Baseerat Online News Portal

تعلیم اور بیروزگاری پر مہنگائی کا بلڈوزر

 

ڈاکٹر سلیم خان

اتر پردیش میں صوبائی انتخاب سے قبل ریاست  کو اُتم (بہترین) پردیش بنانے کی وعدہ  کیا گیا تھا ۔ اس وعدہ کو نبھانے کی خاطر  سرکار نے  الہ باد سینٹرل یونیورسٹی کی فیس میں اضافے کا اعلان کردیا ۔ ملک میں مہنگائی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے۔  اس  کے  ہیبت ناک اثرات  نےالہ باد یونیورسٹی کے طلباء کو سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے پر مجبور کردیا ۔ سرکاری حکمنا مہ کے مطابق  اب گریجویٹ طلباء کو 975 روپے کی بجائے 3901 روپے سالانہ فیس  ادا کرنا ہوں گے۔ یہ چار سو فیصد کا نامعقول اضافہ   مودی اور یوگی سرکار کی اندھیر نگری  ہے۔  اس لیے کہ سینٹرل یونیورسٹی ہونے کے سبب اس  میں مرکزی حکومت کا عمل دخل ہے نیز چونکہ یہ اترپردیش میں ہے اس لیے یوگی سرکار بھی ذمہ دار ہے۔ فیس کے اضافے سے کوئی شعبہ محفوظ نہیں  ہے مثلاً پریکٹیکل کی فیس 145 روپے سے بڑھا کر 250 روپے کر دی گئی ۔ اسی طرح ایم اے کی فیس 1561 روپے سے بڑھا کر 4901 کر دی گئی ۔ ایم ایس سی کی فیس 1861 سے بڑھا کر 5401، ایم کام 1561 سے بڑھا کر 4901، تین سالہ ایل ایل بی کی فیس 1275 سے بڑھا کر 4651اور ایل ایل ایم کی فیس 1561 سے بڑھاکر 4901 کر دی گئی ہے۔ اس طرح گویا یوگی جی کے بلڈوزر نے پورے فیس کے نظام کو ہی روند کر رکھ دیا ہے۔

اس معاملے سب سے غیر معمولی اضافہ   پی ایچ ڈی کی سالانہ فیس میں ہوا جس کو  501 سے بڑھا کر  15300 روپے کردیا گیا ۔ اس  کا  سیدھا مطلب یہ ہے کہ حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ ہمارے طلباء  ڈاکٹریٹ کریں ۔  اس کے پیچھے  بیروزگاری کے  مسئلہ کا حل بھی پوشیدہ ہے۔ ملک میں آئے دن پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے۔ چند سرکاری ملازمتوں کی خاطر ہزاروں درخواستیں موصول ہوجاتی ہیں ۔ چپراسی کی نوکری کے لیے جب کوئی پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ نوجوان درخواست دیتا ہے تو ذرائع ابلاغ میں ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ حکومت کی بدنامی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی ناخواندہ یا کم پڑھا لکھا نوجوان بیروزگار ہو تو اس کے لیے خود اسی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے ۔ اس کے اعزہ و اقارب بھی  طعنہ مارتے ہیں کہ اگر پڑھ لکھ لیتا تو یہ حالت نہیں ہوتی ۔ وہ سرکار کی جانب سے سال میں سو دن کی معمولی مزدوری پر احسانمند ہوتا ہے۔ بیروزگاری  کے مسئلہ کا حل یہ   بھی ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری  یعنی نہ کوئی  غریب  ہوپی ایچ ڈی  ڈگری  یافتہ اور   نہ اس کی وجہ سے ہو سرکار کی بدنامی ۔  موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ صرف مٹھی بھر سرمایہ دار کاروبار کریں  ۔ دنیا بھر سے مال منگوا کر ہندوستان میں بیچیں اور عام لوگ ان کے سامان کو پہنچانے کا یعنی ڈیلیوری کا کام کریں ۔  اس کے لیے پی ایچ ڈی تو دور گریجویشن کی بھی ضرورت  نہیں ہے۔

