Baseerat Online News Portal

بے نیازی کی نفسیات خطرناک ہے۔

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

انسان اس دنیا میں اس نظام کے تحت بسایا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے بے نیاز نہ ہوسکے، کہتے ہیں دنیا بہت چھوٹی ہے کس کو کب کس کی ضرورت پڑ جائے یہ کوئی نہیں جانتا؟ ویسے انسان کا مادہ ہی اُنس ہے، اگر انسیت اور باہمی میل ملاپ، محبت اور روابط ختم کردیے جائیں، ایک دوسرے سے سیکھنا سکھانا اور باہمی موافقت و نصرت کا عنصر مسخ کردیا جائے تو کیا رہ جاتا ہے؟ یہ دنیا ایک جنگل راج میں تبدیل ہوجائے گی، ہر کوئی اپنی طاقت کے بقدر زندگی گزارے گا، جو سب سے زیادہ زور آور ہوگا وہ جنگل کا راجا کہلائے گا، اور اس کی ماتحتی میں کمزور کچلے جائیں گے، ناتواں اور ضعیف مسلے جائیں گے؛ لیکن انسان ایسا نہیں ہے، قرآن مجید میں انسانوں کو کمزور مخلوق کہا گیا ہے: وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (نساء:٢٨) جس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنے آپ میں اتنا طاقتور نہیں ہوسکتا کہ سب سے بے نیاز ہوجائے، َمن مانی دنیا کا حصہ ہوجائے، چشم و ابرو کے اشاروں سے ہر شئی پر قابو پالے، اگرچہ بادشاہت، سلطنت اور حکمرانی اس کا زعم پال لیتی ہے، مگر جو کوئی ایسا سمجھ لے اسے ایک معمولی جھٹکا بخار، سر درد اور دیگر امراض کی صورت میں لاحق ہوتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے؛ کہ زندگی صرف انانیت اور انا پرستی میں نہیں گزر سکتی، ہر چیز کا کریڈٹ خود نہیں لیا جاسکتا، اگر ایسا ہے تو اس سے بڑا جھوٹا اور دجال کوئی نہیں ہوسکتا جو دوسروں کی محنت پر اپنی برتری رکھتا ہو، اپنے ماتحتوں سے کام. لیکر اسے صرف اپنی کاوش گردانتا ہو اور اس بات پر فخر کرتا ہو کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے؛ خواہ صراحتاً ہو یا اشاراۃً ہو، قرآن کریم نے اسی لئے باہمی مدد و نصرت کی تلقین کی ہے، اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کا اہل بنایا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (مائدہ:٢) بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالی اس کی کرتا ہے: وَاَللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ- (صحيح مسلم:٢٦٩٩) دراصل بے نیازی کی نفسیات ایک مہلک شئی ہے، اگر کسی کے اندر یہ فکر پائی جانے لگے کہ وہ خود مختار اور اپنی مرضی کا مالک ہے تو وہ عام انسان سے اٹھ کر گھمنڈ، تکبر اور خودغرضی سے چور ہوجاتا ہے، اس کی آنکھوں پر خود پسندی کی پٹی بندھ جاتی ہے جس سے وہ خود کو اور پورے سماج کو نقصان پہنچاتا ہے، اسی طرح اگر یہ سوچ عام ہوجائے اور کسی گروہ یا فرد کا لازمی جزو بن جائے تو یہ اس قوم اور فرد کو ذہنی ارتقا، ترقی، تعلیم اور تربیت سے بھی روک دیتی ہے؛ کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان تب تک ہی تعلیمی مراحل پر گامزن رہتا ہے جب تک وہ یہ سوچے کہ اسے کسی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، وہ علم کا پیاسا اور زندگی کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا محتاج ہے، اس راہ میں نہ صرف ذاتی مشاہدے بلکہ دوسروں سے بھی استفادہ ناگزیر ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ سیکھنا اور سکھانا زندگی کی خوبصورتی اور نعمت خداوندی ہے، اللہ تعالی اس کیلئے باقاعدہ انسان کو دعا سکھائی ہے: وقل رب زدنی علما- (طہ:١١٤)؛ لیکن بے نیازی انسان کو کُند اور بے کار کر جاتی ہے، اس کے جذبہ تلمذ کا خون کردیتی ہے، اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ میں شیطان بن جاتا ہے جو صرف مَیں، مَیں کی رَٹ لگائے رہتا ہے، بہرحال اس موضوع ایک دلچسپ اور وقیع تحریر مولانا وحیدالدین خان کی نظر سے گزری جو قابل نشر و تبلیغ ہے، آپ رقمطراز ہیں: "قرآن کی سوره العلق میں ایک انسانی کردار کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: یعنی ہر گز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے- اس بنا پر کہ وه اپنے آپ کو بے نیاز دیکهتا ہے- (96:6/7) قرآن کی اس آیت میں ایک انسانی نفسیات کو بتایا گیا ہے- یہی نفسیات، اکثر لوگوں کی سرکشی کا باعث بن جاتی ہے- یہ نفسیات، بے نیازی کی نفسیات ہے- بے نیازی کی نفسیات جب ترقی کرتی ہے تو خود رائی، سرکشی اور گهمنڈ جیسی برائیوں کا سبب بن جاتی ہے- ایک شخص کے پاس اتنا مال آ جائے کہ وه کسی کا محتاج نہ رہے- ایک شخص جسمانی اعتبار سے اتنا طاقت ور هو کہ کسی کی مدد کے بغیر خود اپنا ہر کام کر لے- ایک شخص کے اندر اتنی زیاده صلاحیت هو کہ وه کسی کی مشورے کے بغیر خود اپنی عقل سے باتوں کو سمجهہ لے اور اپنے عمل کا کامیاب منصوبہ بنا سکے- جس کے اندر اس قسم کی اضافی خصوصیت پائی جائے، وه اپنے آپ کو دوسروں سے بے نیاز سمجهہ لیتا ہے- شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کا یہ ذہن بن جاتا ہے کہ مجهے کسی کے اوپر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں، میں خود اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا هوں- بے نیازی کی یہ نفسیات انسان کے ذہنی اور روحانی ارتقا کے لیے قاتل ہے- ایسےآدمی کا ذہنی ارتقا رک جائے گا اور اپنی بے نیازانہ نفسیات کی بنا پر اس کو یہ محسوس بهی نہ هو گا کہ میرے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک گیا ہے- بے نیازی بظاہر کوئی برائی نہیں، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے، وه ایک سنگین برائی کی حیثیت رکهتی ہے- بے نیازی آخر کار آدمی کو کبر تک پہنچاتی ہے اور بلاشبہہ کبر سے زیاده تباه کن کوئی اور چیز انسان کے لیے نہیں-” (الرسالہ، مئی 2013)

 

 

 

Comments are closed.