Baseerat Online News Portal

جانے کے بعد پچھتانا کیسا ؟ 

 

 

نور اللہ نور

 

گزشتہ چند دنوں سے اس جواں سال دوشیزہ کی خودکشی کا معاملہ زیر بحث ہے جو سماج اور معاشرے کی بے حسی اور سنگدلی کا شکار ہوگئی، جہیز کی مذموم اور رذیل لعنت نے اسے اپنا شکار بنایا.

ہمہ جہت تبصرے بازی عروج پر ہیں مبصرین کی آراء سے ہوٹل اور نشست گاہیں گرم ہیں اور لعن طعن کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے جو چند دنوں کے سرد پڑ جائے گا ، سیاسی ، سماجی ہر طبقے کے لوگ اس سفاکی پر نالاں ہیں.

یقیناً! ایسی واقعات کی مذمت ہونی چاہیے ایسے شریر طبع لوگوں سے سماجی بائکاٹ کرنا چاہیے جزرو تو بیخ کے بجائے اس کے ساتھ حتمی اور آخری فیصلہ سزائے موت ہونی چاہیے تاکہ سماج کو ایسی آلودہ ذہنیت سے آزادی ملے اور پھر کوئی "عائشہ” اس گندی ذہنیت کا شکار نہ ہو.

مگر مجھے افسوس اور رنج ہوتا ہیکہ آخر یہ ساری باتیں کسی کے ساتھ حادثہ ہو جانے کے بعد کیوں کی جاتی ہے؟ ، ہم اس سے پہلے دفعیہ کی شکل کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ کسی کے حادثہ کے شکار ہونے کے بعد ہی ہم کیوں بیدار ہوتے ہیں ؟ سانحہ کے بعد آہ و فغاں کرنے کے بجائے ہم اس برائی کے سد باب کی راہ کیوں تلاش نہیں کرتے؟ ہمیں بیدار ہونے کے لئے کسی کا متاثر ہونا امر لابدی ہے کیا ؟

 

ہمارا رنج و غم اشتعال و غصہ بجا ہے مگر ہم اس برائی کے سد باب کے لئے کوئ تدبیر کیوں نہیں کرتے، ہمارے معاشرے کی حقیقت یہ ہیکہ جب پانی حد سے متجاوز ہو جاتا ہے تب ہم بیدار ہوتے ہیں اور اس سے بڑا المیہ یہ ہیکہ یہ جوش ، جذبہ ، اشتعال و غصہ چند دنوں کے اپنے سابقہ حالت پر عود کر جاتا ہے اور ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں آخر ہوا کیا تھا.

 

یہ پہلی عائشہ نہیں ہے جو اس درندگی کا شکار ہوئی ہے بلکہ اس سے قبل نہ صرف عائشہ اور فاطمہ اس سفاکی کے نذر ہوئ ہے بلکہ پسماندہ علاقے میں "سیتا” اور نر ملا بھی شکار ہوئی ہے ” تلک ” کے نام پر بہت سی دختران قوم نے خودکشی اور خود سوزی کی ہے اور انسانیت سے عدم اطمینان کا یقین دلایا ہے.

 

روز اخبار کی سرخیاں اس سے رنگین ہوتی ہے مگر ہم نے اس کے دفاع و تحفظ کے لیے کوئ ٹھوس اقدام نہیں کیا ، کوئ منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ ہی ایسے لوگوں پر نکیل کسی جو بنت حوا تذلیل کی.

 

م ہم نے بس چند دن احتجاج کیا اسٹیٹس لگاکر رنج کا اظہار کیا اور اس کے بعد پھر خاموش ہوگئے اور کسی دوسرے کے شکار ہونے کا انتظار کرنے لگے ، ہم نے اس کے خلاف کوئی منظم لائحہ عمل تیار نہیں کیا ، کوئی ایسا قانون پاس نہیں کیا جو جہیز لینے والوں پر نکیل کسے اور دختران قوم کو تحفظ مل یہی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے کل کو کوئ فاطمہ شکار ہوئ آج ” عائشہ ” شکار ہوئ اور آنے والے کل کو کوئ رمشا اس ملعون رسم کے بھینٹ چڑھے گی.

 

 

معاشرے کی عدم توجہی نے ایسے پراگندہ ذہن کے لوگوں کو بے لگام کر دیا ، ہماری مفاد پرستی ، تساہلی اور عورت کے حقوق سے نا آشنائی، بے اعتنائی نے ان کو جری بنا دیا جس کے بنا پر یہ لوگ کسی ایک دوشیزہ کو اپنا شکار بناتے ہیں ، کسی خاندان کو جیتے جی ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں.

پتہ ہے یہ اتنے جری کیوں ہوگئے ؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے یہ معاشرہ بے حس اور خوابیدہ ہے وہ چند روز احتجاج و مظاہرے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، وہ پیسوں سے انصاف خرید لیتے ہیں اور ہم بس خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ یہ مفاد پرست اور موقع پرست لوگ ہیں انہیں انسانیت سے کوئی سروکار نہیں ہے ، ان کے ضمیر مردہ ہیں یہ لوگ ان کا بال بیکا نہیں کر سکتے.

ہم لوگوں کے گزرنے کے بعد ان کی قدر کرتے ہیں ، ان کے رخصت ہونے کے بعد ان کا درد ہمیں سمجھ آتا ہے حالانکہ ہمارے گردو پیش میں بہت سے ایسے لوگ بستے ہیں جن کو ہمیں سمجھنا چاہیے ، بہت سے شکشتہ دل ہوتے ہیں جو اپنے درد کی تلاش کرتے ہیں مگر ہم ان پر توجہ نہیں کرتے ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کو حالات سے سمجھوتا کرنے پر مجبور کرتے ہیں یہی وجہ ہیکہ وہ کبیدہ خاطر ہوکر اپنی جان گنوا دیتا ہے اپنوں کو اذیت میں ڈال دیتا ہے.

ہمیں لوگوں کی قدر ان کی زندگی میں کرنی چاہیے مرنے کے بعد پچھتانا کچھ فایدہ نہیں دیتا ہے ان کے مسائل کو ان کی زندگی میں حل کرکے ان کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ان کے چلے کے بعد رنج و الم نہ ان کے کسی کام کا ہے اور نہ ہی ہمارے

اس لئے آؤ! عزم کریں کہ ہم انسانیت کے لیے جیئں اور انسانیت کے لیے مریں اور انسانوں کی قدر ان کی زندگی میں کرنے کی سعی کریں بعد مرگ پچھتاوا نہ کریں.

Comments are closed.