 یوگی سرکار نے مدرسوں کے سروے کی آڑ میں الہ باد یونیورسٹی کے اندر بڑا کھیلا کردیا ۔ اس  سرکار ی جبر کے خلاف یونیورسٹی کے طلباء  مظاہرےکرنے کی خاطر سڑکوں پر اتر آئے  ۔ یہ ہنگامہ  اس وقت بے قابو ہو گیا جب گونگی بہری سرکار کے سامنے  صدائے احتجاج  بلند  کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس یونین بلڈنگ پر بھوک ہڑتال کرنے والے  ایک طالب علم نے خودکشی کی کوشش کردی۔ یوگی سرکار  کے لیے یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ اس  طالب علم نے پولیس پر اپنے اہل خانہ  کے استحصال کا الزام عائد کیا۔  ایک طرف تو طلباء برادری میں اس ناعاقبت اندیش فیصلے سے زبردست بے چینی ہے اور دوسری جانب یونیورسٹی فیس میں اضافے کے پیچھے یہ دلیل دے رہا ہے کہ 1922 میں طے شدہ فیس ہنوز جاری ہے اس لیے 100 سال بعد یہ  اضافہ کیا گیا ۔  سوال یہ ہے کہ سو سال کی نیند سے بیدار ہوکر  اچانک اتنا زیادہ فیس بڑھا دینا کہاں کی دانشمندی ہے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ انتظامیہ نے اس کا تقابل نجی یونیورسیٹیوں سے نہیں کردیا  ورنہ تو بیچارے طلباء شرم سے پانی پانی ہوجاتے۔

الہ باد یونیورسٹی کے بے حس انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے اس مرکزی یونیورسٹی میں عموماً کسانوں اور کم آمدنی والے گھرانوں کے بچے ہی پڑھنے آتے ہیں۔ طلباء کی دلیل یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی کے سامنے کوئی مالی مسئلہ ہے تو اسے اپنے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا چاہیے۔ طلبا سے مکمل وصولی کرنا درست نہیں ہے۔ اگر یونیورسٹی نے فیس میں اضافہ کرنا تھا تو اس میں تھوڑا بہت  اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ عقلمندی کی بات مودی اور یوگی سرکار کی سمجھداری میں کیسے  آسکتی ہے جو ہزاروں کروڈ اشتہار بازی پر خرچ کرکے الیکشن جیتنے میں یقین رکھتی ہے۔ ویسے یہ خوش آئند بات ہے کہ الٰہ آباد سنٹرل یونیورسٹی کے طلبا کا  احتجاج  رنگ لایا اور اس نے  انتظامیہ کو  پی جی داخلہ کا عمل  ملتوی کرنے  پر مجبور کر دیا۔ موجودہ سرکار لاتوں کی بھوت ہے اس لیے باتوں سے نہیں مانتی ۔ اس کی ناک جب تک جگائی نہ جائے وہ منہ نہیں کھولتی۔

اتر پردیش میں حزب اختلاف کے رہنما اکھلیش کو بھی اس کا احساس  ہوگیا ہے اس لیے انہوں نے مانسون سیشن کے پہلے ہی دن  زبردست احتجاج  کا اعلان کردیا ۔  اس سال کے ابتداء میں انتخابی  ناکامی کے بعد سماجوادی پارٹی مایوسی کا شکار ہوگئی تھی کیونکہ اس کے بعد جو قانون ساز کونسل کے انتخابات ہوئے اس میں  اسے بی جے پی نے بری طرح روند کررکھ دیا۔ آگے چل کر جو ضمنی انتخاب ہوئے اس میں نہ تو اکھلیش اپنی اعظم گڑھ کی نشست بچا پائے اور نہ اعظم خان کو جیل سے رہائی کے باوجود رامپور جیتنے میں کامیابی ملی۔ ان دونوں مقامات پر بی جے پی نے اپنی کامیابی درج کروا کرسماجوادی  سائیکل کی ہوا نکال دی۔   اس دوران اکھلیش کے چاچا شیوپال یادو بی جے پی کے ساتھ پینگیں بڑھا کر بھتیجے کا بلڈ پریشر بڑھاتے رہےاور  اکھلیش یادو کی سرگرمیاں ٹوئٹر پر لطیفے بازی تک محدود ہوکر رہ گئیں ۔ یوگی جی پر مختلف مضحکہ خیر تبصرے کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بن  گیا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ راہل گاندھی سے ترغیب لے کر انہوں نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

