Baseerat Online News Portal

بی جے پی کے نشانے پر مسلمانوں کے بعد عیسائی

 

ڈاکٹر سلیم خان

اس ماہ کے اوائل میں اتراکھنڈ کے روڈکی سمیت کئی شہروں میں  گرجا گھروں پر  مذہب کی تبدیلی کے نام پر حملے ہوئے ۔ اس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی تو لیپا پوتی کے لیے آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک تراکھنڈ پہنچ گئے اور تبدیلیٔ مذہب  پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا  کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ہم (ہندو سماج)خود ذمہ دار ہیں‘۔سوال یہ ہے کہ اگر  ان کے بقول اگر ہندو سماج اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام  ہوجائے تو اس کی سزا دوسروں کو کیوں دی جائے؟  موہن بھاگوت اگراپنے قول کے پکے ہوتے تو چرچ پر حملہ آوروں کی مذمت کرتےاور انہیں سزا دلوا کر متاثرین  کی دل بستگی کا سامان کرتے مگر انہوں نے اس  ایسا کوئی اقدام نہیں کیا اس لیے ان کا خطاب ازخود بے اثر ہوگیا ۔ روڑکی میں سول لائن کوتوالی علاقے میں واقع سلونی پورم میں چرچ پر حملے کی بابت  متاثرین کے اس الزام کا پولیس ذرائع  نے بالآخر اعتراف کیا  کہ یہ حملہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت انجام دیا گیا تھا اور اس کے لیے کئی دنوں سے مسیحی سماج کو طنز تشنیع  کا نشانہ بنایا  جا رہا تھالیکن انتظامیہ   نے ان کی  شکایت پر توجہ یا  کارروائی نہیں کی۔

4؍ اکتوبرکوہندو تنظیموں سے وابستہ سینکڑوں افراد نے لاٹھی ڈنڈے سے مذکورہ  35؍ سال پرانے چرچ پر  حملہ کردیا۔ وہ وندے ماترم، بھارت ماتا کی جئے اور جئے شری رام کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ انہوں نے بدسلوکی کے بعد  تبدیلی مذہب کا الزام لگایااور نہ صرف سازو سامان توڑ دیا بلکہ لوگوں کے  موبائل بھی  چھین لیے اور  یہ دھمکی دی کہ وہاں صرف ہندو سماج کے لوگ ہی رہیں گے۔اس  سانحہ کا ایک   افسوسناک  پہلو یہ بھی  ہے کہ  چرچ کے منتظمین کا حملہ آوروں  کی اکثریت سے  دیرینہ خاندانی تعلق تھا  لیکن نفرت نے انہیں  اندھا کر دیا۔ مذکورہ  حملے  کی قیادت بی جے پی کی یوتھ ونگ اور او بی سی شعبہ کے رہنماوں نے کی جن  میں  خواتین بھی شامل  تھیں۔  چرچ پراس بزدلانہ  حملے میں شدید زخمی ہونے والا رجت  موت سے لڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حملہ  دھرم کی رکشا کے لیے نہیں بلکہ  چرچ کی تحویل میں موجود   کروڑوں روپئے کی مالیت والی زمین کو ہتھیانے کی خاطر کیا گیا  ہےکیونکہ  چرچ کے اطراف  کا علاقہ تجارتی نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہے۔

 موہن بھاگوت کو اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر کرنے کی ترغیب دی  لیکن انہیں بتانا ہوگا کہ   کیا  اسی تہذیب پر انہیں ناز ہے کس کا مظاہرہ سنگھ پریوار نے حال میں کیا ہے؟ کیا موہن بھاگوت   سنگھ کے پرچارک  وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی تلقین کرکے بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچانے سے روکیں گے؟بی جے پی حکومت میں اندھیر نگری کا یہ عالم ہے کہ  چرچ پر حملہ کرنے والے ملزمین کو تو  گرفتار نہیں کیا گیا الٹا کویتا نامی خاتون کے ذریعہ   چرچ انتظامیہ  کے خلاف 2؍ لاکھ روپئے اور نوکری کی پیشکش کے ذریعہ  مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کی ایف آئی آر درج کرادی گئی ۔ ان حملوں کے بعد دہلی سے جماعت اسلامی ہند کی تنظیم  اے پی سی آر اور یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے ایک وفد نےواثق ندیم کی قیادت میں عیسائی رہنماوں کے ساتھ   متاثرہ گرجاگھروں کا دورہ کرکے مسلم عیسائی یکجہتی کی ایک عظیم مثال قائم کی اور دہلی کے پریس کلب میں اس کی چشم کشا فیکٹ فائنڈگ رپورٹ پیش کی ۔ یہ وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔

آئندہ سال اترا کھنڈ اور اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ عوامی ناراضگی کی پردہ پوشی کے لیے   آر ایس ایس اور بی جے پی مذہبی تبدیلی کے بہانے  جذباتی استحصال کررہی  ہے ۔ اتر پردیش میں بے قصور  مولانا عمر گوتم اور مولانا کلیم الدین صدیقی کو گرفتار کیا جاچکا ہے  اور اب  اعظم گڑھ، مئو اور مہوبا میں پولیس نے مذہب تبدیل کروانے کے جرم میں عیسائی پادریوں  کو گرفتار کرنا شروع کردیا ہے۔ ان سب پر بھی  لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر  عیسائی بنا نے کا الزام لگایا گیا  ہے۔ مئو ضلع  میں ہندو جاگرن منچ کے کارکنوں نے پولس کو اطلاع دی تھی کہ شہادت پورا محلہ میں بجندر کمار کے گھر میں  عیسائی مشنری کے ذریعہ عبادت کی مجلس کے نام پر غیر قانونی طور پر مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہےجبکہ  بجندر کے مطابق ان کے گھر پرجاری  موسیقی  کے پروگرام پر مقامی لوگوں نے ہنگامہ کر کے ہندو جاگرن منچ کے لوگوں کو بلا لیا۔  پولیس نے موقع پر پہنچ کر پادری ابراہم سمیت ۸؍افراد کو گرفتار کر کے ان خلاف آئی پی سی دفعہ 298، دفعہ 504 وبا ایکٹ سمیت اترپردیش مذہبی تبدیل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

