Baseerat Online News Portal

جامع آیا صوفیاکو گرجا کہنا ہی غلط ہے۔۔۔۔!

قول سدید: مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
وہ1443عیسوی سے مسجدتھی اورتاقیامت مسجد ہی رہے گی۔اورالحمدللہ آج وہ85 سال بعد اپنی اصلی حالت پربحال ہوئی ہے۔
جامع آیا صوفیا کی وہ سرخ آنکھیں جو گذشتہ 85سالوں سے آنسو بہارہی تھیں اور اسکے آنسو خشک نہیں ہورہے تھے آج ایک بار پھر وہ بہتے آنسو جھرنوں میں تبدیل ہوگئےمگر دونوں میں فرق تھا ۔وہ آنسوجو سجدوں سے محرومی میں رنج والم کی داستان بن کے لہو کے قطروں کی مانند ٹپک رہے تھے،آج آیا کی آنکھوں سے وہ آنسوصدمے سے نہیںبلکہ مسرت وشادمانی سے ٹھنڈے آبشار کی علامت بن کے چھلک رہے تھے اورامت مسلمہ کے قلب وجگر کوراحت وحیات دینے اور ٹھنڈک پہونچانے کےلئے ابل پڑے تھے۔
وہ آیا صوفیا جس کی درودیوار اورمنبرومحراب سے داؤدی سر میں أذان وتکبیر کی دھیمی دھیمی آوازیں آتی تھیںمگر کوئی سننے والانہیں تھا ،آج اس کے دردوکراہ کاپیمانہ چھلک کے باہر آہی گیااور اپنے چاہنے والوں کو اپنی طرف کھینچ ہی لایا۔اللہ تعالی اس مرد خوش بخت کو سلامت رکھےجس کی بے لوث قیادت میں خالق ارض وسما ٕ نے اسے یہ دن مقدر کیا تھا اورمحرومی کے دن ہواہوئے۔اللہ اپنے ان نیک طینت بندوں کے قلم کی تاثیر کو قیامت تک باقی رکھےجس نے کرسی عدالت پہ انصاف کے جملے لکھےاور اس نے اپنانام ”قاضی الجنۃ“ کی فہرست میں لکھوالیا۔اس نے اپنے کردار سے دنیاکوبتادیاکہ روئے زمین پر ابھی بھی انصاف زندہ ہے۔آخر کار کمالی جبروت کا طلسم ٹوٹا جس نے اللہ کے گھر کو 85سالوں تک ایک تفریح گاہ ’’جسے میوزیم کا نام دیاجاتاہے‘‘میں تبدیل کرکے اہل توحید کے سجدوں سے محروم کر رکھا تھا اور دنیا اس سجدہ گاہ کو جوتوں سے روندتی رہی۔اللہ نے آج ان شیاطین کے منہ کالے کئے اوراپنے محبوب بندوں کو اس کی تعمیر اور آبادکاری کے لئے اس کی کلید تھمادی۔”إنما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر۔وأقام الصلوۃ وآتی الزکوۃ ولم یخش الا اللہ۔فعسی أولئک أن یکونوا من المھتدین۔“(سورہ توبہ18)
آیا صوفیا کی تاریخی اورشرعی حیثیت:
اس کی تاریخی حیثیت دنیاپر عیاں ہے کہ جب فاتح اعظم سلطان محمد فاتح علیہ الرحمہ نے1443 عیسوی میں شہر قسطنطنیہ پر فتح پائی اور وہ بھی صلح کی پیش کش کے بعد جس کو اس وقت کی بازنطینی حکومت نے قبول نہیں کیا تو پھر وہ اس شہر کے ساتھ پورے اناطولیہ خطہ کے مالک ومختار بن گئے اور اس وقت کے جنگی اور عسکر ی قانون کے مطابق ہر فاتح کو اپنے مملوکہ علاقے کی ہرچیز پر تصرف کا پوراحق ہوتاتھا اوریہ اس وقت کا دستور بھی تھا۔اس اعتبار سے ان کو یہ حق تھا کہ جس جگہ کوچاہیں مسجد بنائیں ،جسے چاہیں فوجیوں کی چھاؤنی میں تبدیل کریںاور جسے چاہیں جاگیر میں دیدیں۔اس اعتبار سے بھی ان کا یہ اقدام درست تھاکہ وہ اس گرجا کو مسجد میں تبدیل کردیںاور انھوں نے کیا۔جوعقلی ،شرعی اور سیاسی حقوق ہرلحاظ سے درست اورجائز تھا۔اس کے بعد اس گفتگو کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس گرجا کو مسجد بنانادرست تھایا نہیں؟ورنہ پھر بہت سے ایسے سوالات تاریخی نوعیت کے کھڑے ہوجائیں گےاور بات بہت دور تک جائے گی ۔ اس لئے سیاسی طورپر بعض لبرل حضرات جو غیر ضروری سوالات اٹھارہے ہیں وہ بے معنی اورتاریخی حقائق اور دورقدیم کی انسانی روایات جن پر وہ عمل پیراتھے سے چشم پوشی پرمبنی ہے۔ ان کو عہد جدید کی قومی روایات ومعاہدات کے فریم میں نہیں دیکھاجاسکتا۔” وہ جہاں اور تھا یہ جہاں اورہے“۔
