Baseerat Online News Portal

جس کی محنت سے پھبکتا ہے تن آسانی کا باغ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اورملک بھی ایسا، جسے دنیاکاایک بڑاجمہوری ملک ہونے کاشرف حاصل ہے، اب سوال یہ ہے کہ جمہوریت کامطلب کیاہے؟ جمہوریت انگریزی لفظDemocracyکاترجمہ ہے، جودراصل یونانی زبان سے منتقل ہوکرآیاہے، یونانی زبان میںDemoعوام کوکہتے ہیں، جب کہ Cracyحاکمیت کوکہتے ہیں، یونانی مفکرہیروڈوٹس کے مطابق اس کامفہوم یہ ہے: ’’ایک ایسی حکومت، جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طورپرپورے معاشرہ کوحاصل ہوتے ہیں‘‘، اس تعلق سے سابق امریکی صدرابراہم لنکن کاقولgovernment of the people, by the people, for the people’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ، عوام پر‘‘کافی مشہورہے، جمہوریت کی جامع تعریف کے سلسلہ میں علمائے سیاست کابڑااختلاف ہے؛ لیکن مجموعی اعتبارسے جمہوریت ایک ایسے نظام حکومت کوکہتے ہیں، جس میں عوام کی رائے کوکسی ناکسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لئے بنیاد بنایا گیا ہو(ویکی پیڈیا)۔

لیکن جب ہم اپنے ملک ہندوستان پرنظرڈالتے ہیں اورخصوصیت کے ساتھ برسراقتدارحکومت کے فیصلوں اور پالیسیوں کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں توصاف محسوس ہوتاہے کہ جمہوریت کاجنازہ اوراس کی ارتھی کاندھوں پراٹھ چکی ہے،بس اب قبرمیں دفن کرنے یااسے جلادینے کی کسرباقی رہ گئی ہے،2014کے قومی انتخاب سے پہلے پہلے تک کچھ امید باقی اورکچھ ایمان جمہوریت پرقائم تھا؛ لیکن2019کے انتخاب کے بعد امید کی ڈورٹوٹ چکی ہے اورایمان اٹھ چکاہے اوریہ میراہی مسئلہ نہیں ہے، یہاں کے فلمی دنیاکے لوگوں نے بھی اس تعلق سے بے اطمینانی کااظہارکیاہے، یہاں کے ادباء نے بھی، یہاں کے ججزنے بھی، یہاں کے نوجوانوں نے بھی، یہاں کے بوڑھوں نے بھی، یہاں کی خواتین نے بھی، یہاں کے بچوں نے بھی، اوراگریہ کہاجائے کہ پورے ملک کے لوگ بے چینی کے شکارہیں توبے جانہ ہوگا۔

برسراقتدارحکومت نے پہلے تومسلم دشمنی کاثبوت دیااورایسے فیصلے کئے، جن سے ان کے مذہب پرچوٹ پڑرہی تھی؛ حتی کہ ملک بدر کرنے کی پلاننگ بھی کردی گئی، کالے دھن کے نام پرنوٹ بندی کی گئی اورتمام لوگوں کوپریشانی میں مبتلا کیا گیا، نوٹ بندی کے تعلق سے جودعوے کئے گئے تھے، وہ سب کھوکھلے نکلے، دقت اورپریشانی میں عوام مبتلاہوئی، کتنوں نے خودکشی کرلی، کتنوں کی جانیں بینک کی لائنوں میں چلی گئیں؛ لیکن حکومت پرکوئی اثرنہیں ہوا، جی ایس ٹی لاگوکیاگیا، اس کی وجہ سے بھی کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، گیس ، ڈیزل اورپٹرول مہنگے کردئے گئے، جس کے بوجھ سے لوگوں کی کمرجھک گئی، اشیائے خودنی کی قیمتیں آسمان تک جاپہنچیں، چاول مہنگے، دالیں مہنگیں، سبزیاں مہنگیں، آلواورپیاز نے تورلاکرہی چھوڑا، آج بھی پیاز 45اورآلو35روپے کیلوخریدنے پرعوام مجبورہے، پھربل پاس کراکے آلوپیاز وغیرہ کوضروری اشیائے خودنی سے خارج کروا دیا گیا، جوچیز سالہاسال سے اشیائے خوردنی میں شامل ہواورواقعی لوگ اسے اشیائے خوردنی کے طورپراستعمال کرتے ہوں، ان چیزوں کواشیائے خوردنی سے خارج کردینے کافائدہ کیا؟صاحب کے مشروم کی قیمت ہی صرف8000بتائی جاتی ہے؛ لیکن بے چاری عوام پیازبھی نہیں کھاسکتی۔

