Baseerat Online News Portal

بیچارہ امام اور لاک ڈاون

عبداللہ بن یونس میمن

امام کا احترام
افضل شخص ہی کو امام بنایا جاتا ہے ، کم از کم قرأتِ قرآن و علم کے اعتبار سے افضل ہو ، امامتِ کبریٰ کے لیے بھی حضرت علی نے امامت صغریٰ ہی کو دلیل بنایا تھا ، شریعتِ مطہرہ میں بھی امام کے کچھ اوصاف بیان کئے گئے ہیں کہ متقی ہو ، اللہ سے ڈرنے والا ہو، وغیرہ وغیرہ، جب ہم نے اس شخص کو اپنی نمازجیسی عظیم عبادت کے لیے امام تسلیم کر لیا تو پھر اس کے خلاف الٹے سیدھے جملے ، اس پر طنز کرنا ، اس کی غیبت کیا معنیٰ رکھتی ہے؟
مساجد کا جائزہ لینے سے بکثرت مشاہدہ ہوتا ہے کہ ائمہ کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہاہے اور اس کی ناقدری بھی ہو رہی ہے، امام کی عزت واحترام ایک ذمہ دارِ مسجد کی عادت ہونی چاہیے، تاکہ ذمہ دار سے اور لوگ بھی سبق سیکھیں، اگر کوئی امام، مسجد کے جائز اصولوں کے مطابق خدمت کے لیے تیار نہ ہو تو شرافت کے ساتھ اسے علٰحدہ کر دیا جائے ، اب تو بالعموم ائمہ کرام حافظ وعالم ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ برا رویہ تو انتہائی خطرناک ہے ، صحابہ کرام تو ان افراد کی خدمت میں مصروف ہوتے تھے جو قرآن ِکریم کی تلاوت یا نماز میں مشغول ہوتے ۔
امام ابوداود نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ کچھ صحابہ کرام ایک شخص کی بڑی تعریف کررہے تھے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا ، جب سفر میں ہوتے تو قرأتِ قرآن میں مصروف ہیں اور جب سواری سے اترتے ہیں نماز میں مصروف ہیں ، تو ان صحابہ کرام  سے کہا گیا کہ اس شخص کا سامان کون اٹھائے گا؟ اس کے جانور کون چرائے گا؟ تو صحابہ کرام نے فرمایا، ہم کریں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، تم سب خیر پر ہو۔(حیاةالصحابہ 2/10)
 ذمہ دارانِ مسجد یہ بات ذہن میں رکھیں کہ امام بھی انسان ہی ہے، کوئی فرشتہ نہیں کہ جو معصوم ہو، اسی لیے معمولی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کریں ۔ حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاج پوری فرماتے ہیں :
” فی زمانہ یہ ذمہ داری متولیانِ مسجد اور محلہ و بستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجدکے ساتھ اعزازو احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت تو ہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، ٹرسٹیان اور امام دونوں کے لئے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار،عزت،عظمت کی حفاظت ضروری ہے
موٴذن کے ساتھ رویہ
حدیث پاک میں آتا ہے ، آپ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزِ محشر لوگوں میں گردن کے اعتبار سے لمبے موٴذن حضرات ہوں گے (الحدیث) ایک اور حدیث میں فضیلت والی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اگر پہلی صف اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو آپس میں قرعہ اندازی کی نوبت آجائے گی ۔(الحدیث) ایک جانب موٴذن کی یہ فضیلت ہے ، دوسری جانب ذمہ داروں کا رویہ ہے کہ وہ موٴذنین کے ساتھ آبائی وخاندانی ملازمین کا سا برتاوٴ کرتے ہیں ، انھیں تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلام ہیں ، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بیت المال ان کا کفیل ہوتا، اب چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں، اس لیے عوام ان کی تنخواہوں کی ذ مہ دار ہے ، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موٴذن اور امام دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، ان کے ساتھ حسنِ اخلاق کا معاملہ کریں، غیر اخلاقی رویہ سے کلی اجتناب کریں ۔ کئی موٴذنین اپنے ذمہ داروں کے رویہ سے نالاں رہتے ہیں ،بعض دفعہ ذمہ د اروں کے ہراساں کرنے سے موٴذنین اس عظیم خدمت سے دست بردار ہورہے ہیں ، ذمہ دار موٴذنین کو معاش کی بنا پر تنگ نہ کریں۔
