Baseerat Online News Portal

تحریک آزادی کے نامور مجاہد سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے تذکرہ پر مشتمل ایک غیرمنقوط تحریر۔

مکرم مولوی عطاءاللہ احراریؒ

 

تحریر: نوراللہ فارانی

 

مکرم مولوی عطااللہ احراریؒ، احرار اسلام اکٹھ کے روح رواں، اردو کے واحد اکمل کلام والے،علم وحکم سے معمور دل کے مالک، راہ اسلام کے سالک،کلام الٰہی کے اسرار وحکم سے آگاہ،دکھلاے سے کوسوں دور،عوام کی للکار، اس کا کلام درس ِمحمدی کی مہکار۔علمائے کرام کے ممدوح،اس کے علاوہ اور کئی سارے عمدہ اطوار کے مہا آدمی رہے۔مکرم مولوی عطااللہ احراری ”اٹھارہ سو اور آٹھ کم سو” کو والدہ مکرمہ کے والد ”حامل کلام اللہ”مکرم احمد رحمہ اللہ کے گھر مولود ہوئے۔

مولودی سلسلہ دامادِ رسول صلی اللہ علی روحہ وسلم علی کرم اللہ کے دوسرے لڑکے سے ملا ہے۔وہ اول سے مکرم اور رکھ رکھا والے ٹھہرے، سارے گھر والوں کے ہاں محمود رہے،دو اور دو سال کے ہوئے کہ اس لمحہ اس کی ماں دارالسلام کی راہی ہوئی۔والدہ مکرمہ اک علمی اور عمل سے معمور اسرہ سے رہی۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علی آلہ وعلی روحہ وسلم کی لاڈلی لڑکی مکرم علی کرم اللہ کی گھر والی کے اسم سے موسوم رہی۔ اس طاہر اسم سے موسوم ”حوا کی لڑکی” کی کوکھ سے اس لڑکے کی آمد ہوئی کہ لوگ اس سے سالارِ احرار مکرم عطا اللہ احراری کے اسم سے موسوم کرکے رہے۔

وہ اول علوم ودروس گھرہی سے حاصل کرگئے، اس لئے کہ اس کی والدہ مکرمہ کے والد اور والدہ اس کے اول معلم ٹھہرے۔اس گھر کا ماحول علم وعمل کا ماحول رہا۔اسی گھر سے ماہرِ کلام ”علی محمد” رسالہ ”کمال عمر”کے محرر کو اردو کلام کی اصلاح حاصل ہوئی۔علی محمد عطااللہ کی والدہ کی والدہ سے اردو محاورہ کے حوالے سے رائے لے کر مسرور رہے۔اس طرح عطاء اللہ احراری کو محمد علی کی ہمدمی اور ہمراہی ملی اس ہمدمی کے واسطے سے اس کو کئی علوم واطوار اور ”مرصع کلام” کی اصلاح حاصل ہوئی۔اور ”ماہر کلام” ہوئے۔اک رسالہ ”مرصع کلام” سے معمور ”سواطع الالہام ” کے اسم سے لکھ گئے۔عطاء اللہ کے دادا کے والد مکرم محمد، مملوک علی دہلوی رحمہ اللہ سے اصلاحی عہد کرکے اس کے سالک رہے۔عطاء اللہ کے والد کمال کے ”حامل کلام اللہ”رہے۔اس کو آس رہی کہ عطاء اللہ کو”کلام اللہ”سے کمال لگاؤ ہو۔اللہ کو اس کی آس عمدہ لگی اور اسی طرح ہوا ، کہ عطاء اللہ کو کلام اللہ سے کمال لگاؤ ہوا۔عطاء اللہ کا کلام ہے:

"کہ کلام اللہ سے حد سے ماوراء دلی لگاؤ ہے اور گورا سرکار عطاء اللہ کے ہاں کمال مکروہ ٹھہرا ہے۔”

آں مکرم اس دور کے کمال کے داعیٔ کلام اللہ ہوئے اور اِس عمدگی سے وردِ کلام اللہ کے حامل ہوئے کہ اسلام سے ادھر کے لوگ اس کی عمدہ لِے اور وردِ کلام اللہ کے دلدادہ ہوئے۔معلوم ہوا کہ وہ والد مکرم سے کلام اللہ کے حامل ہوئے۔ عطاء اللہ کے گاؤں آئے ہوئے کلام اللہ کے ماہر”محمد عاصم عمر”کو عطاء اللہ کا وردِ کلام اللہ مسموع ہوا،وہ اس عمدہ لِے سے کمال مسرور ہوئے، اس لئے اس کے والد مکرم سے کہا کہ اس لڑکے کو حوالہ کردو۔کہ اس لڑکے کا وردِ کلام اللہ، مطالعہ اور لے عمدہ ہو اور کمال اصلاح ہوسکے ۔ عطاء اللہ کے والد اس کی رائے سے مسرور ہوئے اور عطاء اللہ کو”محمد عاصم عمر”کے ہاں کلام اللہ کے دروس کے حصول اور اصلاح کے لئے رکھا۔اس طرح محمد عاصم عمر اس کے کلام اللہ کی اصلاح کے معلم ہوئے۔