اس پہلو سے بھی اس پر رائے زنی درست نہیں ہے کہ جب کسی خطہ کے تمام لوگ طوعایاکرھا کسی مذھب کو اختیار کرلیں خواہ اسلام ہو یاکوئی اور تواس خطہ کی تمام جیزیں جو ان کی ملکیت میں ہوں ان کو اپنی مرضی اورعقیدے کے مطابق استعمال کرنے کا انسانی حق ہے جسے آج بھی تسلیم کیاجاتاہے اورپہلے بھی کیاجاتاتھااوراسے کوئی غلط قرار نہیں دے سکتا۔جیسےمصر وشام اوردیگر علاقوں میں ہوا۔اس وقت بازنطینی اقتدار کے خاتمہ کے بعد سلطان محمد فاتح علیہ الرحمہ نے وہاں کے عیسائی باشندوں کو نکالانہیں ،جس طرح قرطبہ اور اشبیلیہ سے مسلمانوں کویاتو عورتوں اوربچوں سمیت شہید کردیاگیا یا کشتیوں میں بھرکر شہر بدر کیاگیا یاکشتیاں سمندر میں غرق کردی گئیں اور ان کو سمندر کے حوالہ کردیاگیابلکہ قسطنطنیہ کے تمام باشندے وہیں رہے اوررفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔جب انھوں نے برضاورغبت اسلام قبول کرلیا۔تووہاں کی ہر شئی خواہ گرجا ہو ،معبد ہو یاکوئی اور چیز سب ان کی ملکیت ہوئی ۔اب ان کی مرضی ہے انھیں جس مصرف میں چاہیں استعمال کریں۔دوسرے کو کیاحق پہونچتاہے اور وہ بھی چھ سوسال بعد کہ اس پر رائے زنی کریں؟ اگر اس دور کے لوگوں نے اپنے عقیدے کی اصلاح کی روشنی میں گرجاکو مسجد میں تبدیل کردئیے جانے پر رضامندی ظاہر کردی تو انھوں نے اپنی مرضی سے اپنی چیزتبدیل کی اور مسجد بنالی تووہ مسجدہوئی گرجا نہیں رہا۔اس لئے آیا صوفیہ کو گرجا کہنے یاہونے کاسوال ہی غلط ہے۔اور خواہ مخواہ خود کولبرل ثابت کرنے کے لئے ایک مسجد کو گرجا ثابت کرنے کے مترادف ہے۔
اس لئے کمال اتاترک نے جس عمارت کو میوزیم میں تبدیل کیا ،اس گرجا کو میوزیم بنانا نہیں ،بلکہ مسجد کو میوزیم میں تبدیل کرنا کہا جائے گااور اتاترک کے اس اقدام کو غیر شرعی، غیر دینی اور غیر سیاسی کہاجائے گا ۔اور اس وقت جو صورت حال ہوئی ہے اسے اس غلطی کی اصلاح کا نام دیاجانا حق بہ جانب ہوگا۔اس کے علاوہ کوئی اور بات کہنا دنیا کے ذہن کو غلط رخ پہ لے جانا اور مسلمانوں کے تعلق سے بغض وعناد کی آگ بھڑکاناہے جو نامناسب بات ہے۔
مسجد کاشرعی حکم:
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ آیا صوفیا گرجا نہیں مسجد تھی تو اب مسجد کی شرعی حیثیت بھی جان لیتے ہیں ۔
اسلامی اورشرعی اعتبار سے جب کسی جگہ ایک بار مسجد بن جاتی ہے تو تاقیامت مسجد ہی رہتی ہے چاہے اس کی کیفیت اورہیئت تبدیل کردی جائےمگر حیثیت تبدیل نہیں ہوسکتی۔یہ مسجد کے سلسلہ میں شرعی موقف ہے۔لہذا جب اتاترک نے اسے میوزیم میں تبدیل کیا تو اس نے مسجد کے ساتھ ظلم روارکھااور اللہ کے گھر کو ویران کرنے کی مذموم حرکت کی۔جس کی مذمت قرآن میں وارد ہے”ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ أن یذکر فیھااسمہ وسعی فی خرابھا“(سورہ بقرہ۔114)(اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو لوگوں کو اللہ کے گھر اور مساجدسے روکے کہ اس میں اللہ کےنام کاوردکیاجائے اور اس کی ویرانی کے درپے ہو)
یہ موجودہ مسلمانوں پر قرض تھا کہ اسے اصلی حالت پر واپس لائے۔اسلئے آج جب 2020میں 1935 میں مقفل اور میوزیم میں تبدیل کی گئی مسجد کو جومسجد کی حالت میں واپس لایاگیا اور عمومی نماز کی اجازت دی گئی ہے یہ در اصل مسجد کو مسجد کی شکل میں بحال اور آبادکیاگیا ہے جو ترکی حکومت کی طرف سے ایک مبارک اور مستحسن قدم ہے۔اس پر پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو خواہ مسلمان ہوں، عیسائی یایہودی اور دیگرمذاھب کے لوگ مبارک باد بھی دینی چاہئے اورخوش بھی ہوناچاہئےکیونکہ قابل صداحترام ترک صدررجب طیب اردغان کا یہ قدم حقیقت پسندی اورریئلزم اورحق کی راہ میں اٹھایاجانے والاقدم ہے نہ کہ غلط سیاسی فیصلہ ،جیسا کہ بعض لوگ کہتے پھررہے ہیں۔
بہر حال کسی کی نظر میں یہ غلط سیاسی فیصلہ ہومگر اللہ کی نظر میں توپسندیدہ ہے۔اور ایک مومن کو اللہ کی رضا چاہئے اہل جہاں کی نہیں۔اللہ تعالی دنیاکے لوگوں کو حق وسداد کی راہ اورحق کہنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

Comments are closed.