2019کے آواخرمیںCABلایاگیااورآناً فاناً CAAمیں تبدیل کردیاگیا، ابھی حال ہی میں زرعی بل لایاگیا اور ہزاراحتجاجات کے باوجودقانون بنادیا گیا؛ بل کہ آج بھی لوگ ریل کی پٹریوں پراحتجاج میں بیٹھے ہیں، ٹرینیں بند ہیں، پورے ملک کے کسان اوران کے لیڈران اورماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اس قانون سے کسانوں کاکم، کارپوریٹ سیکٹرکا فائدہ زیادہ ہے؛ لیکن پی ایم یہی سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ آپ کے حق میں مفید ہے، وہ قانون کیسے ان کے حق میں مفید ہے، جس کے تعلق سے وہ مطمئن نہیں، یہ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کے تعلق سے قانون بنایا گیا، ان سے کوئی مشورہ ہی نہیں لیاگیا، اس سے قبل مسلم قوم کے تعلق سے کئی فیصلے سپریم کورٹ کے ذریعے کروائے گئے، اسلامی شریعہ کے ماہرین سے کوئی مشورہ نہیں لیاگیا، آج کل اگرباپ گھرکے تعلق سے کوئی فیصلہ کرتاہے توپہلے گھروالوں سے مشورہ کرلیتا ہے، بیٹے یابیٹی کی اگرشادی کرنی ہو توپہلے ان سے پوچھاجاتاہے، اورتعلیم یافتہ لوگوں کی یہی پہچان ہے؛ لیکن جن گھروں میں تعلیم کی کمی ہوتی ہے یاوہ فرسودہ ذہن کے ہوتے ہیں، وہ فیصلے تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی تناظرمیں ملک کے فیصلوں کوبھی دیکھا جائے، یہ ملک جمہوری ہے، عوام نے آ پ کونمائندہ بنا کر بٹھایا ہے، کوئی بھی قانون لانے سے پہلے اس قانون سے متعلق لوگوں سے رائے لینی چاہئے تھی، تعلیم سے جوبہرہ ورہوتے ہیں، وہ اپنی رائے تھوپتے نہیں، ملک کے لوگوں کے لئے آپ قانون بنارہے ہیں توپہلے عوامی سطح پراس کی تشہیرہونی چاہئے اورخوبی وخامی پربحث ہونی چاہئے، پھرجاکرقانون بناناچاہئے، یہ جمہوریت کے نام پرآمریت ہے کہ ہزاراحتجاجات کے باجود آپ قانون تھوپ رہے ہیں، یہ عوام کی حکومت کہاں رہی؟ یہ تو ڈکٹیٹرشپ ہے، اورجمہوری ملک میں ڈکٹیٹرشپ نہیں چلتی۔

اس ملک کے کسان آج سے نہیں؛ بل کہ زمیں داری کے زمانہ سے ہی مختلف قسم کے مسائل سے جھوجھ رہے ہیں، زمیں داری ختم ہوئی تویہ سوچا گیا کہ کسانوں کے مسائل حل ہوں گے، کچھ حل ہوئے بھی ؛ لیکن اب اس سے زیادہ مسائل پیداہوگئے ہیں، اگران کے مسائل حل ہوتے تووہ خودکشی کیوں کرتے؟ کسانوں کی خودکشی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے مسائل ابھی حل نہیں ہوئے ہیں، ان کے مسائل حل کرنے کی فکرکرنی چاہئے، نہ کہ ان کے مسائل بڑھانے کی کوشش ہونی چاہئے۔