اس دور کے معلوم معلم (کہ اس کے اسم کا اول حصہ محمد اور دوسرا حصہ علی کرم اللہ کے دوسرے لڑکے کا اسم ہے) سے ”مسلم” ”حمداللہ” کے علاوہ کئی اہم رسائل کے دروس حاصل کئے۔اس کے علاوہ کئی معلموں سے علوم ودروس حاصل کئے۔کال کوٹھڑی اس کے لئے مدرسہ ٹھہری ، ا وروہاں محصور ہمدموں کو معلم کرگئے۔اور کئی رسائل کے دروس حاصل کئے۔

حصولِ علم کے ہمراہ گئی صدی کی دوسری دہائی کے وسط مکرم مولوی مہر علی گولڑوی رحمہ اللہ اس کے مصلح ٹھہرے اور وہ سالک ہوئے۔مکرم گولڑوی رحمہ اللہ راہیٔ دارالسلام ہوئے، کہ عطااللہ اک اور اللہ کے ولی کے سالک ہوئے۔ حصولِ علم کے ہمراہ گاں کے محلہ کے لوگوں کے ”عمادِ اسلام”کے امام رہے۔اس عمل کے علاوہ اصلاح رسوم اور اسلام کے دائرے سے ورے اعمال و امور کے حوالے سے لوگوں کے آگے عمدہ طور سے کلام والے رہے۔

گئی صدی کی دوسری دہائی کو گورے حاکم ”ڈائر”کے وار سے کئی مسلم وصال کر گئے۔اس سے عطاء اللہ کے دل کو گہرا گھاؤ لگا دروس سے دوری رکھ کر ملکی احوال امور اور عوامی کاموں کا حصہ ہوئے۔ مولوی محمد علی ، مولوی حُرّ ؒ مؤسس رسالہ ”الہلال”،مولوی داؤد اور کئی ہمدموں کے ہمراہ کمال سعی اور اعلیٰ حوصلگی سے گورے سرکار سے معرکہ آراء ہوئے۔ اور وہ گورے سرکار کے لئے مدام آگ رہے۔وہ اصلاح رسوم ، گمراہ اعمال وکردار کے لوگوں،اور سادہ لوح مسلم عوام کی اسلامی اطوار واعمال کوکھرا کرکے اس کے اصلاح کے لئے ہر لمحہ اُداس رہے۔اور اس مرام کے حصول کے لئے ساٹھ سال کم اک صدی ساعی رہے۔مسلم عوام کو اسلام کے احکام اور سارے امور ومسائل کا درس دے کر مسرور رہے۔اس راہ کے راہی ہو کر حد سے ماوراء آلام سہ گئے۔اللہ کے کرم سے اور عطاء اللہ اور اس کے ہمدموں کی مساعی سے گورے سرکار کے لئے اس ملک سے دوری لامحالہ ہوئی۔اور ملک مردود گورے سرکار سے عاری ہوا۔علمائے کرام اور عوام کو دلی مراد حاصل ہوئی،اور کمال مسرور ہوئے۔گوروں سے معرکہ آرائی کے ہمراہ امر وحی کا مدعی ،مردود ”مملوک احمد”اور اس کے گروہ کے لئے دردِ سر رہے۔اس گروہ کے اعمال ،کردار ، دعاوی اور مکاری کو عوام کے آگے لاکر کمال عمدہ دلائل سے اس گمراہ دعاوی کے علمی حدود لوگوں کو دکھلائے۔ اس عمدہ کلام اور دلائل کی دھوم ہوئی اور لوگوں کے دلوں سے گرد دُور ہوئی۔اور اس گمراہ اعمال واطوار سے دور رہے۔اسی طرح وہ اس مردود گروہ کو گہرے گھاؤدے کر مسلم عوام اور علماء کے ہاں ممدوح ٹھہرے۔ وہ کھرے اصول کے آدمی ہر طرح کی دھوکا دہی سے دور رہے۔اس کا کلام ہے کہ:

”ہر سہارا معدوم ہے سوائے اللہ کے اور مردود ہو وہ سہارا کہ اللہ کے سوا ہو”۔

ہر کوئی اس کا ہمدم رہا سوائے گوروں کے ،اور مردود”مملوک احمد”کے گروہ کے ہر آدمی کے۔وہ گوروں اور اس کے آلہ کاروں کے لئے سد راہ ہوکر اک کم دس سال دو اور دو ماہ کال کوٹھڑی کاحصہ رہے۔مگر مرام سے دوری اس کے لئے سم ہلاہل رہی۔کمال مکارم سے معمور اور اعلیٰ اطوار کے حامل اس مہا آدمی کا گئی صدی کا اکسٹھ واں سال وصال کا سال ہوا۔ اس سال وہ ہر آدمی کو ملول کر کے دارالاعمال سے دارالسلام کو سدھار گئے۔

رحمہ اللہ۔

Comments are closed.