سماج وادی پارٹی نے امن و امان اور مہنگائی جیسے مسائل پر حکومت کو گھیرنے کی خاطر اکھلیش یادو کی قیادت میں ارکان اسمبلی  وقانون ساز کونسل کے ساتھ  پارٹی دفتر سے اسمبلی  تک پیدل جلوس نکالا۔اس میں شک نہیں کہ اس بار سماجوادی پارٹی  اقتدار میں آنے چوک گئی مگر اس کو 37فیصد ووٹ ملے ۔ اس سے قبل وہ اقتدار میں آری رہی مگر اس کے ووٹ کا تناسب  30 فیصد یا اس سے کم ہی رہا۔  عوام کی یہ زبردست  حمایت اس بات کا تقاضہ  کرتی رہی کہ اکھلیش میدان میں اتر کر یوگی کو چیلنج کریں مگر خود اعتمادی کی کمی ان کے پیروں کی زنجیر بنی رہی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔  سماج وادی پارٹی کی طرف سے یہ مارچ بے روزگاری، مہنگائی، خواتین کے خلاف جرائم اور امن و امان کی ابتر حالت سمیت مختلف مسائل کے خلاف نکالا تھا۔ اس  جلوس کو یوگی جی نظر انداز نہیں کرسکے  اور انہوں نے  پولیس  کو جلوس روکنے کا حکم دے  دیا۔

سرکار کی اس دھاندلی  کے جواب میں  اکھلیش وہیں دھرنے پر بیٹھ گئے۔ ان  کے ساتھ ایم ایل اے بھی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اس سے حالات کشیدہ ہوگئے اور حفاظتی دستوں  کی بھاری نفری تعینات کرنی پڑی ۔ اکھلیش یادو نے اپنا دھرنا ختم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام محاذوں پر ناکام اتر پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا یہ کس طرح کی حکومت ہے جو اراکین اسمبلی اور سابق وزراء کو اسمبلی نہیں جانے دے رہی ہے؟ آخر ہم صرف عوام کے مسائل ہی تو اٹھانا چاہتے ہیں۔ حکومت اپوزیشن کا سامنا کرنا کیوں نہیں چاہتی ہے؟ اکھلیش نےالزام لگایا  کہ ’’موجودہ حکومت میں بدعنوانی اپنے شباب پر ہے۔ ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار کے جو خواب دکھائے تھے وہ سب جھوٹے ثابت ہوئے۔ آج ہر چیز کی نجکاری کر کے نوجوانوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے۔ نوجوان اگنی ویر اسکیم سے مطمئن نہیں ہیں۔‘‘

اترپردیش  میں سماجوادی پارٹی کی حلیف  آر ایل ڈی کے تمام ارکان اسمبلی نے بھی اسمبلی کے باہر ہاتھ میں بینر اور تختیاں لے کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ آر ایل ڈی ممبران اسمبلی نے گئوبھگت سرکار کو   لمپی وائرس سے گائیوں کی موت کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ یوگی جی کو گائے کے ساتھ کھنچوانے کا بہت شوق ہے۔ شاہ جی بھی گائے کو چارہ کھلاتے ہوئے تصویر کھنچواتے ہیں مگر تعجب ہے  اب جبکہ گائیں وباء کا شکار ہیں اپنی خود ساختہ ماتا کی ہمدردی میں ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں پھوٹتا۔ ، دلتوں پر مظالم کے تئیں مایاوتی نے بی جے پی کی ناراضی کے ڈر سے خاموشی اختیار کررکھی ہے لیکن جینت چودھری نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ جاٹوں کی پارٹی  بجلی بحران اور  کسان کو بھول جائے یہ ناممکن ہے اس   لیےکسانوں پر ہونے والی ناانصافی پر بھی لب کشائی کی گئی ۔ نوجوانوں  سے متعلق مسائل پر بھی  احتجاج کیا گیا۔ آر ایل ڈی اور سماجوادی پارٹی اگر انتخاب کے علاوہ بھی عوامی مسائل کو اٹھاتے رہیں گے تبھی ان کو الیکشن میں فائدہ ہوگا ورنہ انتخابی مہم کوئی بڑا فائدہ نہیں کرسکے گی۔ اکھلیش  اور جینت کے بعد اگرملک کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ چل پڑے توسرکار دربارکےو سے  ہوش  ٹھکانے  آجائیں گےاور   بیروزگار نوجوان بلڈوزر کا رخ موڈ کر اقتدار کو روند دیں  گے۔

Comments are closed.