جس طرح ڈاکٹروں کی ضرورت جسمانی علاج کے لئے ضروری ہے، اسی طرح جسم کی خوراک کے لئے کسانوں کا ہونا بھی ضروری ہے، اگرکسان نہ ہوں توہمیں کھانا کہاں سے میسرہوگا؟ جسم کواصل طاقت غذاسے حاصل ہوتی ہے، دواسے نہیں، اصل طاقت پہنچانے والے گرے پڑے لوگ سمجھے جاتے ہیں، وہ طرح طرح کے مسائل سے دوچارہیں اوردواداروکرنے والے دادعیش دے رہے ہیں، ان کے پاس پیسوں کی کمی نہیں اوریہ بدن ڈھکنے کے لئے کپڑوں کے بھی محتاج، کیاکبھی سناہے کہ کسی ڈاکٹرنے اپنے پیشہ سے تنگ آکرخودکشی کرلی ہو؟ لیکن بے چاے کسان! ہزاروں نے اپنے پیشہ سے تنگ آکرخودکشی کرلی ہے، کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں، صرف اس لئے کہ وہ جسمانی طاقت کی اصل غذائیں فراہم کرتے ہیں، سچ بھی یہی ہے، یہ دنیابدل چکی ہے، دنیاوالوں کی سوچ بدل چکی ہے، جھوٹ کوسچ ماناجاتاہے اورسچ کوجھوٹ، جولوگ دھوپ اوربارش کی پرواہ کئے بغیرمٹی سے سونا نکالتے ہیں، ان کی کوئی قدرنہیں اورجولوگ نقلی دوائیں دے کرمریض اورلاچارکردیتے ہیں، وہ بھگوان ہیں، بھگوان!

حکومت نے کسانوں کے تعلق سے تین طرح کے بل پاس کئے ہیں: (۱) کسانوں کی پیداواری تجارت(فروغ اورسہولت کاری) بل 2020(۲) کسان(خودمختاری اورتحفظ) قیمتوں کے تیقن اورکھیتی سے متعلق خدمات بل2020(۳) لازمی اشیاء (ترمیمی) بل2020، حکومت کاکہناہے کہ ان بلوں کے ذریعہ سے کھیتی باڑی کے سیکٹرکی ترقی اورکسانوں کے مفادات کویقینی بنانے میں مدد ملے گی، اس سے مارکیٹ سے بچولیوں کاخاتمہ ہوگا، ایک قومی منڈی تشکیل پائے گی، کسان اپنی پیداوارکوکہیں بھی اورکسی سے بھی فروخت کرسکیں گے، پیداوارکی قیمت اچھی حاصل کی جاسکے گی اوراس طرح کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگاکسانوں کوسب سے زیادہ دقت کسان(خودمختاری اورتحفظ) قیمتوں کے تیقن اورکھیتی سے متعلق خدمات بل2020کولے کرہے؛ کیوں کہ اس کا تعلق کانٹریکٹ فارمنگ سے ہے، جس کاسیدھامطلب یہ ہے کہ کارپوریٹ کمنیوں کی جے جے ہوجائے گی اورایک وقت ایساآسکتاہے، جب کسانوں کواپنے قرضوں کی ادائے گی کے لئے اپنی زمینوں کوان کمپنیوں کے حوالہ کردیناپڑے۔

اگرکسان کاشت کاری چھوڑدیں توملک میں اجناس کی قلت ہوگی یانہیں؟ دوسرے ملکوں سے اجناس کی خریداری کی جائیگی یانہیں؟ ملک کی خوش حالی کامدارانھیں سے توہے، روپے پیسوں سے اجناس خریدسکتے ہیں، پیٹ نہیں بھرسکتے، کسی زمانہ میں تقریباً دیہات کے تمام ہی لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے، اب نہیں کرتے، اب وہ کہتے ہیں کہ کوئی فائدہ ہی نہیں، اناج سے زیادہ خرچ ہی ہوجاتاہے، توپھرکھیتی کرکے فائدہ کیا؟ زرعی قانون کے ذریعہ سے بھی ایساہی ہونے والاہے، آہستہ آہستہ لوگ کھیتی کرناچھوڑدیں گے، جب کھیت سے انھیں پونجی ہی حاصل نہیں ہوگی اورنفع بھی نہیں ہوگا تووہ کھیتی کرکے کریں گے کیا؟ جب کھیت سے انھیں روزی ہی نہیں ملے گی توخوشۂ گندم کوجلانے کے سواان کے پاس چارہ کیاہے؟ ان کااحتجاج بے سبب نہیں ہے، حکومت کوکیا؟ ویسے بھی وہ ملک کی ایک ایک اینٹ کوبیچنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اگرکسان کسانی چھوڑدیں گے توان کی زمین ہڑپ کرکے بڑی کمپنیوں کی دی جاسکتی ہے؛ تاکہ وہ کاشت کاری کریں اورحکومت کوزیادہ فائدہ پہنچائیں اورعوام کوغلامی سے بدترزندگی جینے پرمجبورکردے۔

Comments are closed.