کا ارتکاب تو ہرگز ہی نہیں کیا کرتے کہ اپنے اسکول میں سینٹر پڑنے کی بنا پر وہ نقل و سرقہ بازی کے نام پر ہزار پانچ سو کے نوٹ اینٹھ کر اپنی تجوریاں پر کیا کرے. اور جو طالب علم اپنے غریب باپ کے پیسوں سے ان کی ضیافت نہ کر پائے انھیں یہ سخت کرخت لہجے میں دھمکیاں بھی سنا جائے۔
آج ایک ایسے پرآشوب دور میں جب کہ دوسروں پر سے اعتماد و یقین کی رسی یوں ہی ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے اور لوگ چھوٹی موٹی باتوں پر بھی یوں کان نہیں دھرتے، بطورِ استاذ نگرانی کے لیے متعین کیے گئے افراد کا اس طرح کی خبیث اور دلسوز حرکتوں کا بلکل رسیہ بن جانا اپنے آپ میں انگنت دردناک سوالات پیدا کرتے ہیں. آپ جس بھی معاشرے میں چلیں جائیں، اگرچہ وہ علم و آگہی سے نابلد ہی کیوں نہ ہوں، ایسے لوگ بھی ان سارے معاملات سے دور رہنے ہی میں عافیت تصور کرتے ہیں. مگر آج تو اس طرح کے اوصاف سے ہمارے سماج و معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ بھی متصف ہونے میں کامیابی و کامرانی اور فخر محسوس کیا کرتے ہیں. پتہ نہیں مجھ جیسے طالب علموں کو بسا اوقات یہ کیوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے سارے ارکان و ممبران گھس پیٹی ہی پر منحصر ہے. نیچے سے اوپر تک کی ساری شاخائیں رسوت کے بل بوتے ہی پھل پھول رہی ہیں۔ آپ ہی بتائیں نا کہ کیا کوئی ایسا شخص جو سرکاری ملازمین کی فہرست میں شامل ہو، وہ خود ہی تفویض کردہ سرکاری کاموں میں کبھی اس طرح شریک امتحان ہونے والے غریب و امیر طلبا سے کھلے عام نام بنام ہزار پانچ سو کے نوٹ اینٹھ سکتا ہے، رول نمبر نوٹ کرکے بعد میں اس کی کاپی غائب کروا دے،کھلی دھمکیاں دے۔ جب تک کہ اس میں بڑے بڑوں کی شمولیت نہ ہوں ؟ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ جو بوجہ مجبوری اور نقل و سرکہ بازی کے خطرناک نتائج سے بچنے کے لیے روپیے نہ دینے پائے ، اسے کالی کوٹھری کا راستہ دکھا دے. واقعی! مجھے تو سب سے بڑی پریشانی اور گمبھیر مسئلہ یہی لگتا ہے کہ آخر اس موڑ پر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ لیکن پھر بھی ایک چھوٹا سا عمل اگر اس موقع پر ہم کر لیں تو تھوڑا بہت بہتر نتائج ضرور سامنے آ سکتے ہیں. وہ یہ ہے کہ ہم موقع بموقع رسوت خوری، جھوٹ، سرقہ بازی اور فریب کاری کے برے انجام سے اپنے پاس پڑوس میں زندگی گزار رہے نئی نسل کو آگاہ کریں، قرآن و حدیث اور اقوالِ ائمہ کی روشنی میں اس کی اہمیت و افادیت اور دارین کی ساری فلاح و ظفر کو واشگاف فرمائیں. میں سمجھتا ہوں کہ خود اس طرح کی بری اور نیچ صفات سے متصف ہونے والے شخص کا دل بھی بوقت اتصاف خوف خدا سے تھوڑا بہت تو ضرور لرزتا ہوگا، مگر مسئلہ بھی تو یہیں پر جنم لیتا ہے نا کہ وہ دوسروں کے دیکھا دیکھی یہ حرکت کر لیتا ہے اور پھر آخری عمر میں توبہ کر لینے کا وعدہ کر کے عقل و شعور کے خاطر سامان تسلی پیدا کرنے میں کامیاب ہو کراکثر گزر بھی جایا کرتا ہے. چاہے پھر کبھی مستقبل میں اسے اس کار خیر کی توفیق ملے یا نہ ملے ، مگر ایسے موقعوں پر رب کا خوف اور روز قیامت کی ہولناکیاں اس کے لیے پاؤں کی بیڑیاں نہیں بن پاتیں. جی ہاں! اگر ہم ایسے موقعوں پر سنجیدگی کے ساتھ از روئے شرع اس کی حسن و قبح کو بیان کریں اور اندازِ تخاطب کو خصوصیت کا جامہ نہ عطا کر کے عمومیت کا رنگ فراہم کر دیں تو بہت حد تک سدھار آ سکتا ہے اور ہمارا معاشرہ اس طرح کی نیچ حرکتوں کے تحت پیدا ہونے والے خطرناک نتائج سے محفوظ و مامون بھی رہ سکتا ہے. یقیناً؛ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ایک دفعہ اس زوال پذیر معاشرے میں وہی بہار اور رعنائیوں کے گل کھل سکتے ہیں، جو کبھی قوم مسلم کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا. اور جس کی بنا پر برسوں پہلے دور دراز غیر مسلم علاقوں سے بھی پریشاں حال لوگوں کے خطوط بغرض عدل و انصاف صرف اسی لیے آیا کرتے تھے کہ یہی وہ قوم مسلم اور کلمہ توحید کا پرچم بلند کرنے والے مسلمان تھے، جو بغیر کسی غیرجانبداری اور گھس کے فیصلے کیا کرتے تھے. مگر افسوس! کہ آج اس طرح کی انداز جہاں بانی کی بات تو درکنار بس ایک راست گو سچا پکا مسلمان کی دیدار کے لیے اکثر سادہ ذہن لوگ پوری عمر بتا دیا کرتے ہیں مگر ایسا جاں فزا منظر سے وہ آنکھیں نہیں ملا پاتے. اے کاش! کہ آج کے اس پرفتن دور میں بھی عوام و خواص کے لیے یکساں طور پر( شاعر مشرق) علامہ اقبال کا یہ بامعنی شعر کچھ تحریک کی لو روشن کر دے تو پھر کوئی بات بنے کہ:
ہاں! دکھا دے اے! تصور پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

Comments are closed.