امام وموذن کی تنخواہیں۔مصلیان مسجد، کمیٹی کے ذمہ داران غور کریں کیا مسجدوں کے امام وموذن اس معا شرے کا حصہ نہیں؟ ۔ کیا ہمارا معاشرہ اپنے امام وموذن کو اس کا مقام دے رہا ہے۔ امام کے مصلے پر صرف وہی شخص کھڑا ہو سکتا ہے جو شخص سب سے بہتر ہو، نیک ہو، علم والاہو، لیکن ہما را حال یہ ہے کہ امام ہی کو ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ دیتے ہیں ایک ٹیچر سے بھی کم تنخواہ امام کی ہوتی ہے۔ ٹیچر کو ریٹا ئر ہونے کے بعد تا حیات پنشن ملتی ہے اسپتالوں میں علاج کی سہولیت مفت میں وغیرہ وغیرہ۔بے چارہ امام اسی تنخواہ میں بچوں کی پر ورش ،پڑھا ئی لکھا ئی ،علاج و معالجہ سب کچھ کرتا ہے۔ الامان وا لحفیظ امام مسجد و موذن ہر جگہ عوام سے لیکر حکومت تک بے رحمانہ رویے کا شکار ہیں، جبکہ امام ہماری زندگی کا حصہ ہے ہمارے ہر کام میں اس کی معاونت ہوتی ہے ۔ پیدائش سے لیکر مر نے سے لیکر دفن سے لیکر ایصالِ ثواب تک بچہ کے کان میں اذان دینا ہو امام صاحب موذن صا حب کو بلاؤ ،کسی کا نکاح پڑھا نا ہو امام صاحب کو بلاؤ، کسی کا جنازہ پڑھا نا ہے امام صاحب کو بلاؤ، کہیں قرآن خوانی ہے امام صاحب کو بلاؤ، وغیرہ وغیرہ مگر ہم ان کو ان کی خد مت کا کیا صلہ(حق المحنت) کیا دے رہیں ذرا آپ اور ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں اپنے گریبا ن میں جھانک کر دیکھیں جو ہمیں قر آن کی تعلیم اور علم دین سکھائے اسے ہم کیا دے رہے ہیں۔ائمہ مساجد مسجدوں میں دینِ اسلام کی خد مت کرتے ہیں، انتظا میہ کمیٹی انکو تنخواہ دیکر یہ خیال نہ کرے یہ امام ہمارا ملازم ہے۔بہت غلط سوچ ہے، بلکہ امام و موذن کو اعلیٰ مقام دے۔جو مسلمان دین اسلام سے محبت کر نے والا ہوگا یقیناً ائمہ مساجد کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھے گا اور انھیں معزز جانے گا، اور جو عزت نہیں کرتے وہ بہت بد قسمت ہیں
آج لاک ڈاون کا زمانہ ہے کیا ہم اتنے بے غیرت ہوگئے ہیں کہ اپنے امام جس نے ہماری دنیا اور آخرت کی فکر کی ہے ہم ان کی فکر کو بھلادیں اور ان کو تنخواہ دینے سے انکار کردیں یہ وہ نیک لوگ ہیں کہ جب پوری دنیا کی مسجدیں بند ہوگئی اور اللہ نے پوری دنیا کو چاہے بڑا ہو یا چھوٹا نیک ہو یا گنہگار ہر ایک کو مسجد میں آنے سے روک دیا لیکن امام اور مؤذن وہ عظیم اور خوش نصیب لوگ ہیں جن کے ذریعے اللہ نے اپنے گھر کو آباد رکھا اور آج ہم ان کی تنخواہ کاٹ کر یا ان کی تنخواہ نہ دیکر اللہ کی کتنی بڑی ناراضگی مول لے رہے ہیں ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے بھائیوں آج بھی وقت ہے امام اور مؤذن کی قدر کرلو اگر یہ امام اور مؤذن ہمارے مسجدوں کو چھوڑکر چلے گئیں تو ہم اللہ کے گھر میں نماز پڑھنے اور پانچ وقت اللہ کا نام سننے ترس جائینگے اور وہ بھی وقت قریب ہے کہ ان کی ناقدری کی وجہ سے ہم اسلام سے ہی ناآشنا ہوجائے اسلئے میرے بھائیوں اپنے اماموں کی مدد کرو ان کی قدر کرو ان کو ان کی پوری تنخواہ دو ان کی تنخواہ کو نہ کاٹو نہ روکو نہ دینے سے انکار کرو ہمارے محلے میں کتنے گھر اور لوگ ہے اگر تمام محلے والے مل کر یہ سوچ لیں کہ ہمیں ہمارے امام اور مؤذن کی قدر کرنا ہے اور ان کو ان کی تنخواہ وقت پر دینا ہے تو ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہوگی ورنہ ہم انتظار کریں اس عذاب کا جو اللہ کے گھر اور اس کے امام اور اس کے مؤذن کی ناقدری کی وجہ سے ہم پر نازل ہونے والا ہے اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائیں
اللہ ہم تمام مسلما نوں کو امام وموذن کی عزت وتکریم کر نے کی توفیق بخشے اور دلوں میں جو بے حسی وجمود ہے اسے دور کرے آمین ثم آمین۔

Comments are closed.