ہندو جاگرن منچ کے بھانو پرتاپ سنگھ کا الزام ہے کہ بجندر کمار کے گھر میں گزشتہ پانچ سالوں سے غیر قانونی طور پر تبدیلی مذہب کا کام چل رہا ہے۔وہاں عیسائی مذہب اختیار کرنے والے خاندان کے بچوں کا عیسائی مشنری اسکول میں داخلہ، مفت تعلیم، شادی بیاہ کے اخراجات اور علاج میں سہولیات کا لالچ دے کر ان کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندو جاگرن منچ اتنے دنوں تک کیوں  خاموش  تھا اوراب اچانک  عین انتخاب سے قبل کیوں جوش  میں آگیا۔ مئو کے بعد  مہوبا ضلع میں بھی ہندتواوادی تنظیموں کی شکایت پر  پادری آشیش جان  پر پچھلے آٹھ سالوں سے غریبوں کو پیسوں کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگا کر جیل بھیج دیا گیا ۔ پولیس کے مطابق انہوں نے سیمریا گاؤں کے تین کسانوں کو پیسوں کا لالچ دے کر عیسائی بنا یا۔ ہندو تنظیموں کے مطابق پادری آشیش مہوبا نے ٹھاکرداس محلہ کے سچن دیویدی کو علاج و کاروبار کے لئے پیسے دینے کا لالچ دے کر عیسائی مذہب میں شامل ہونے کا دباؤ بنا یا۔ یہ عجیب  احسان فراموشی ہےکہ کوئی مدد کرے تو  اس کے خلاف  دباو بنانے کی شکایت کی جائے  ۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ دباو بناکر  مذہب کی  تبدیلی کو روکنے کی ناکام کوشش تو ہوسکتی ہے مگر اس طرح کوئی مذہب  نہیں  بدلتا ۔  سچن کی شکایت پر پولیس نےپادری  آشیش کےخلاف ایکٹ 2020 کی دفعہ 3 دفعہ 5 کے تحت مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا۔ اتر پردیش میں اس سلسلے کی ابتداء  8؍ ستمبرکو اعظم گڑھ ضلع کے مسپور لاٹ گھاٹ گاؤں سے ہوئی جہاں  مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں پولیس نے عیسائی مشینری سے جڑے دو لوگوں کو گاؤں کے پردھان کی شکایت پر گرفتار  کیا ، حالانکہ ملزمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے توصرف مذہب کی تبلیغ کی  مذہب تبدیل نہیں کرایا۔   موہن بھاگوت پچھلے کئی ماہ سے متضاد باتیں کہہ رہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ عالمی سطح پر ہندوتوا کے خلاف بننے والی فضا ہے۔ اس کا ایک ثبوت امریکہ کے شہر شکاگو میں  ’’ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندوتوا‘‘ کے عنوان سے  10؍ ستمبر تا 12؍ ستمبر تک منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس ہے۔ اس اجلاس  کو 45 ؍سے زائدیونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں اور مراکز کی سرپرستی حاصل ہوئی تھی  جن میں نارتھ ویسٹرن، ہارورڈ ، یو ٹورنٹو، یوسی برکلے، این وائی یو ، یو ایلینوئی اربانا۔ شامپین قابلِ ذکر  ہیں۔

امریکہ میں  کل تک اسلامو فوبیا کے شور شرابے پر بغلیں بجانے والے ہندو احیاء پرستوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔  اس نے غالباًموہن بھاگوت کو فکرمند کردیا ہے اور وہ گول مول باتیں کرتے ہیں لیکن اپنے سیاسی فائدے کی خاطر بی جے پی والے اس پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ آر ایس ایس اپنے قیام کے بعد ہر سال یوم تاسیس کا اہتمام کرتا رہا ہے اور سنگھ کے سربراہ دیگر  تقریبات میں  بھی ا پنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ پر چونکہ دائیں بازو کے نظریات غالب تھے اس لیے انہیں نظر انداز کردیا جاتا تھا یا پھر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ مودی  یگ میں ذرائع ابلاغ  پر خاص توجہ دی گئی اور اس کا ایک طرح سے شدھی کرن کیا گیا کہ   گودی میڈیا عالمِ وجود میں آگیا۔  یہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور آنکھیں موند کر بی جے پی آئی ٹی سیل کے جھوٹ کی تشہیر کے کام میں  مگن رہتے ہیں۔ سر سنگھ چالک  کے متضاد  بیانات کو میڈیا میں نہایت خوشنما بناکر  پیش کیا جاتا ہےلیکن  اس   کا  داخلی تضاد ازخود  تنقید کا ہدف بن جاتا ہے۔  یہ ایک ایسی کمی ہے جس کا علاج  خود سنگھ کے پاس بھی  نہیں ہے۔  اس لیے عالمی برادری اب اس کے جھانسے میں نہیں آسکتی۔  سنگھ کے قول و عمل  پر تو یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎

ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ                                   دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

Comments are closed.