Baseerat Online News Portal

بے بسی

منزہ ذوالفقار علی (چونڈہ)
لفظ ’’بے بسی‘‘ایک صفحے پر لکھا دیکھاتو ہلکا سا خاکہ میرے ذ ہن میں میری اپنی بے بسی کا ابھرآیا تو اچانک میرے لبوں پر مسکراہٹ اتر آ ئی، نظریں آسمان والے کی طرف اٹھ گئیں، دل بڑے احترام سے رب کی صفات کا شکر ادا کر نے لگا ۔
رب اور بندے کے درمیان کتنا خوبصورت احساس،کتنا خو بصورت رشتہ ہے ۔ہا تھ زمین پر اٹھتے ہیں تو کن آسمان پر کہ دیا جا تا ہے ۔دل زمین پر دکھتا ہے تو بہتری کی نوید آسمان سے اترتی ہے ۔ہونٹ دعاؤں میں زمین پر لرزتے ہیں، سر سجدوں میں جاتے ہیں تو ذکر آسما نوں پر ہو تا ہے ۔جب ’’بے بسی ‘‘ اپنے پر سمیٹ کر زمین والوں کے چھتوں پر قبضہ کر لیتی ہے، دلوں پر مہر لگ جاتی ہے، امیدیں دل سے ہجرت کر چکی ہوتی ہیں، تو آسمان والا بے بسی کو اس کے پاؤں سمیت اٹھا لیتا ہے، پھر منظر ایسے بدلتے ہیں کہ ہماری سوچ نے بھی کبھی ایسا تخیل تخلیق نہ کیا ہو۔
ایسے معجزے صبر والوں کے لیے ہو تے ہیں ۔جب صبر کا آخری مرحلہ ہو دل ہر جذ بے سے خا لی ہو پلکوں پر آنسو ہو، ہونٹ لرز رہے ہوں، دماغ ہر اقرار سے انکاری ہو، جسم دماغ سے کوئی بہتر ی کی خبر نہ پا کر بے جان ہو چکا ہو، چہرہ آسمان کی طرف ہو ایک ایک اعضاء کہہ رہا ہو۔۔۔تو میرا رب ہے اگر تو مجھے اس حال میں رکھ کے خوش ہے تو پھر میں بھی ایسے ہی خوش ہو ۔مجھے اتنا صبر دے میں تیرے رکھے حال میں خوش رہ سکوں ۔پھر کن فرما دیا جاتا ہے اور ہر خوشی آپ کا استقبال کر تی ہے ۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میرا آدھا دھڑ (میری ٹا نگیں) بے جان ہو چکا تھا۔میری زندگی سے مقاصد اور امیدیں ختم ہو گئی تھیں ۔ہر دن آزمائش کے سمندر میں غوطہ لگانے کے ما نند تھا ۔ دل کو اس پاک ذات سے امید تھی، دل کیا پور پور اس سے دعا کرتا تھا میں اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری نہیں کر سکتی تھی ۔جب مجھے تا زہ پانی کی طلب ہوتی تو میں دنیا کے ہر بے بس کی بے بسی محسوس کرتی تو دل سے ہر ذی روح کے لیے دعا کرتی ۔ماں کی بے بسی پر جب اولاد نا فرمان ہو جاتی ہے ۔باپ کی بے بسی پر جب اولاد تنہا چھوڑ دیتی ہے ۔بہن کی بے بسی پر جب بھائی کی اولاد پھو پھو کا وجود قبول نہیں کر تی ۔بھائی کی بے بسی پر جب بہن مان توڑ کر عزت کا جنازہ نکال جا تی ہے ۔فقیر کی بے بسی پر جب اس کا کشکول دھتکار دیا جا تا ہے ۔انکھوں کی بے بسی پر جن کو چہرہ پھیر کر گردن جھکا کر آنسو چھپانے پڑ تے ہیں ۔محبت میں بے بسی غرض ہر طرح کی بے بسی میں خود میں محسوس کر سکتی تھی ۔بے بسی کی اس کیفیت میں میں نے کائنات کی ہر چیز کو اپنا دشمن پایا، ہر شے مجھ سے سازش کر تی تھی۔لیکن اپنے رب پر پختہ یقین اور اپنے صبر کی وجہ سے آج تین سالوں کی بے بسی کے بعد میں آج جائے نماز پر تفسیر قرآن کے ایک صفحے پر بے بسی کے الفاظ پڑھ کر منجمد ہو گئی، مگر دل اللہ اکبر کی کیفیت میں گم ہوگیا تھا۔میرے دل کو یوں قرار آ گیا تھا جیسے گناہ گار کو جنت مل جائے ۔جیسے کوئی بچھڑا مل جائے ۔جیسے بلکتا بچہ ماں کے سینے سے لگ جائے ۔تین سال پہلے میں ایک عام سی لڑکی تھی ۔میرے جذبات،میرے خیالات،میرے اعضاء ماڈرنزم پسند کرتے تھے۔میری بے بسی نے مجھے ہدایت دی ۔مجھے شعور دیا اور مجھے رہنما بنا دیا ۔میں آج قرآن سکھاتی ہوں ۔ہم بے بس اس لیے کر دئیے جاتے ہیں کہ ہم نکھار دئیے جائیں، یہ قیمتی لوگوں کے لیے بہت قیمتی وقت ہوتا ہے اسے گلے شکوؤں اور بجائے نفرتوں کے صبر اور شکر میں گزار نا چاہیے ۔تاکہ ہم کوکامل نوازا جائے۔ اگر کبھی کوئی ضرورت مند بے بس آ پ کے پاس آ ئے تو اس کی ضرورت پوری کر دیںاور اگر کوئی حالات کا مارا بے بس آ پ کے پاس آ ئے تو اس کو نصیحت کرنے کی بجائے سن لیں، اس کے دل کا بوجھ کم ہو جائے گا جواٹھا نا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کو مکمل سن لیں تو اس کو بولیں مجھے اچھا لگا آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ۔۔۔ دل کے تھکے لوگ ایسے سہا رے کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کو پیار سے صرف سن سکے ۔

Comments are closed.