Baseerat Online News Portal

تحریک سر سید کی عصری افادیت و معنویت اور ہماری ذمہ داری

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
شعبہ دینیات سنی،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
سر سید تحریک تاریخ ہند کا وہ روشن باب ہے جس نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بلا کسی امتیاز و فرق کے انسانی خدمت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی، معاشی، تعلیمی ،سائنسی ،اخلاقی اور دینی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردارادا کیا ہے۔ تا ہنوز یہ خدمات انجام دی جارہی ہیں ۔ نیز مزید دی جاتی رہیں گی۔ تحریک سر سید سے انسیت وربط کے مسلمانان ہند کے بہت سے گوشے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہیکہ سرسید نے اس دور میں تعلیم وتربیت کا نظم ونسق کیا ۔ جب ماحول میں کدورت تھی ، نفرت اور تعصب تھا۔ 1857 کی جنگ کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اس نے مایوسی پیدا کی تھی ادھر مسلمانوں کی صورت حال بھی تعلیم اور معاشی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر دگر گوں تھی۔ ایسے حالات میں سر سید نے پسماندہ طبقات کے تئیں زیور تعلیم سے آ راستہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ کیوںکہ سر سید جانتے تھے کہ جب تک اس قوم کے اندر مشرقی علوم کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ مغربی علوم کو سیکھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک اس قوم کا ترقی و کامرانی حاصل کرنا مشکل ہے۔ ان کا مشہور قول بھی ہے۔ ایک ہاتھ میں سائنس اور ایک ہاتھ میں قرآن نیز سر پر لا الہ الااللہ کا تاج ہو۔ وہ اقوم کے بچوں کو نیلے آ سمان کی طرح بلند و بالا دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی پر بس نہیں ان کا فلسفہ یہ بھی تھا کہ ہر مسجد میں تعلیمی انتظام و انصرام ہو اور اس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم و فنون سے بھی قوم کے بچوں کو آ راستہ کیا جائے۔ انہیں وجوہات کی بناء پر سر سید نے تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ جو اب ہمارے سامنے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جب کوئی تحریک ابتدائی دور میں ہوتی ہے تو اس کے سلسلہ میں عوام میں متضاد آ راء پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ حقیقت ہیکہ وہی تحریکیں تاریخ بنتی ہیں اور فتح و ظفر سے ہمکنار ہوتی ہیں جن کو سر پرستی و نگرانی مخلصین کی حاصل ہوتی ہے۔ آ ج پوری دنیا میں علیگڑھ تحریک کا ڈنکا بج رہا ہے اور تاریخ کا زریں حصہ ہے۔ اس میں سر سید کی جانفشانی، خلوص، جذبہ صادق ، قومی ہمدردی اور مشن سے بے تحاشہ لگاؤ و انسیت کا وصف صاف نظر آ تا ہے۔ سر سید کی زندگی میں بہت سارے دروس وعبرپنہاں ہیں. وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب بھی کوئی تعمیری یا ملی کام کیا جائے تو سب سے پہلے ضرورت اخلاص کی پڑتی ہے ،وفا کا بڑا عمل دخل ہوتا اور ملی و قومی ہمدردی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔تبھی ان تحریکوں کے اثرات سماج پر دیر تک رہتے ہیں۔
سر سید نے تعلیم پر بے انتہا زور دیا ۔ اسی کے ساتھ ساتھ سر سید نے تالیفی اور تصنیفی خدمات بھی انجام دیں ۔ لھذا سر سید سے لگاؤ کا ایک پہلو یہ بھی ہےکہ جہاں سر سید نے آ ثار الصنادید جیسی علمی اور تحقیقی کتاب لکھ کر ملت کو ایک فکر عطا کی تو وہیں آ پ نے ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کا بھی جواب خطبات احمدیہ کی شکل میں دیا۔ محققین نے لکھا ہیکہ خطباتِ احمدیہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی علمی کتاب ہے۔ اسی طرح بقائے باہم اور بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم بنانے کے لئے آ پ نے طعام اہل کتاب، تحقیق لفظ نصاریٰ اور تبیین الکلام جیسی کتابیں بھی تحریر کیں۔ گویا سرسید کی حیات کے متنوع پہلو اور جہات ہیں۔ جن کا استقصاء اس مختصر مضمون میں مشکل ہے۔
آ ج المحمد للہ اس ادارے کویونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوئے پوری ایک صدی ہوچکی ہے۔ اب ہم کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ جن خطوط و راہ کی نشاندھی بانئ درسگاہ نے کی تھی کیا ہم واقعی ان پر پابندی سے گامزن ہیں ۔ یعنی ان کے افکار و نظریات اور ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ہم کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ اسی کے ساتھ ان اوامر پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آ ج ملک کےمسلمان تعلمی میدان میں انتھائی پسپا ہیں۔ تو وہیں ہماری دیگر شعبوں میں نمائندگی اور پستی تشویشناک حد خراب۔ اس لئے یوم سر سید ہر سال ہمیں جھنجھوڑ تا اور بیدار کرتا ہے کہ ملت کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے اس تحریک کو ایک پھر بڑی شدت سے حرکت میں لانا ہوگا۔ پوری ملک کے افراد کی نگاہیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی پر ٹکی رہتی ہیں۔ یہاں سے جو پیغام جاتا ہے اس کی پوری دنیا میں قدر ہوتی ہے لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ سر سید سے سچی عقیدت و محبت کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان کے تعلیمی مشن کو مزید فروغ دینا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ آ ج ہماری تمام تر دولت و ثروت کا بیشتر حصہ فروغ تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے، سرسید نے خستہ حال اور بد حال قوموں کے عروج کے لئے جو نسخہ تجویز کیا وہ تعلیم ہی ہے۔ تاہم تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہوئے بغیر کوئی معاشرہ کسی بھی شعبہ میں ترقی و کامرانی کی منازل طے نہیں کرسکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ شیخ الجامعہ ،یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو لگاتار بڑھانے میں مصروف ہیں اس کے لئے انہوں نے کئی بین الاقوامی اداروں اور دانشگاہوں سے معاہدات کر کے سرسید کی جا نشینی کا فریضہ بہتر طور پر نبھایا ہے۔ اسی طرح دیگر تعمیری کام بھی انجام دئیے جارہے ہیں۔ یقینا یہ سب کام آ پ کی متوازن فکر اور دور اندیشی پر بین ثبوت ہیں ۔ علیگڑھ تحریک نے ملک کی آ زاد ی سے لیکر دیگر تمام شعبوں اور محاذ پر ملت کی بہتر نمائندگی کی ہے۔ اس تحریک کو پائدار اور اس میں قوت و طاقت بخشنے کے لئے ہمیں سر سید کے روحانی، عرفانی افکار کو نمونہ عمل بنانا ہوگا اورانہی جیسا پاکیزہ عزم واستقلال بھی پیدا کرنا ہوگا۔ آ ج ایک بار پھر ملت کا ایک بڑا طبقہ خستہ حال اور ہر محاذ میں قابل رحم نظر آ رہا ہے۔ اس کی نظریں اس دانشگاہ کی جانب اٹھی ہوئی ہیں۔ منتظر ہیں کہ کب کوئی نوید سننے کو ملے اور ہماری بدحالی کا خاتمی ہوسکے۔ آ ج ملک میں جو ماحول ہے اس کو ہم کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کرسکتے پیں۔ ان سب حالات سے نبرد آ زما ہونے کے لئے ہمیں تعلیم و تعلم اور تدریس وتربیت پر پوری توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کو قائم کیا جائے تاکہ سر سید کے خوابوں کی تعبیر پوری ہوسکے۔ وابستگان دانشگاہ کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور تعلیم و دانش کے فروغ و ارتقاء کے لئے کوئی مضبوط و مستحکم لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ کیوںکہ تعلیم ہی ایک ایسا عملی ہتھیار ہے جس سے مسلم کمیونٹی کی عظمت رفتہ کی بحالی ممکن ہے۔ جو جہاں ہے جس حیثیت کا بھی مالک ہے اسے وہیں سے اپنی حیثیت و قوت کے بقدر تعلیمی سلسلہ کو آ گے بڑھانا ہوگا۔ آ ج ہمارے لئے مغربی تعلمی ادارے اور ان کا نظام تعلیم ،رول ماڈل ہیں۔ تو یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم اپنے نظام و نصاب تعلیم کو با اثر نہیں بنا سکتے ہیں ؟ تاکہ ہمارا تعلمی نظام بھی دنیا کے لئے نمونہ ہو ذرا سوچئے اور غور کیجئے ۔ شعبہ معاشیات سے لیکر دیگر سائنسی علوم وفنون میں مسلم اسکالر کی گراں قدر خدمات ہیں۔ ایک نہیں سیکڑوں نام ہیں جنہوں نے جدید ٹیکنالوجی کو ایجاد کیا۔ ابوالقاسم زہراوی۔ ابو الہیثم، افلاطون ، امام رازی، ابن ماجہ وغیرہ وغیرہ، افسوس یہ ہیکہ آ ج ہم نے ان کو یکسر فراموش کردیا۔ اگر ہم ان کی قدر کرتے تو یقینا۔ ہمارا فکری اور تعلمی نظام اس قدر بے اثر نہیں ہوتا۔یہ سچ ضہے کہ جوقومیں علم و سائنس اور جدید علوم و فنون کی قدر کرتی ہیں وہ ہمیشہ سرخ رو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ مغرب نے ان کو عشق کی حدتک اپنایا جس کی وجہ سے ان کے ہر قول و فعل کو لائق تقلید اور نمونہ عمل سے تعبیر کیا جاتا۔ ہمارے فکر و نظریہ میں جس جمود و تعطل کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کے اندر توازن و اعتدال لانا ہوگا۔ سر سید نے نظام و تعلم و تربیت کے حوالے سے جو فکر دی تھی اس کی روشنی میں آ گے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سر سید کی زندگی یہ بھی پیغام دیتی ہے کہ حالات موافق ہوں یا مخالف ہر وقت تعمیری اور فکری کام انجام دیا جا سکتا ہے۔ البتہ ہمارے اندر اخلاص و وفا اور مشن و مقصد سے سچی انسیت و لگاؤ ہو۔ یہ بات ذہن میں بٹھانی ہوگی کہ جب تک ہم تعلیم و تربیت اور عصری علوم و فنون میں اپنی حیثیت و اعتبار کو دیگرقوموں کے مساوی نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اپنے داخلی مسائل میں ہی الجھے رہیں ۔ باہمی تنازع سے ملت کا جو نقصان ہوا ہے یا ہورہا ہے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ ایک بار پھر ہمیں تعلیم کے لئے انقلابی صور پھونکا ہوگا اور قوم کے نونہالوں اور بچوں کے دل میں علم وفن کی ترویج واشاعت کے فوائد کو جاگزیں کرنا ہوگا۔ تبھی جاکر ہم بانئی دانشگاہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے فروغ تعلیم کے مشن کے سچے وفادار ہوپائینگے۔

Comments are closed.